حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ، وَكَانَتِ انْفَكَّتْ رِجْلُهُ، فَأَقَامَ فِي مَشْرُبَةٍ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ نَزَلَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ: آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ:" إِنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6684
حدیث حاشیہ:
(1)
ایلاء کے معنی قسم کھانا ہیں۔
حدیث میں ایلاء لغوی مراد ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ ایک ماہ تک بالاخانے میں قیام رکھیں گے اور نیچے نہیں اتریں گے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جب کسی نے قسم کھائی کہ ایک مہینہ اپنے گھر والوں کے پاس نہیں جائے گا اور وہ مہینہ انتیس دن کا ہو، پھر اگر وہ انتیس دن بعد اپنے گھر میں داخل ہوا تو قسم نہیں ٹوٹے گی۔
یہ اس وقت ہے جب مہینے کے آغاز میں قسم کھائے اور اگر کچھ دن گزر جانے کے بعد قسم کھائے تو تیس دن پورے کرنا ضروری ہیں کیونکہ اس صورت میں چاند کے طلوع پر بنیاد نہیں رکھی جا سکے گی، اس لیے تعداد کا اعتبار کرتے ہوئے تیس دن پورے کرنا پڑیں گے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 692/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6684
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5289
5289. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم اٹھائی۔ ان دںوں آپ کے پاؤں کو موچ بھی آ گئی تھی۔ آپ بالا خانے میں انتیس دن تک ٹھہرے رہے پھر اترے تو حاضرین نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک ماہ تک بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی تھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5289]
حدیث حاشیہ:
ایلاء قسم کھانے کو کہتے ہیں کہ کوئی مرد اپنی عورت کے پاس مدت مقررہ تک نہ جانے کی قسم کھا لے۔
مزید تفصیل حدیث ذیل میں ملاحظہ ہو۔
لفظ ایلاء کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ کوئی قسم کھائے کہ وہ اپنی عورت کے پاس نہیں جائے گا۔
جمہور علماء کے نزدیک ایلاء کی مدت چار مہینے ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5289
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4483
4483. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میری تین باتیں بالکل اللہ (کی وحی) کے مطابق ہوئیں یا فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے تین باتوں میں میرے ساتھ اتفاق کیا۔ (اول) میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ مقام ابراہیم کو جائے نماز قرار دے لیں (تو بہت اچھا ہو۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔“) (دوم) میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کے پاس اچھے برے ہر قسم کے لوگ آتے ہیں۔ اگر آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دے دیں (تو مناسب ہے)۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے آیت حجاب نازل فرمائی۔ (سوم) مجھے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کسی بیوی سے ناراض ہیں تو میں ان کے پاس گیا اور انہیں کہا: دیکھو! تم اس قسم کی باتوں سے باز آ جاؤ بصورت دیگر اللہ تعالٰی اپنے رسول کریم ﷺ کو تم سے بہتر بیویاں بدل دے گا۔ اس کے بعد جب میں آپ کی ایک اہلیہ کے پاس گیا تو وہ بول اٹھیں:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4483]
حدیث حاشیہ:
کعبہ میں صرف ایک ہی مصلی مقام ابراہیم تھا، مگر صدافسوس! کہ امت نے کعبہ کو تقسیم کرکے اس میں چار مصلے قائم کر دئیے اور امت کو چار حصوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا۔
اللہ تعالیٰ حکومت سعودیہ عربیہ کو ہمیشہ قائم رکھے جس نے پھر اسلام اور کعبہ کی وحدت کو قائم کرنے کے لیے امت کو ایک ہی اصل مقام پر جمع کرکے فالتو مصلوں کو ختم کیا۔
خلدھا اللہ تعالیٰ (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4483
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1911
1911. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک کے لیے اپنی بیویوں سے ترک تعلق کی قسم اٹھائی جبکہ آپ کے پاؤں کو موچ آگئی تھی۔ آپ اپنے بالا خانہ میں انتیس دن تک اقامت گزیں رہے۔ پھر آپ نیچے اترآئے تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے تو مہینہ بھر کی قسم اٹھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1911]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا عنوان صحیح مسلم میں مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب تم (رمضان کا)
