حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ:" سُئِلَ أَنَسُ، هَلِ اتَّخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا؟، فَقَالَ: نَعَمْ، أَخَّرَ لَيْلَةً صَلَاةَ الْعِشَاءِ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ بَعْدَ مَا صَلَّى، فَقَالَ: صَلَّى النَّاسُ وَرَقَدُوا وَلَمْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مُنْذُ انْتَظَرْتُمُوهَا"، قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ.
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:661
حدیث حاشیہ:
احادیث میں نماز کا انتظار دو طرح سے بیان ہوا ہے:
نماز سے پہلے اور نماز کے بعد۔
لیکن بعد کے انتظار کا تعامل سلف سے بہت کم نقل ہوا ہے، نیز نماز کے انتظار کو صرف حصول ثواب کے اعتبار سے نماز کہا گیا ہے، حکم کے لحاظ سے وہ نماز جیسا نہیں ہے کیونکہ دوران نماز میں گفتگو کرنا منع ہے جبکہ انتظار کے دوران میں بوقت ضرورت کلام کیا جاسکتا ہے۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 661
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 572
´عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔`
«. . . عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى، ثُمَّ قَالَ: قَدْ صَلَّى النَّاسُ وَنَامُوا، أَمَا إِنَّكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُوهَا "، وَزَادَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، سَمِعَ أَنَسًا كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ لَيْلَتَئِذٍ . . . .»
”. . . انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) عشاء کی نماز آدھی رات گئے پڑھی۔ اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہوں گے۔ (یعنی دوسری مساجد میں پڑھنے والے مسلمان) اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے (گویا سارے وقت) نماز ہی پڑھتے رہے۔ ابن مریم نے اس میں یہ زیادہ کیا کہ ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی۔ کہا مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ سنا، گویا اس رات آپ کی انگوٹھی کی چمک کا نقشہ اس وقت بھی میری نظروں کے سامنے چمک رہا ہے۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ:: 572]
� تشریح:
ابن مریم کی اس تعلیق کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ حمید کا سماع حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صراحتاً ثابت ہو جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 572
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 600
´مسئلے مسائل کی باتیں اور نیک باتیں عشاء کے بعد بھی کرنا درست ہے`
«. . . حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، قال: انْتَظَرْنَا الْحَسَنَ، وَرَاثَ عَلَيْنَا حَتَّى قَرُبْنَا مِنْ وَقْتِ قِيَامِهِ فَجَاءَ، فَقَالَ: دَعَانَا جِيرَانُنَا هَؤُلَاءِ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: انتَظَرْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ حَتَّى كَانَ شَطْرُ اللَّيْلِ يَبْلُغُهُ، فَجَاءَ فَصَلَّى لَنَا ثُمَّ خَطَبَنَا، فَقَالَ: " أَلَا إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا ثُمَّ رَقَدُوا، وَإِنَّكُمْ لَمْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاةَ "، قَالَ الْحَسَنُ: وَإِنَّ الْقَوْمَ لَا يَزَالُونَ بِخَيْرٍ مَا انْتَظَرُوا الْخَيْرَ، قَالَ قُرَّةُ: هُوَ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . . .»
”. . . عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعلی عبیداللہ حنفی نے، کہا ہم سے قرہ بن خالد سدوسی نے، انہوں نے کہا کہ ایک دن حسن بصری رحمہ اللہ نے بڑی دیر کی۔ اور ہم آپ کا انتظار کرتے رہے۔ جب ان کے اٹھنے کا وقت قریب ہو گیا تو آپ آئے اور (بطور معذرت) فرمایا کہ میرے ان پڑوسیوں نے مجھے بلا لیا تھا (اس لیے دیر ہو گئی) پھر بتلایا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے۔ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ اس کے بعد خطبہ دیا۔ پس آپ نے فرمایا کہ دوسروں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے ہو گویا نماز ہی کی حالت میں رہے ہو۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی خیر کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو وہ بھی خیر کی حالت ہی میں ہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا کہ حسن کا یہ قول بھی انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ہے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ السَّمَرِ فِي الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ:: 600]
تشریح:
ترمذی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ رات میں مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اور میں بھی اس میں شریک رہتا تھا۔ یعنی اگرچہ عام حالات میں عشاء کے بعد سو جانا چاہئیے۔ لیکن اگر کوئی کار خیر پیش آ جائے یا علمی و دینی کوئی کام کرنا ہو تو عشاءکے بعد جاگنے میں بشرطیکہ صبح کی نماز چھوٹنے کا خطرہ نہ ہو کوئی مضائقہ نہیں۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ روزانہ رات میں تعلیم کے لیے مسجد میں بیٹھا کرتے تھے لیکن آج آنے میں دیر کی اور اس وقت آئے جب یہ تعلیمی مجلس حسب معمول ختم ہو جانی چاہئیے تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد لوگوں کو نصیحت کی اور فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دیر میں نماز پڑھائی اور یہ فرمایا۔ یہ حدیث دوسری سندوں کے ساتھ پہلے بھی گزر چکی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عشاء بعد دین اور بھلائی کی باتیں کرنا ممنوع نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 600
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 847
847. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ نماز کو آدھی رات تک مؤخر کر دیا، پھر ہمارے پاس نماز پڑھانے کے لیے آئے۔ جب نماز پڑھ چکے تو چہرہ انور سے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”لوگ تو نماز پڑھ کر سو چکے ہیں اور تم برابر نماز میں رہے کیونکہ تم نماز کا انتطار کرتے رہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:847]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ مرویات سے ظاہر ہوا کہ سلام پھیرنے کے بعد امام مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے، پھر تسبیح تہلیل کرے یا لوگوں کو مسئلہ مسائل بتلائے یا پھر اٹھ کر چلاجائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 847
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5869
5869. حضرت انس ؓ سے روایت ہے ان سے دریافت کیا گیا: کیا نبی ﷺ نے انگوٹھی بنوائی تھی؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نےایک رات نماز عشاء نصف رات تک مؤخر کی پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، میں اب بھی (چشم تصور سے) آپ ﷺ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”بہت سے لوگ نماز عشاء پڑھ کر سو گئے ہیں لیکن اس وقت نماز میں ہو جب سے تم نماز کا انتظار کر رہے ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5869]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں انگوٹھی کا ذکر ہے باب سے یہی مطابقت ہے انگوٹھی کی چمک سے اس کے نگینہ کی چمک مراد ہے جیسا کہ حدیث ذیل میں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5869
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 540
´عشاء کے اخیر وقت کا بیان۔`
حمید کہتے ہیں: انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی پہنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، ایک رات آپ نے آدھی رات کے قریب تک عشاء مؤخر کی، جب نماز پڑھ چکے تو آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے فرمایا: ”جب تک تم لوگ نماز کا انتظار کرتے رہے برابر نماز میں رہے۔“ انس کہتے ہیں: گویا میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 540]
540 ۔ اردو حاشیہ:
➊”لوگ نماز پڑھ کر سوگئے۔“ جب کہ تم عشاء کی نماز کی وجہ سے نیند اور آرام کو مؤخر کرتے ہو اور صرف نماز کے انتظار میں جاگتے ہو، لہٰذا مغرب سے عشاء کی نماز تک کا وقت ثواب کے لحاظ سے نماز کی طرح ہے۔ اگر نماز سے نماز عشاء مراد ہے تو لوگوں سے مراد مدینہ منورہ کی دوسری مساجد کے لوگ ہوں گے جہاں نماز عشاء جلدی پڑھ لی جاتی تھی۔ اس صورت میں یہ مسجد نبوی کے نمازیوں کی فضیلت ہے۔
