Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْفَرَائِضِ
کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
31. بَابُ الْقَائِفِ:
باب: قیافہ شناش کا بیان۔
حدیث نمبر: 6771
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ مَسْرُورٌ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ دَخَلَ عَلَيَّ فَرَأَى أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَزَيْدًا وَعَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ، قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش تھے اور فرمایا عائشہ! تم نے دیکھا نہیں، مجزز مدلجی آیا اور اس نے اسامہ اور زید (رضی اللہ عنہما) کو دیکھا، دونوں کے جسم پر ایک چادر تھی، جس نے دونوں کے سروں کو ڈھک لیا تھا اور ان کے صرف پاؤں کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6771 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6771  
حدیث حاشیہ:
یہ شخص قیافہ شناس تھا۔
اس نے ان دونوں کے پیروں ہی سے پہچان لیا کہ یہ دونوں باپ بیٹے ہیں۔
بعض لوگ اس بارے میں شک کرنے والے بھی تھے ان کی اس سے تردید ہو گئی۔
آپ کو اس سے خوشی حاصل ہوئی۔
بعض دفعہ قیافہ شناس کا اندازہ بالکل صحیح ہو جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6771   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6771  
حدیث حاشیہ:
(1)
زمانۂ جاہلیت میں لوگ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں بہت طعن کرتے تھے کیونکہ ان کا رنگ انتہائی سیاہ تھا، جبکہ ان کے والد گرامی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بہت سفید تھے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس لیے سیاہ تھے کہ ان کی والدہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہما سیاہ فام تھی۔
ان دونوں کے رنگ مختلف ہونے کے باوجود قیافہ شناس نے ان کے پاؤں دیکھ کر کہا یہ باپ بیٹے کے قدم ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیافہ شناس کی بات سے بہت خوش ہوئے کیونکہ اس سے طعن کرنے والوں کے منہ بند ہوگئے۔
(2)
اگرچہ قیافہ شناسی سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم ثابت شدہ حکم کی تائید اس سے ضرور ہوتی ہے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا نسب پہلے سے ثابت شدہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نسب کے اثبات کے لیے اس قسم کے اندازے اور قیافے کے محتاج نہ تھے، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیافہ شناس کی تردید نہیں کی کیونکہ اس سے کوئی نیا حکم ثابت کرنا مقصود نہ تھا جو پہلے سے ثابت نہ ہو۔
(فتح الباري: 70/12، وعمدة القاري: 51/16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6771   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3731  
´زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے فضائل`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" دَخَلَ عَلَيَّ قَائِفٌ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاهِدٌ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ مُضْطَجِعَانِ"، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ، قَالَ: فَسُرَّ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَعْجَبَهُ فَأَخْبَرَ بِهِ عَائِشَةَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک قیافہ شناس میرے یہاں آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وہیں تشریف رکھتے تھے اور اسامہ بن زید اور زید بن حارثہ (ایک چادر میں) لیٹے ہوئے تھے۔ (منہ اور جسم کا سارا حصہ قدموں کے سوا چھپا ہوا تھا) اس قیافہ شناس نے کہا کہ یہ پاؤں بعض، بعض سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ (یعنی باپ بیٹے کے ہیں) قیافہ شناس نے پھر بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اس اندازہ پر بہت خوش ہوئے اور پھر آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہ واقعہ بیان فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة: 3731]
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ مَنَاقِبُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:»