چاند دیکھو تو روزہ رکھو۔
۔
“ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2514(1081)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت متعدد احادیث بیان کی ہیں جو شک کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے بہترین ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔
سب سے پہلے وہ معلق روایت ذکر کی ہے جس میں صراحت کے ساتھ شک کے دن روزہ رکھنے کی نفی بیان ہوئی ہے اور اس دن روزہ رکھنا ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی قرار پاتی ہے۔
اس کے بعد حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کے دو طرق بیان کیے ہیں۔
ایک میں اندازہ پورا کرنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ اس سے مراد تیس دن پورے کرنا ہیں، پھر ہاتھ سے اشارہ کر کے مہینے کے دن بتائے کہ بعض اوقات مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے، پھر حدیث ابو ہریرہ میں تیس دن کی صراحت ہے، پھر حضرت ام سلمہ ؓ کی حدیث سے مہینے کے انتیس دن ثابت کیے۔
(2)
یاد رہے کہ یوم شک سے مراد شعبان کی تیسویں کا روزہ رکھنا ہے جبکہ کسی وجہ سے 29 ویں تاریخ کو چاند نظر نہ آئے۔
(فتح الباري: 154/4)
ہمارے ہاں تجدد پسند طبقہ ”وحدت عید“ کو بہت اچھال رہا ہے، یعنی مکہ مکرمہ کی رؤیت کو بنیاد قرار دے کر عالم اسلام میں ایک ہی دن عید منائی جائے، حالانکہ یہ فکر صریح احادیث کے خلاف ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ام فضل بنت حارث ؓ نے حضرت کریب کو کسی کام کے لیے حضرت معاویہ ؓ کے پاس شام کے علاقے میں بھیجا۔
وہاں انہیں جمعہ کی رات رمضان کا چاند نظر آ گیا۔
وہ مہینے کے آخر میں مدینے واپس آئے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے چاند دیکھنے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عباس نے فرمایا:
ہم نے تو ہفتے کی رات چاند دیکھا تھا، لہذا ہم اس وقت تک روزے رکھتے رہیں گے جب تک کہ تیس پورے نہ کر لیں یا ہم خود چاند نہ دیکھ لیں۔
حضرت کریب نے عرض کی:
آپ کے لیے معاویہ ؓ کا چاند دیکھ لینا اور روزہ رکھ لینا کافی نہیں؟ حضرت ابن عباس ؓ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا:
ہم ایسا نہیں کر سکتے۔
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2528(1087)
بہرحال مطالع کا اختلاف رؤیت ہلال پر اثر انداز ہوتا ہے اور جن علاقوں میں مطالع کا اتحاد ہو وہاں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہروں کے لیے کافی ہو گی بصورت دیگر ہر شہر کے لیے الگ رؤیت کا اعتبار ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1911
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4483
4483. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میری تین باتیں بالکل اللہ (کی وحی) کے مطابق ہوئیں یا فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے تین باتوں میں میرے ساتھ اتفاق کیا۔ (اول) میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ مقام ابراہیم کو جائے نماز قرار دے لیں (تو بہت اچھا ہو۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔“) (دوم) میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کے پاس اچھے برے ہر قسم کے لوگ آتے ہیں۔ اگر آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دے دیں (تو مناسب ہے)۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے آیت حجاب نازل فرمائی۔ (سوم) مجھے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کسی بیوی سے ناراض ہیں تو میں ان کے پاس گیا اور انہیں کہا: دیکھو! تم اس قسم کی باتوں سے باز آ جاؤ بصورت دیگر اللہ تعالٰی اپنے رسول کریم ﷺ کو تم سے بہتر بیویاں بدل دے گا۔ اس کے بعد جب میں آپ کی ایک اہلیہ کے پاس گیا تو وہ بول اٹھیں:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4483]
حدیث حاشیہ:
1۔
مقام ابراہیم کی تفسیرمیں مختلف اقوال ہیں۔
راجح یہ ہے کہ اس سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ کی تعمیرکی تھی اور جواب تک موجود ہے۔
اس پتھر پر حضرت ابراہیم ؑ کے قدم مبارک کے نشانات ہیں۔
اب اس پتھر کو ایک شیشے کے گلوب میں محفوظ کردیا گیا ہے جسے ہرحاجی اور عمرہ کرنے والا بآسانی دیکھ سکتا ہے۔
2۔
طواف مکمل کرنے کے بعد اس مقام پر دورکعت پڑنے کا حکم ہے یہ پہلے بیت اللہ سے متصل تھا۔
رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے زمانے تک اپنے پہلے مقام پر رہا۔
حضرت عمر ؓ نے جب دیکھا کہ اس سے طواف کرنے والوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے تو انھوں نے اسے پیچھے ہٹا دیا۔
