Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كتاب المحاربين
کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں
39. بَابُ مَنْ أَدَّبَ أَهْلَهُ أَوْ غَيْرَهُ دُونَ السُّلْطَانِ:
باب: حاکم کی اجازت کے بغیر اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں یا کسی اور کو تنبیہ کرے۔
حدیث نمبر: 6845
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو: أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَكَزَنِي لَكْزَةً شَدِيدَةً، وَقَالَ: حَبَسْتِ النَّاسَ فِي قِلَادَةٍ، فَبِي الْمَوْتُ لِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ أَوْجَعَنِي نَحْوَهُ". لَكَزَ وَوَكَزَ: وَاحِدٌ.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور زور سے میرے ایک سخت گھونسا لگایا اور کہا تو نے ایک ہار کے لیے سب لوگوں کو روک دیا۔ میں اس سے مرنے کے قریب ہو گئی اس قدر مجھ کو درد ہوا لیکن کیا کر سکتی تھی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ «لكز» اور «وكز» کے ایک ہی معنی ہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6845 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6845  
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ اس قدر مار سے بھی تعزیر جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6845   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6845  
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ دونوں احادیث ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے دیگر مقامات پر اس واقعہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
یہی واقعہ آیت تیمم کے نازل ہونے کا سبب بنا۔
تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس وسعت نعمت کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا:
اے آل ابی بکر! یہ تمھاری کوئی پہلی برکت تو نہیں ہے۔
(2)
ان احادیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ڈانٹا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جسمانی تکلیف پہنچائی۔
اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قسم کی اجازت نہیں لی گئی۔
بہرحال انسان اپنے اہل خانہ کو کسی غلطی کی وجہ سے تنبیہ کر سکتا ہے اور ضرورت پڑے تو ہلکی پھلکی مار بھی سکتا ہے، چنانچہ پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گزر چکا ہے کہ انھوں نے فرمایا:
اے لوگو! اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر حد جاری کرو، خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی نے زنا کیا تو آپ نے مجھے اس پر کوڑے لگانے کا حکم دیا۔
(صحیح مسلم، الحدود، حدیث: 4450(1705)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ دونوں حدیثیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آدمی اپنے اہل خانہ وغیرہ کو حاکم کی موجودگی میں ہلکی پھلکی سزا دے سکتا ہے، گرچہ اس نے اجازت نہ دے رکھی ہو بشرطیکہ وہ سزا کسی صحیح معاملے میں ہو۔
(فتح الباري: 215/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6845