ترجمۃ الباب اور حدیث میں ظاہری مناسبت معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ حدیث میں بظاہر کوئی بھی ایسے الفاظ نہیں ہیں، جو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر دلالت کرتے ہوں۔۔۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو حدیث میں قیافہ شناس جو بات اسامہ بن زید اور ان کے والد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے لیے کہی کہ یہ پاؤں بعض بعض سے نکلے ہوئے ہیں، اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی ظاہر ہوئی، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پر خوش ہونا یہ ان کی فضیلت پر دلیل ہے۔
صحیح بخاری کی ایک اور حدیث میں جو اسی حدیث کا دوسرا طرق ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خوش ہونا اس میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے، لہٰذا ایسا ہوا کہ یہ قیافہ شناس نے جب پاؤں دیکھے اور کہا کہ یہ ملتے جلتے پاؤں ہیں ان دونوں کے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بہت ہی خوشی خوشی داخل ہوئے، خوشی اور مسرت سے پیشانی مبارک کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ [صحيح البخاري: 3555]
صحیح بخاری کی اس حدیث نے مزید واضح کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےانتہا خوش تھے، جبکہ اس شخص نے (اس کا نام ابن الاعور بن جعدہ بن معاذ بن عتوراۃ بن عمرومولج الکنانی تھا) زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی تعریف کی، دراصل بعض منافقین نے یہ شبہ پیدا کرنے کی کوشش میں لگے تھے کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی اولاد نہیں ہیں، کیونکہ زید رضی اللہ عنہ گورے تھے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سیاہ فام تھے۔
لہٰذا مدلجی نے حق بات کہی، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی بات سے راضی ہونا اور آپ علیہ السلام کا اسامہ بن زید اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کی تعریف سن کر خوش ہونا یہ ان کے مناقب کی دلیل ہے، جسے امام بخاری رحمہ اللہ ترجمہ الباب کے ذریعہ ثابت فرمایا ہے، لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسب قائم ہوتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 46   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1219  
´دعویٰ اور دلائل کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش و خرم میرے ہاں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور چمک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ مجزز مدلجی نے ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہم) کو دیکھ کر کہا ہے کہ یہ پاؤں ایک دوسرے کا جز ہیں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1219»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الفرائض، باب القائف، حديث:6770، 3555، ومسلم، الرضاع، باب العمل بإلحاق القائف الولد، حديث:1459.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ثبوت نسب کے سلسلے میں قیافہ شناسی سے کام لیا جا سکتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور عدالت اسے تسلیم کرسکتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1219   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3523  
´قیافہ شناسوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش آئے، آپ کے چہرے کے خطوط خوشی سے چمک دمک رہے تھے، آپ نے فرمایا: ارے تمہیں نہیں معلوم؟ مجزز (قیافہ شناس ہے) نے زید بن حارثہ اور اسامہ کو دیکھا تو کہنے لگا: ان کے پیروں کے بعض حصے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3523]
اردو حاشہ:
(1) حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سفید رنگ کے تھے جب کہ ان کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سیاہ رنگ کے۔ شاید والدہ کا اثر تھا۔ اس بنا پر بعض لوگ ان کے نسب میں شک کرتے تھے۔ انتہائی قریبی تعلق کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو ان باتوں سے تکلیف ہوتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مجززمد لجی‘ ایک مشہور قیافہ شناس جس کے قیافے کو پورا علاقہ تسلیم کرتا تھا‘ گزرا تو دونوں باپ بیٹا سوئے پڑے تھے‘ ان کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے مگر پاؤں ننگے تھے۔ اس نے اپنی عادت کے مطابق دونوں کے پاؤں غور سے دیکھ کر کہا کہ یہ دونوں باپ بیٹا ہیں۔ اس کی یہ مبنی برحقیقت اور سچی بات سن کر نبی ﷺ کو خوشی ہوئی کہ اب تو ایک مشہور قیافہ شناس نے تصدیق کردی ہے۔ اب زبانیں گنگ ہوجائیں گی۔
