صحيح البخاري
كِتَاب الْحُدُودِ
کتاب: حد اور سزاؤں کے بیان میں
7. بَابُ لَعْنِ السَّارِقِ إِذَا لَمْ يُسَمَّ:
باب: چور کا نام لیے بغیر اس پر لعنت بھیجنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 6783
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ، وَيَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ"، قَالَ الْأَعْمَشُ: كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ بَيْضُ الْحَدِيدِ، وَالْحَبْلُ كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ مِنْهَا مَا يَسْوَى دَرَاهِمَ.
ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوصالح سے سنا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے چور پر لعنت بھیجی کہ ایک انڈا چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹ لیا جاتا ہے، ایک رسی چراتا ہے اس کا ہاتھ کاٹ لیا جاتا ہے۔ اعمش نے کہا کہ لوگ خیال کرتے تھے کہ انڈے سے مراد لوہے کا انڈا ہے اور رسی سے مراد ایسی رسی سمجھتے تھے جو کئی درہم کی ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6783 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6783
حدیث حاشیہ:
لوہے کے انڈے سے انڈے جیسا لوہا کا گولا مراد ہے جس کی قیمت کم سے کم تین درہم ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6783
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6783
حدیث حاشیہ:
(1)
ابن بطال نے کہا ہے کہ گناہ گاروں کا نام لے کر ان کے روبرو لعنت کرنا درست نہیں بلکہ ایسے برے کاموں کے ارتکاب پر نام لیے بغیر لعنت کرنا جائز ہے تاکہ وہ ان سے باز رہیں۔
کسی کا نام لینے سے وہ مایوس ہو سکتا ہے اور گناہ کرنے پر جری ہو سکتا ہے۔
(فتح الباري: 99/12) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ''لعن الله السارق" کے تین معنی بیان کیے ہیں:
٭اس سے مراد خبر دینا ہے تاکہ سننے والا چوری نہ کرے، یعنی اللہ تعالیٰ نے چور پر لعنت بھیجی ہے۔
٭اس سے مراد بددعا کرنا ہے تاکہ چور، چوری سے پہلے ہی باز آجائے، یعنی اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے۔
٭اس سے مراد حقیقت کے طور پر لعنت نہیں بلکہ اس کام کی سنگینی مراد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ کام انتہائی نفرت کے قابل ہے۔
(فتح الباري: 99/12) (3)
اس حدیث سے خوارج نے استدلال کیا ہے کہ ہر قلیل وکثیر کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا لیکن یہ استدلال انتہائی کمزور ہے کیونکہ جب آیت کریمہ:
”چور مرد یا عورت جب چوری کرے تواس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔
“ (المائدة: 5: 38)
نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر مذکورہ ارشاد فرمایا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ ربع دینار کی مالیت چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔
وہ مقدار مقرر ہی اجمال آیت کا بیان ہے، لہٰذا اس مقرر مقدار ہی کو اختیار کرنا چاہیے۔
(فتح الباري: 100/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6783
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1055
´چوری کی حد کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” لعنت ہو اللہ تعالیٰ کی اس چور پر جو انڈا چوری کر کے اپنا ہاتھ کٹوا لیتا ہے۔ نیز رسی چوری کرتا ہے اور اپنا ہاتھ کٹوا لیتا ہے۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1055»
تخریج: «أخرجه البخاري، الحدود، باب قول الله تعالي: ﴿والسارق والسارقة فاقطعوا أيديهما﴾ ، حديث:6799، ومسلم، الحدود، باب حد السرقة ونصابها، حديث:1687.»
تشریح:
1. ا س حدیث سے ظاہریہ نے استدلال کیا ہے کہ قطع ید کی سزا قلیل و کثیر مال دونوں میں ہے‘ اس کاکوئی متعین و مقرر نصاب نہیں‘ حالانکہ اس حدیث میں یہ دلیل نہیں ہے‘ اس لیے کہ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ چوری کا عمل کس قدر گھٹیا اور قابل نفرت ہے کہ چور ان معمولی اشیاء کے عوض اپنے ہاتھ سے محروم ہو جاتا ہے۔
اس میں یہ صراحت تو نہیں کہ جب وہ رسی یا انڈہ چوری کرے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا‘ خواہ ان کی قیمت ربع دینار کو نہ پہنچے۔
2.اس کلام سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اس حدیث کی یہ تاویل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ انڈا ‘ رسی یا ایسی معمولی اشیاء چرانے پر چور کا ہاتھ اس لیے کاٹا جائے گا کہ جب وہ معمولی سی حقیراشیاء اٹھانے لگے تو پھر چوری اس کی عادت بن جائے گی اور یہ عادت اسے اتنی بڑی چیزیں اٹھانے کی بھی جرأت دلا دے گی جن کی قیمت اس نصاب تک پہنچ جاتی ہے جس میں وہ ہاتھ کاٹا جا سکتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1055
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4877
´چوری کی سنگینی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی لعنت نازل ہو چوری کرنے والے پر، انڈا چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور رسی چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4877]