➋”انگوٹھی کی چمک“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی، نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ یہ انگوٹھی آپ نے مہرلگانے کے لیے بنوائی تھی۔ معلوم ہوا کہ مرد انگوٹھی پہن سکتا ہے لیکن شرط ہے کہ چاندی کی ہو، نہ کہ سونے کی۔ واللہ اعلم۔
➌انگوٹھی کے نگینے پر نام وغیرہ کندہ کروایا جا سکتا ہے۔
➍وعظ و نصیحت کرتے وقت امام کا مقتدیوں کی طرف متوجہ ہونا مسنون عمل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 540
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث692
´نماز عشاء کا وقت۔`
حمید کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی بنوائی تھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ایک رات آپ نے عشاء کی نماز آدھی رات کے قریب مؤخر کی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ”اور لوگ نماز پڑھ کر سو گئے، اور تم لوگ برابر نماز ہی میں رہے جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے“، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 692]
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا اکثر عمل عشاء کی نماز جلدی پڑھنے کا ہے یعنی اتنی زیادہ تاخیر نہیں فرماتے تھے۔
کبھی کبھی یہ عمل افضلیت کے اظہار کے لیے اختیار فرماتے تھے۔
(2)
نواب وحید االزمان خان نے عملاً جلدی پڑھنے اور قولاً تاخیر کی فضیلت بیان کرنے کی حدیثوں میں تطبیق دیتے ہوئے کہا کہ اگر سب مقتدی جاگنے پر راضی ہوں اور تاخیر میں ان کو تکلیف نہ ہو تو تاخیر کرنا افضل ہے ورنہ اول وقت میں پڑھ لینا افضل ہے۔
والله اعلم
(3)
نماز کے بعد وعظ و نصیحت کی جاسکتی ہے۔
(4)
نماز کا انتظار بہت فضیلت والا عمل ہے۔
(5)
انگوٹھی پہننا جائز ہے تاہم مرد صرف چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے سونے کا استعمال مرد کے لیے جائز نہیں۔ (سنن ابن ماجه، اللباس، باب لبس الحریر والذھب للنساء، حدیث: 3595)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 692
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:572
572. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے عشاء میں ایک مرتبہ نصف رات تک تاخیر فرمائی، پھر اسے ادا کیا اور فرمایا: ”لوگوں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے لیکن تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے ہو، نماز ہی میں رہے ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:572]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے نزدیک عشاء کی نماز کا وقت نصف رات تک ہے۔
اور یہ واقت جواز ہے، وقت مختار نہیں۔
نصف رات کے بعد عشاء قضا ہوجائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے عنوان اور اس کے تحت بیان کی گئی احادیث میں کوئی ایسی چیز ذکر نہیں کی جس سے عشاء کے وقت کا صبح صادق تک ہونا معلوم ہو۔
سرزمین حجاز کے نامور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں:
عشاء کی نماز کا وقت غروب شفق سے نصف رات تک ہے۔
اس کا وقت طلوع فجر تک نہیں رہتا کیونکہ یہ ظاہر قرآن کے خلاف ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”زوال آفتاب سے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھیں۔
“ (الإسراء17: 78)
اس میں باری تعالیٰ نے چار نمازوں کا ذکر کیا ہے:
ظہروعصر، مغرب اور عشاء۔
اگر عشاء کا وقت طلوع فجر تک ہوتا تو اس مقام پر طلوع فجرتک الفاظ استعمال کیے جاتے۔
پھر احادیث میں صراحت ہے کہ عشاء کا وقت نصف شب تک ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”نماز عشاء کا وقت نصف رات تک ہے۔
“ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1386(612)
اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نصف رات تک ادا کی جاسکتی ہے۔
(رسالة مواقيت الصلاة) (2)
حدیث میں ہےکہ جب تک تم نماز کے انتظار میں رہو گے تمھارا وقت نمازہی میں شمار ہو گا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت سے پہلے مسجد میں جاکر وہاں انتظار نماز میں بیٹھنے کی فضیلت ہے، لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہےکہ ایک نماز سے فارغ ہو کر دوسری نماز کے انتظار کرنے میں بڑی فضیلت ہے۔
اس سے مراد صرف قلبی تعلق ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:
”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دےگا جس کا دل مسجد میں لٹکا ہوا ہے۔
“ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 660)
اور مومن کی شان بھی یہی ہے کہ ہر وقت اس کا خیال نماز اور مسجد کی طرف رہے۔
اگر مسجد اور نماز میں اس کا دل باہر کی چیزوں میں لگا ہوا ہے تو ایسی نماز اور مسجد میں انتظار بے سود ہے۔
اور اگر کسی کو دونوں باتیں میسر ہوں کہ قلب و جسم دونوں مسجد میں ہوں تو نور علی نور ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابن ابی مریم کے حوالے سے ایک تعلیق بھی ذکر کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ حمیدہ الطویل کا سماع حضرت انس ؓ سے ثابت کیا جائے، کیونکہ اس نے پہلے"عن" کے صیغے سے حدیث بیان کی تھی۔