(2) قیافہ شناسی بھی عقلاً قطعی نہ ہونے کے باوجود انسانی ذہن کو مطمئن کرتی ہے۔ عموماً لوگ تسلیم کرتے ہیں‘ لہٰذا کسی مشکل مسئلے میں قیافہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ احناف اس کے بھی قائل نہیں‘ حالانکہ دنیا کے بہت کم کام یقین سے طے ہوتے ہیں۔ عام طور پر ظن غالب ہی کو معتبر مانا جاتا ہے‘ لہٰذا قیافہ کے انکار کی ضرورت نہیں بلکہ بعض متنازعہ مسائل میں قیافہ شناس سے مدد لی جاسکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3523   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2267  
´قیافہ جاننے والوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس (مسدد اور ابن سرح کی روایت میں ہے) ایک دن خوش و خرم تشریف لائے (اور عثمان کی روایت میں ہے آپ کے چہرے پر خوشی کی لکیریں ۱؎ محسوس کی جا رہی تھیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! کیا تو نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو اس حال میں دیکھا کہ وہ دونوں اپنے سر چادر سے ڈھانکے ہوئے تھے اور پیر کھلے ہوئے تھے تو کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسامہ کالے تھے اور زید گورے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2267]
فوائد ومسائل:
انسان کے اعضاء اور شکل و مشابہت دیکھ کر اس کے نسب وعادات کا اندازہ لگانا قیافہ کہلاتا ہے۔
(ابجد العلوم)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2267   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2349  
´قیافہ شناسوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش تشریف لائے، آپ فرما رہے تھے: عائشہ! کیا تم نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا، اس نے اسامہ اور زید بن حارثہ کو ایک چادر میں سویا ہوا دیکھا، وہ دونوں اپنے سر چھپائے ہوئے تھے، اور دونوں کے پیر کھلے تھے، تو کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2349]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  قیافہ شناس انہیں کہتے ہیں جو چہرے مہرے اور ظاہری جسمانی کیفیات سے بعض چیزوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں خاص طور پر دوافراد کے درمیان نسبتی تعلق کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں چور کی تلاش میں پاؤں کے نشان سے مدد لے کر مشکوک آدمی کو پہچان لینے والے کھوجی بھی انھی میں شامل ہیں۔

(2)
جاہلیت میں جب کسی بچے کےبارے میں اختلاف ہو جاتا تھا کہ یہ کس مرد کا ہے تو قیافہ شناسوں سے فیصلہ کرایا جاتا تھا۔
اس حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ اب بھی بعض معاملات میں ان سےمدد لی جا سکتی ہے۔

(3)
اب اس قسم کا معاملہ اس انداز سے صرف اس صورت میں حل کیا جاسکتا ہے جب کسی غیر مسلم یا بدکار عورت سے ایک سے زیادہ مردوں نے تعلق قائم کیا ہو اور اس کے نتیجے میں بچہ پیدا ہو جائے اس کے بعد وہ سب مسلمان ہو جائیں یا توبہ کرکے پاک دامنی کی زندگی گزارنا شروع کر دیں تو ان کا فیصلہ قیافہ یا قرعہ سے کیا جا سکتا ہے۔
عام حالات میں زانی سے نسب کا تعلق ثابت نہیں ہوتا۔
ارشاد نبوی ہے:
بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ (سنن ابن ماجۃ، حدیث: 2006)
یعنی بچے کی نسبت عورت کے خاوند کی طرف کی جائے گی وہ اس کا قانونی والد ہو گا۔
وراثت وغیرہ کا تعلق اس قانونی والد سے ہوگا ناجائز تعلق والے اس شخص سے نہیں جس سے اصل میں بچہ پیدا ہوا ہے۔

(4)
حضرت زید جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنا بیٹا بنا لیا تھا ان کا رنگ گورا تھا ان کے بیٹے اسامہ کا رنگ سانولا تھا اس پر بعض منافقوں نے نامناسب باتیں کیں۔
جب قیافہ شناس نے کہا کہ ان دوافراد کا آپس میں نسبتی تعلق ہے یعنی وہ باپ بیٹا ہیں تو منافقین کا پروپیگنڈا دم توڑ گیا اس لیے رسول اللہ ﷺ کو بہت خوشی ہوئی۔

(5۔
مجزز مدلجی نے اپنے فن میں مہارت کا اظہار کرنے کے لیے یہ بات کہی تھی کہ اگرچہ یہ دونوں شخص بظاہر مختلف رنگ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے اجنبی محسوس ہوتے ہیں لیکن میں اپنے تجربے کی روشنی میں کہتا ہوں کہ یہ باپ بیٹا ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کو اس سے خوشی ہوئی کہ اب تو ایسی گواہی مل گئی ہے جس کو یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں اس طرح صحابی سے وہ طعن دور ہو گیا جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو پریشان کرتےتھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2349   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2129  