اردو حاشہ:
(1) ”لعنت کرے“ کہ وہ معمولی چیزوں کے بدلے اپنے قیمتی ہاتھ جس کا کوئی بدل نہیں کٹوا بیٹھتا ہے۔ دنیا میں اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا؟ ہاتھ سے محرومی، زندگی بھر کی معذوری، بدنامی اور رسوائی جو مرتے دم تک جدا نہ ہوگی اور ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور ایمان سے محرومی۔ اور لعنت کیا ہوتی ہے؟ کسی شخص کا نام لے کر اس پر لعنت ڈالنا جائز نہیں، خواہ وہ کافر ہی ہو الا یہ کہ وہ کفر پر مرے یا اس کا کفر قطعی ہو۔ البتہ کسی کبیرہ گناہ کا ذکر کر کے اس کے فاعل پر (بغیر کسی کا نام لیے یا کسی کو معین کیے) لعنت ڈالی جا سکتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ لعنت سب سے بڑی بددعا ہے۔ مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی ہے، اسی لیے یہ کسی مومن کے بارے میں تو ہو ہی نہیں سکتی۔ کافر بھی ممکن ہے کسی وقت مسلمان ہو جائے، لہذا اس کے لیے بھی مناسب نہیں۔
(2) ’”انڈا، رسی“ کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے فرمایا۔ مراد معمولی چیز ہے۔ ظاہر ہے دینا کا مال کتنا بھی قیمتی ہو انسانی ہاتھ اور انسانی شرف کے مقابلے میں معمولی ہی ہے ورنہ انڈا، رسی پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا بلکہ ہاتھ کاٹنے کے لیے چوری کی ایک حد مقرر کی گئی ہے جس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔ إن شاء اللہ بعض حضرات نے بیضہ کے معنیٰ خود کیے ہیں جو لڑائی کے وقت سر پر پہنا جاتا ہے۔ وہ قیمتی ہوتا ہے۔ اس پر ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اور رسی سے مراد کشتی کے رسے لیے ہیں جو بہت موٹے ہوتے ہیں۔ قیمت بھی بہت ہوتی ہے معنیٰ تو یہ بھی بن سکتے ہیں مگر اس سے کلام کی بلاغت ختم ہو جاتی ہے۔ کلام کا مقصد تو چوری کی مذمت ہے نہ کہ ہاتھ کاٹنے کی تفصیل بیان کرنا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4877
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2583
´چور کی حد کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چور پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، وہ ایک انڈا چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے، اور رسی چراتا ہے تو بھی اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2583]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
معمولی چیز کی چوری پر ہاتھ نہیں کا ٹا جاتا جیسے اسی باب کی دوسری احادیث میں آ رہا ہےاس لیے اس احادیث کی تاویل کی گئی ہے۔
(2)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے معمولی چیزانڈا یا رسی وغیرہ چراتا ہےاور پکڑا نہیں جاتا جس کی وجہ سے بڑے جرم کا حوصلہ ہوتا ہےحتی کہ وہ قیمتی چیز چرا کر ہاتھ کٹوا بیٹھتا ہے۔
(3)
اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ بیضہ سےمراد مرغی کا انڈا نہیں بلکہ لوہے کی ٹوپی ہے (خود ہیلمنٹ)
ہےاسے بھی عربی میں بیضہ کہتے ہیں اور وہ قیمتی چیز ہے۔
اور رسی سےمراد معمولی رسی نہیں بلکہ بڑا رسا مراد ہےجو جہاز کے لنگر کو کنٹرول کرنے کےلیے استعمال ہوتا ہے اور وہ قیمتی چیز ہے۔
لیکن حدیث کےانداز کلام سے پہلا مفہوم راجح معلوم ہوتا ہے یعنی کتنا بدبخت ہے وہ شخص جو معمولی چوری کرتا ہے جس کے نتیجے میں آخر کار ہاتھ کٹنے تک نوبت جا پہنچتی ہے۔
(4)
چور کی سزا ہاتھ کاٹنا قرآن مجید میں مذکور ہے۔ دیکھیے: (سورۃ المائدہ:
آیت: 38)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2583
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6799
6799. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی چور پر لعنت کرے کہ ایک بیضہ چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور ایک رسی چوری کرنے پر بھی اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6799]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے چوری کے نصاب کے متعلق اس حدیث کو آخر میں بیان کیا ہے۔
اس میں اشارہ ہے کہ چوری کے نصاب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کو بنیاد بنایا جائے کہ کم ازکم ربع دینار یا اس کے برابر قیمت چوری کرنے پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پہلے جب حدیث بیان کی تو امام اعمش کے حوالے سے لکھا تھا کہ بیضہ سے مراد لوہے کا خود ہے اور لوگ رسی سے مراد ایسی رسی سمجھتے تھے جو کئی درہموں کے برابر ہوتی تھی، یعنی عام رسی نہیں بلکہ اس سے کوئی خاص رسی مراد ہے۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6783) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے چوری کے نصاب کے سلسلے میں بیس اقوال نقل کیے ہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق قرین قیاس یہی ہے کہ چوری کا کم ازکم نصاب ربع دینار یا اس کی قیمت ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 129/12، 130)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6799