صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
31. بَابُ النَّذْرِ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ وَفِي مَعْصِيَةٍ:
باب: ایسی چیز کی نذر جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 6701
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ وَرَآهُ يَمْشِي بَيْنَ ابْنَيْهِ"، وَقَالَ الْفَزَارِيُّ: عَنْ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے حمید نے، ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ اس سے بےپروا ہے کہ یہ شخص اپنی جان کو عذاب میں ڈالے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان چل رہا تھا اور فزاری نے بیان کیا، ان سے حمید نے، ان سے ثابت نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6701 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6701
حدیث حاشیہ:
ایسی ناجائز نذر ماننا جو حداعتدال سے باہر ہو اسے توڑ دینے کا حکم ہے اس شخص کے پیرفالج زدہ تھے اور اس نے حج کرنے کے لیے اپنے دو بچوں کے کندھے کے سہارے چل کرحج کرنے کی نذر مانی تھی آپ ﷺ نےاسے اس طرح چلنے سےمنع فرما دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6701
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6701
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ روایت پہلے تفصیل سے بیان ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے دونوں بیٹوں کے سہارے چل رہا تھا تو آپ نے دریافت فرمایا:
”اسے کیا ہوا ہے؟“ انہوں نے عرض کی:
اس نے پیدل چلنے کی نذر مانی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اس نے خواہ مخواہ خود کو اذیت میں ڈال رکھا ہے۔
اس کی اذیت رسانی سے اللہ تعالیٰ بے پروا ہے۔
“ پھر آپ نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1865) (2)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص پیدل نہیں چل سکتا تھا۔
شاید اس کے پاؤں فالج زدہ تھے۔
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی نذر پوری کرنے سے منع فرمایا جس میں خود کو تکلیف میں ڈالنا مقصود ہو۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6701
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2803
´چلتے چلتے تھک جانے والا شخص ہدی کے جانور پر سوار ہو سکتا ہے۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ہدی کا اونٹ لے جاتے دیکھا اور وہ تھک کر چور ہو چکا تھا آپ نے اس سے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ“ وہ کہنے لگا ہدی کا اونٹ ہے، آپ نے فرمایا: ”وار ہو جاؤ اگرچہ وہ ہدی کا اونٹ ہو۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2803]
اردو حاشہ:
اگر چلنے میں مشقت ہو تو قربانی کے جانور پر سوار ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر سفر لمبا ہو تو یہ بھی مشقت ہی ایک صورت ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ بالکل چلنے سے عاجز ہو تب ہی سوار ہو۔ ضرورت کے وقت سوار ہو سکتا ہے، البتہ اگر الگ سواری موجود ہو تو قربانی کے اونٹ پر سوار نہیں ہونا چاہیے۔ احترام ضروری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2803
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3883
´جو کوئی نذر مانے پھر اس کی ادائیگی سے عاجز رہے اس شخص پر کیا واجب ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ دو آدمیوں کے بیچ میں ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہا ہے، آپ نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: اس نے نذر مانی ہے کہ وہ بیت اللہ تک پیدل چل کر جائے گا، آپ نے فرمایا: ”اس طرح اپنی جان کو تکلیف دینے کی اللہ کو ضرورت نہیں، اس سے کہو کہ سوار ہو کر جائے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3883]
اردو حاشہ:
جو شخص اپنی نذر پوری کرنے سے عاجز آجائے تو اسے کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے‘ روایت: 3845۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3883
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3885
´قسم میں استثنا یعنی ”ان شاءاللہ“ کہنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسے شخص کے پاس سے گزر ہوا جو اپنے دو بیٹوں کے درمیان ان کے کندھوں کا سہارا لیے چل رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”اس کا کیا معاملہ ہے؟“ عرض کیا گیا: اس نے کعبہ پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا: ”اس طرح اپنے آپ کو تکلیف دینے سے اللہ تعالیٰ اس کو کوئی ثواب نہیں دے گا، پھر آپ نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا۔“ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3885]
اردو حاشہ:
”حکم دیا“ کیونکہ وہ چلنے سے عاجز تھا۔ جو چل سکے‘ وہ چلے عاجز ہوجائے تو سوار ہوجائے اور کفارہ دے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3885
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3104
´ہدی کے اونٹوں کی سواری کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے کوئی شخص ایک اونٹ لے کر گزرا تو آپ نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ“، اس نے کہا: یہ ہدی کا اونٹ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ۔“ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا وہ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سوار تھا، اس کی گردن میں ایک جوتی لٹک رہی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3104]
اردو حاشہ:
فوئاد و مسائل:
(1)
ہدی اس جانور کو کہتے ہیں جو حاجی اپنے ساتھ لیکر جاتا ہےتاکہ قربانی کے دن مکہ یا منی میں ذبح کرے۔
(2)
قربانی کے جانور پر سواری کرنا اس وقت جائز ہے جب سواری کا اور جانور موجود نہ ہواور آدمی تھک گیا ہو۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اس پر اچھے طریقے سے سواری کر جب تواس پر (سوار ی کرنے)
پر مجبور ہوجائے حتی کہ تجھے سواری کا (اور)
جانور مل جائے۔ (صحيح مسلم، الحج، باب جواز ركوب البدنة المهداة لمن احتاج إليها، حديث: 1324)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3104
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 911
´ہدی کے اونٹ پر سوار ہونے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ہدی کے اونٹ ہانکتے دیکھا، تو اسے حکم دیا ”اس پر سوار ہو جاؤ“، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ہدی کا اونٹ ہے، پھر آپ نے اس سے تیسری یا چوتھی بار میں کہا: ”اس پر سوار ہو جاؤ، تمہارا برا ہو ۱؎ یا تمہاری ہلاکت ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 911]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ آپ نے تنبیہ اور ڈانٹ کے طور پر فرمایا کیونکہ سواری کی اجازت آپ اسے پہلے دے چکے تھے اور آپ کو یہ پہلے معلوم تھا کہ یہ ہدی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 911
