صحيح البخاري
كِتَاب الْفَرَائِضِ
کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
29. بَابُ مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ:
باب: جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا، اس کے گناہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 6768
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عِرَاكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ كُفْرٌ".
ہم سے اصبغ بن الفرج نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو عمرو نے خبر دی، انہیں جعفر بن ربیعہ نے، انہیں عراک نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے باپ سے منہ موڑتا ہے (اور اپنے کو دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو) یہ کفر ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6768 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6768
حدیث حاشیہ:
دور جاہلیت میں لوگ جب کسی کو منہ بولا بیٹا بنا لیتے تو وہ بیٹا خود کو اپنے باپ کے علاوہ اسی کی طرف منسوب کرتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب میں اس بات کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔
(الأحزاب33: 5)
امتناعی حکم کے باوجود آج اکثر لوگ لے پالک کو اپنی طرف ہی منسوب کرتے ہیں۔
حالانکہ شریعت میں اس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔
ابن بطال نے لکھا ہے کہ غیر شعوری طور پراس طرح کی شہرت مذکورہ وعید کی زد میں نہیں آتی۔
(فتح الباري: 67/12)
بہرحال مذکورہ کفر سے مراد کفر حقیقی نہیں جو انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے بلکہ اس سے مراد کفران نعمت ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6768