´نسب میں قیافہ شناسی کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوشی خوشی ان کے پاس تشریف لائے، آپ کے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے دیکھا نہیں، ابھی ابھی مجزز نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو دیکھ کر کہا ہے کہ یہ قدم (یعنی ان کا رشتہ) ایک دوسرے سے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة/حدیث: 2129]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اہل جاہلیت زید اور ان کے بیٹے اسامہ کے نسب میں طعنہ زنی کرتے تھے کیوں کہ زید گورے تھے جب کہ اسامہ کالے اور سیاہ رنگ کے تھے،
جب مجزز جیسے قیافہ شناس نے دونوں کے پیر دیکھ کر کہہ دیا کہ ان کا آپس میں نسب ثابت ہے تو آپ ﷺ بہت خوش ہوئے،
کیوں کہ طعنہ زنی کرنے والوں کی جن کے نزدیک قیافہ شناسی معتبر تھی اس قیافہ شناس کی بات سے تکذیب ہوگئی،
اور ان دونوں کے نسب کی تصدیق ہوگئی،
یہ صرف مشرکین کے عرف سے اس طعنہ کی تردید کی وجہ سے تھا،
ورنہ آپ ﷺ بذریعہ وحی اس حقیقت سے واقف تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2129   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3617  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے خطوط دمک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مجزز نے ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ تعلیٰ عنہ کو دیکھ کر کہا، یہ قدم ایک دوسرے کا جز اور حصہ ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3617]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رنگ گوراتھا۔
اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتہائی سیاہ،
اس لیے کافر ان کے نسب پر طعن وتشنیع کرتے تھے اور نسب کی شناخت میں جاہلیت کے دور میں عرب قیافہ شناس کے قول کو بہت اہمیت دیتے تھے اورعرب بنو مدلج جس سے مجزرتھا اور بنواسد کی قیافہ شناسی کے معترف تھے،
اس لیے جب حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدموں کو دیکھ کر قیافہ شناس مجززمدلجی نے ان کے نسب کی تصدیق کردی،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے انتہائی خوشی ہوئی کہ ان عرب کافروں کے اپنے میعار اور ضابطہ کی رو سے بھی اسامہ کا حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا ہونا ثابت ہو گیا ہے،
اس لیے اب ان کے لیے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسب پر طعن کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کے نزدیک قیافہ شناس کا قول بہتر ہے،
اما مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کے مطابق لونڈیوں کی اولاد میں معتبر ہے۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
صاحبین اورامام اسحاق کے نزدیک قیافہ شناسی کا قول معتبر نہیں ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت اور شادمانی اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے اشتباہ اوراختلاف کو دور کیا جا سکتا ہے کیونکہ بچے کے نین ونقش اور اس کی جسمانی بناوٹ اس کے والدین یا اس کے ننھیال یا ددھیال سے ملتی جلتی ہوتی ہے جس کا ایک ماہرقیافہ شناس پتہ چلا لیتا ہے۔
عویمر عجلانی کے واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہمی مشاورت کی نشاندہی فرمائی تھی۔
اسی طرح اعرابی کے واقعہ میں جس نے بچہ کے سیارہ رنگ کا ہونے کا بنا پرتعجب کا اظہار کیا تھا۔
اس میں (فَلَعَلَّ اِبْنُكَ هٰذَا نَزَعَهُ عِرْقٌ)
تیرے اس بچے کو کسی رگ ننھیال یا ددھیال کی نے اپنی طرف کھینچ لیا ہے،
اس مشابہت کی طرف صریح اشارہ موجود ہے اور اس سے قیافہ شناس استدلال کرتا ہے،
کیونکہ قیافہ نام ہے:
(اِعْتِبَارُ الشِّبْهِ بِاِلحْاَقِ مَوْرِ النَّسَبِ)
نسب کے الحاق کے لیے مشابہت کا اعتبار کرنا۔
(تکملہ فتح الملہم ج1ص84)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3617   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3555  