اس تعلیق کو ابو طاہر مخلص نے اپنے"فوائد" کے پہلے جز میں موصولاً بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 70/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 572
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:600
600. حضرت قرہ بن خالد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک دفعہ حضرت حسن بصری کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے تشریف لانے میں اتنی دیر کر دی کہ (مسجد سے) ان کی برخاستگی کا وقت قریب آ گیا۔ بہرحال وہ تشریف لائے اور فرمایا: ہمیں ہمارے پڑوسیوں نے دعوت دی تھی (اس لیے دیر ہو گئی) پھر انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ہم نے ایک رات نبی ﷺ کا انتظار کیا تاآنکہ آدھی رات ہو گئی، اس کے بعد آپ تشریف لائے اور ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”خبردار! لوگ تو نماز پڑھ کر سو گئے اور تم برابر نماز میں رہے جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہے۔“ اس حدیث کے پیش نظر حضرت حسن بصری نے فرمایا: لوگ اس وقت تک خیر میں رہتے ہیں جب تک وہ خیر کا انتظار کرتے رہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا: حضرت حسن بصری کا مذکورہ فرمان بھی حضرت انس ؓ سے مروی اس حدیث سے ماخوذ ہے جو انہوں نے نبی ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:600]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز عشاء کے بعد دین اور خیرخواہی کی باتیں کرنا ممنوع نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیق ؓ رات کے وقت مسلمانوں کے معاملات کے متعلق باہم گفتگو فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اس مجلس مشاورت میں شریک رہتا تھا۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 169)
اگرچہ عام حالات میں نماز عشاء کے بعد سونا چاہیے لیکن اگر کوئی کار خیر سامنے آ جائے یا علمی کام کرنا ہو یا مسلمانوں کے متعلق کوئی رفاہی معاملہ نمٹانا ہو تو عشاء کے بعد گفتگو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ صبح کی نماز فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو، چنانچہ امام حسن بصری ؒ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ رات کے وقت مسجد میں ایک علمی مجلس کا اہتمام کرتے تھے۔
جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے، نیز اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا۔
امام بخاری ؒ کا محل استدلال یہی خطبہ ہے۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت انس ؓ سے جب یہ روایت حمید الطویل بیان کرتے ہیں تو اس میں رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی اور اس کی چمک وغیرہ کی منظر کشی کی گئی ہے، وہ بھی قابل ملاحظہ ہے۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5869)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 600
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:847
847. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ نماز کو آدھی رات تک مؤخر کر دیا، پھر ہمارے پاس نماز پڑھانے کے لیے آئے۔ جب نماز پڑھ چکے تو چہرہ انور سے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”لوگ تو نماز پڑھ کر سو چکے ہیں اور تم برابر نماز میں رہے کیونکہ تم نماز کا انتطار کرتے رہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:847]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بھی امام کا مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھنا اور انہیں وعظ کرنا مذکور ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد امام کو چاہیے کہ وہ مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب نمازی، نماز باجماعت کے انتظار میں ہوتا ہے تو اس کے انتظار کرنے پر اسے نماز ہی کا ثواب ملتا ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(من جلس في المسجد ينتظر الصلاة۔
۔
۔
)
”جو شخص مسجد میں نماز کے انتظار کے لیے بیٹھتا ہے۔
۔
“ (صحیح البخاري، الأذان، باب: 36)
پھر حدیث بیان کی ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں ہو اسے نماز ہی کا ثواب دیا جاتا ہے، گویا وہ نماز میں ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 659)
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں صرف نماز کے انتظار کے لیے بیٹھے، اسے کوئی ذاتی غرض و مقصود نہ ہو کیونکہ حدیث میں ہے کہ مذکورہ اعزاز کا حقدار صرف وہ شخص ہے جسے اپنے گھر سے صرف نماز روکے ہوئے ہو۔
اگر دل میں محبت اور اخلاص ہے تو مسجد سے باہر جاتے وقت اگر اپنے دل اور توجہ کو مسجد سے وابستہ کر دیتا ہے تو قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ نصیب ہو گا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 660 وصحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2380(1031)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 847