صحيح البخاري
كِتَاب الْحُدُودِ
کتاب: حد اور سزاؤں کے بیان میں
4. بَابُ الضَّرْبِ بِالْجَرِيدِ وَالنِّعَالِ:
باب: (شراب میں) چھڑی اور جوتے سے مارنا۔
حدیث نمبر: 6779
حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْجُعَيْدِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ:" كُنَّا نُؤْتَى بِالشَّارِبِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِمْرَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، فَنَقُومُ إِلَيْهِ بِأَيْدِينَا، وَنِعَالِنَا، وَأَرْدِيَتِنَا حَتَّى كَانَ آخِرُ إِمْرَةِ عُمَرَ، فَجَلَدَ أَرْبَعِينَ حَتَّى إِذَا عَتَوْا وَفَسَقُوا جَلَدَ ثَمَانِينَ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جعید نے، ان سے یزید بن خصیفہ نے، ان سے سائب بن یزید نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور پھر عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں شراب پینے والا ہمارے پاس لایا جاتا تو ہم اپنے ہاتھ، جوتے اور چادریں لے کر کھڑے ہو جاتے (اور اسے مارتے) آخر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری دور خلافت میں شراب پینے والوں کو چالیس کوڑے مارے اور جب ان لوگوں نے مزید سرکشی کی اور فسق و فجور کیا تو (80) اسی کوڑے مارے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6779 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6779
حدیث حاشیہ:
پس شرابی کی آخری سزا اسی کوڑے مارنا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6779
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6779
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں چھ سال عمر تھی۔
ممکن ہےکہ انھوں نے اپنے والد، چچا اور دیگر بزرگوں کے ہمراہ شرابی کو مارتے وقت شرکت کی ہو، لہٰذا ان کا اسے مارنے کے فعل کو اپنی طرف منسوب کرنا حقیقت پر مبنی ہوگا۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ شرابی کو حد لگانے کے متعلق علمائے امت کی چھ آراء ہیں:
راجح رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی حد مقرر نہیں کہ بلکہ شرابی کے حسب حال صرف زدوکوب کیا جاتا تھا اور اسے شرمسار کیا جاتا، نیز عار دلانے پر اکتفا کیا جاتا تھا۔
اگر اس سلسلے میں کوئی حد مقرر کی ہوتی تو اسے وضاحت سے بیان کیا جاتا۔
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں یہ وبا زیادہ ہوئی تو انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور چالیس (40)
، پھر اسی (80)
کوڑے مقرر کیے، جن لوگوں سے مشورہ لیا گیا انھوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل پیش نہیں کیا بلکہ عقل و رائے سے کام لے کر انھیں مشورہ دیا۔
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی رجحان معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے کوڑوں کی تعداد کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا اور نہ تعداد ہی کے تعین میں کوئی مرفوع حدیث ذکر کی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ امر پر اکتفا کیا جائے۔
زیادہ سے زیادہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر عمل کیا جا سکتا ہے تاکہ لوگ اس ام الخبائث کو منہ لگانے سے پرہیز کریں۔
(فتح الباري: 91/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6779