Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْفَرَائِضِ
کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
10. بَابُ مِيرَاثِ الزَّوْجِ مَعَ الْوَلَدِ وَغَيْرِهِ:
باب: اولاد کے ساتھ خاوند کو کیا ملے گا۔
حدیث نمبر: 6739
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ سورة النساء آية 11، وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ، وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ورقاء نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا، ان سے عطاء نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پہلے مال کی اولاد مستحق تھی اور والدین کو وصیت کا حق تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں سے جو چاہا منسوخ کر دیا اور لڑکوں کو لڑکیوں کے دگنا حق دیا اور والدین کو اور ان میں سے ہر ایک کو چھٹے حصہ کا مستحق قرار دیا اور بیوی کو آٹھویں اور چوتھے حصہ کا حق دار قرار دیا اور شوہر کو آدھے یا چوتھائی کا حقدار قرار دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6739 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6739  
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ ترکے کی وارث صرف بالغ اولاد نرینہ ہوا کرتی تھی، ماں، باپ اور قریبی رشتے دار محروم رہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کی رو سے والدین اور قریبی رشتے داروں کے لیے وصیت فرض کر دی:
تم پر فرض کردیا گیا کہ اگر تم میں سے کسی کو موت آجائے اور وہ کچھ مال ودولت چھوڑے جارہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور قریبی رشتے داروں کے حق میں وصیت کرجائے۔
(البقرۃ 2: 180)
پھر اللہ تعالیٰ نے آیت میراث کے ذریعے سے اس آیت کو منسوخ کر دیا اور والدین، نیز قریبی رشتے داروں کے لیے حصے مقرر کر دیے۔
آیت میراث یہ ہے:
اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔
(النساء 4: 11) (2)
اس آیت میں شوہر کے حصے بھی متعین کر دیے۔
اس کی دوحالتیں ہیں:
٭ جب فوت شدہ بیوی کی اولاد اور نرینہ اولاد کی اولاد نہ ہو تو اسے 1/2 ملتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اگر تمھاری بیویوں کی اولاد نہ ہو تو ان کے ترکے سے تمھارے لیے 1/2 ہے۔
(النساء 4: 12)
٭جب وہ فوت شدہ بیوی کی اولاد یا نرینہ اولاد کی اولاد موجود ہوتو اسے 1/4 ملتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اگر بیویوں کی اولاد ہو تو تمھارے لیے ترکے سے چوتھا حصہ ہے۔
(النساء 4: 12)
واضح رہے کہ بیوی کی اولاد، خواہ موجودہ خاوند سے ہو یا سابقہ سے اسے صورت میں خاوند صرف 1/4 کا حق دار ہوگا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6739