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1865
1865. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے چل رہا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا: ”اسے کیا ہوا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ اپنی جان کو تکلیف دے رہا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔“ آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ سوار ہو کر جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1865]
حدیث حاشیہ:
تو اس پر اس منت کا پورا کرنا وجب ہے یا نہیں حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ ایسی نذر کا پورا کرنا واجب نہیں کیوں کہ حج سوار ہو کر کرنا پیدل کرنے سے افضل ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے سوار ہونے کا حکم دیا کہ اس کو پیدل چلنے کی طاقت نہ تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1865
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1690
1690. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا وہ قربانی کا جانور ہانکے جارہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تو اس پر سوار ہوجا۔“ اس نے عرض کیا: یہ تو قربانی کااونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’‘تو اس پر سواری کر۔“ اس نے پھر عرض کیا: یہ تو قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا: ”تو اس پر سوار ہوجا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1690]
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ کے بار بار فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا اس کے شعائر اسلام ہونے کے منافی نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1690
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1690
1690. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا وہ قربانی کا جانور ہانکے جارہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تو اس پر سوار ہوجا۔“ اس نے عرض کیا: یہ تو قربانی کااونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’‘تو اس پر سواری کر۔“ اس نے پھر عرض کیا: یہ تو قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا: ”تو اس پر سوار ہوجا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1690]
حدیث حاشیہ:
:
(1)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور پر سواری کرنا جائز ہے، خواہ وہ قربانی فرض ہو یا نفل کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے مالک سے اس قسم کی تفصیل دریافت نہیں کی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض یا نفل قربانی کا ایک ہی حکم ہے۔
حضرت علی ؓ سے سوال ہوا کہ قربانی کے جانور پر سواری کرنا کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا:
اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ جب پیدل چلنے والے لوگوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں قربانی کے جانوروں پر سوار ہونے کا حکم دیتے۔
اس معاملے میں ضرورت کو پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے اور جب ضرورت ختم ہو جائے تو انہیں سواری کے لیے استعمال نہ کیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”قربانی کے جانور پر اچھے انداز میں سواری کی جائے جبکہ تجھے اس کی ضرورت ہو یہاں تک کہ دوسری سواری مل جائے۔
“ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3214(1324)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر اور سواری دستیاب ہو تو قربانی کے جانور کو آزاد چھوڑ دیا جائے، چنانچہ امام بیہقی ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(يركب إذا اضطر ركوبا غير قادح)
”جب سواری کی ضرورت ہو تو قربانی کے جانور پر سواری کی جا سکتی ہے۔
“ لیکن ان جانوروں کو بطور اجرت سواری کے لیے نہ دیا جائے۔
(فتح الباري: 679/3)
(2)
دراصل دور جاہلیت میں لوگ کچھ جانوروں کو مذہبی نذرونیاز کے طور پر چھوڑ دیتے تھے۔
ان پر سواری کرنا ان کے ہاں معیوب تھا۔
قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی یہی تصور تھا۔
اسلام نے اسے غلط قرار دیا کیونکہ قربانی کے جانور ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں بالکل معطل کر دیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے اصرار کے ساتھ بار بار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستے میں تھکاوٹ سے محفوظ رہو۔
اسلام دین فطرت ہے اور اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1690
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1865
1865. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے چل رہا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا: ”اسے کیا ہوا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ اپنی جان کو تکلیف دے رہا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔“ آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ سوار ہو کر جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1865]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض شارحین نے اس بوڑھے کا نام ابو اسرائیل بتایا ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ ابو اسرائیل نے پیدل چلنے کی نذر نہیں مانی تھی بلکہ اس کی منت یہ تھی کہ سائے کے لیے کوئی چیز استعمال نہیں کرے گا، کسی سے گفتگو نہیں کرے گا اور روزہ رکھے گا۔
وہ جمعہ کے دن دھوپ میں کھڑا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔
مذکورہ حدیث میں ایک دوسرا واقعہ بیان ہوا ہے۔
(2)
علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ پیدل حج کرنا افضل ہے یا سوار ہو کر جانا زیادہ فضیلت کا باعث ہے؟ اگر سوار ہو کر حج کرنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے تو مذکورہ منت میں ترک افضل کا التزام ہے اور اگر پیدل حج کرنا افضل ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے عجز کے باعث سوار ہونے کا حکم دیا۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس بوڑھے کو منت پوری کرنے کا حکم نہیں دیا۔
(فتح الباري: 103/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1865