3555. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ میرے ہاں بہت ہی خوش خوش داخل ہوئے۔ خوشی اور مسرت سے آپ کی پیشانی کی شکنیں چمک رہی تھیں۔ آپ نےفرمایا: (اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا!)تم نے نہیں سنا کہ مجززمدلجی نے حضرت زید اور حضرت زید اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کیا کہا ہے؟اس نے، ان دونوں کے قدموں کو دیکھ کر، کہا کہ یہ پاؤں تو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، یعنی باپ بیٹے کے قدم ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3555]
حدیث حاشیہ:
ہوایہ تھا کہ زید گورے تھے اور اسامہ سیاہ فام۔
بعض منافق شبہ کرتے تھے کہ اسامہ زید کے بیٹے نہیں ہیں۔
ایک بار باپ بیٹے چادر اوڑھے ہوئے سورہے تھے مگر پاؤں کھلے ہوئے تھے۔
مدلجی نے جو عرب کا بڑا قیافہ شناس تھا، پاؤں دیکھ کر کہا یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں یا ایک دوسرے میں سے ہیں۔
امام شافعی نے اس حدیث سے قیافہ کو صحیح سمجھا ہے۔
یہاں اس حدیث کے لانے سے یہ ثابت کرنا منظور ہے کہ آپ کی پیشانی میں لکیریں تھیں۔
اس حدیث میں آپ کی فرحت ومسرت کا ذکر ہے جو آپ کے اخلاق فاضلہ سے متعلق ہے۔
اسی لیے اس حدیث کو یہاں لائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3555   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3731  
3731. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک قیافہ شناس میرے پاس آیا جبکہ نبی ﷺ بھی میرے پاس موجود تھے۔ حضرت اسامہ ؓ اور(ان کے والد گرامی)حضرت زید بن حارثہ ؓ دونوں لیٹے ہوئے تھے تو اس قیافہ شناس نے کہا: یہ دونوں پاؤں باہم ایک دوسرے سے پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ اس انکشاف سے نبی ﷺ بہت خوش ہوئے اور یہ بات آپ کو بہت پسند آئی۔ پھر آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے اس کا اظہار کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3731]
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت اس طرح سے ہے کہ آپ کوحضرت زید ؓ سے بہت محبت تھی۔
جب ہی تو قیافہ شناس کی اس بات سے آپ خوش ہوئے۔
منافق یہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ اسامہ کا رنگ کالا ہے، وہ زید کے بیٹے نہیں ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3731   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3731  
3731. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک قیافہ شناس میرے پاس آیا جبکہ نبی ﷺ بھی میرے پاس موجود تھے۔ حضرت اسامہ ؓ اور(ان کے والد گرامی)حضرت زید بن حارثہ ؓ دونوں لیٹے ہوئے تھے تو اس قیافہ شناس نے کہا: یہ دونوں پاؤں باہم ایک دوسرے سے پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ اس انکشاف سے نبی ﷺ بہت خوش ہوئے اور یہ بات آپ کو بہت پسند آئی۔ پھر آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے اس کا اظہار کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3731]
حدیث حاشیہ:

اس روایت میں کچھ تسامح اور اختصار ہے قیافہ شناس حضرت عائشہ ؓ کی موجود گی میں نہیں آیا تھا بلکہ وہ مسجد نبوی میں رسول اللہ ﷺ کی خامت میں حاضر ہوا جبکہ حضرت اسامہ ؓ اور زید ؓ دونوں باپ بیٹا مسجد ہی میں لیٹے ہوئے تھے تو قیافی شناس نے وہ بات کہی جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کی اطلاع باہر سے آکر دی جیسا کہ حدیث کے آخری الفاظ سے ثابت ہو رہا ہے چنانچہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ خوشی خوشی حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور مجرززمدلجی کا واقعہ بیان کیا۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3555)

دراصل حضرت زید بن حارثہ ؓ کا رنگ سفید تھا جبکہ ان کے بیٹے اسامہ ؓ کا رنگ سیاہ تھا اس وجہ سے منافقین طعنہ دیتے تھے کہ حضرت اسامہ حضرت زید ؓ کے بیٹے نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کو اگرچہ ان کے نسبت میں کوئی شک نہیں تھا لیکن قیافہ شناس کی بات سے خوش ہوئے کیونکہ اس سے منافقین کے غلط پروپیگنڈے کی تردید ہوئی تھی۔
اس بات کی اطلاع آپ نے حضرت عائشہ ؓ کو دی۔
(عمدة القاري: 300/11)
3اس حدیث سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو حضرت زید بن حارثہ ؓ سے محبت تھی تو قیافہ شناس کی اس بات سے خوش ہوئے چنانچہ جب آپ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3731