واضح رہے کہ بیت اللہ میں مقام ابراہیم کی جگہ مصلیٰ تھا مگر صد افسوس! کہ تقلید شخصی سے متاثرین نے کعبے کو تقسیم کر کے اس میں چار مصلے قائم کر دیے اور اس طرح امت مسلمہ چار حصوں میں بٹ گئی۔
جب ایک مصلے والے نماز پڑھتے تو دوسرے کھڑے رہتے اور وہ نماز میں شریک نہ ہوتے، فراغت کے بعد وہ اپنی نماز ادا کرتے۔
اللہ تعالیٰ حکومت سعودیہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے جس نے پھر اسلام اور کعبے کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے امت مسلمہ کو ایک ہی مصلے پر جمع کردیا۔
باقی مصلوں کو ختم کر کے امت مسلمہ کو گروہ بندیوں اور فتراق سے محفوظ کردیا۔
3۔
قرآن کریم کی تقریباً پندرہ آیات ہیں جو سیدنا عمر ؓ کی رائے کے موافق نازل ہوئیں۔
انھیں "موافقات عمر" کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اسی بنا پر حضرت عمرؓ کے متعلق فرمایا:
"عمر کی زبان پر حق بولتا ہے۔
'' (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2962)
نیز رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
"پہلی امتوں میں محدث اور بلہم لوگ ہوتے تھے میری امت میں عمر محدث ہیں۔
" (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبيﷺ حدیث: 3689)
اس حدیث میں تین مقامات کا ذکر ہے کسی عدد کا ذکر کرنا زائد کے لیے مانع نہیں ہوتا۔
اگرچہ حکم الٰہی حضرت عمرؓ نے جب حضرت انس ؓ سے گفتگو کی تو اس وقت ابھی تین مواقع پر موافقت ہوئی ہو باقی موافقات اس کے بعد وقوع پذیرہوئی ہوں۔
(عمدة القاري: 428/12)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4483
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4916
4916. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ازواج مطہرات نے نبی ﷺ کے خلاف غیرت کا رعب جمانے کے لیے باہمی اتفاق کر لیا تو میں نے ان سے کہا: اگر نبی تم کو طلاق دے دے تو بعید نہیں کہ اللہ تعالٰی تمہارے بدلے میں انہیں تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (جو باب میں مذکور ہے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4916]
حدیث حاشیہ:
1۔
عائلی زندگی میں خانگی معاملات کے لیے بے لاگ احتساب کی یہ آخری صورت ہے جو ان آیات میں بیان کی گئی ہے۔
آخر ایسا کیوں نہ ہوتا! ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کوئی عام عورتیں نہ تھیں اور ان کے شوہر بھی کوئی عام انسان نہ تھے بلکہ وہ اس عظیم ہستی کی بیویاں تھیں جسے اللہ تعالیٰ نے انتہائی اہم ذمہ داری کے منصب پر مامورفرمایا تھا، جسے ہر وقت کفار و مشرکین اور آستین وقت کفار ومشرکین اور آستین کے سانپوں منافقین کے ساتھ مسلسل جہاد سے سابقہ درپیش تھا۔
ایسے حالات میں ان کے خلاف باہمی اتفاق سے منصوبہ سازی کی قطعاً گنجائش نہ تھی کہ ہمارے شوہر نامدار فلاں بیوی کو زیادہ وقت دیتے ہیں اور اس کے پاس شہد نوش کرتے ہیں، پھر انھیں اللہ تعالیٰ کی ایک حلال کردہ چیز کو اپنے آپ پر حرام قرار دینے کے لیے مجبور کر دیا جائے۔
ان کے گرد گھیرا اس قدر تنگ کر دیا جائے کہ وہ ہستی ان سب سے الگ ہوکر ایک بالاخانہ میں خلوت گزینی پر مجبور ہو جائے۔
2۔
اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا کہ تمھیں اس گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ آخر مرد کو بیویوں کی ضرورت تو ہوتی ہے اور ہم سے بہتر عورتیں کہاں ہیں، اس لیے اگر ہم دباؤ ڈالیں گی تو سب باتیں منظور کرلی جائیں گی، اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تم سے بہتر بیویاں انھیں عنایت کر دے، پھر بہتر بیویوں کے انتخاب کے لیے عالمہ، فاضلہ، حافظہ اورقاریہ نہیں بلکہ ان کے اخلاق و کردار کو سامنے رکھا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4916
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5201
5201. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے قسم اٹھائی کہ ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے پاس جائیں گے، چنانچہ آپ اپنے بالا خانہ میں گوشہ نشین ہو گئے۔ پھر انتیس دن کے بعد ینچے آئے تو آپ سے عرض کی گئی: اللہ کے رسول! آپ نے ایک ماہ کی قسم اٹھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ”بے شک مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5201]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ خاوند کو قسم اٹھا کر عورت کےقریب نہ جانے کا اختیار ہے لیکن عورت کو اس قسم کا اختیار نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ عورت محکوم ہے اور مرد حاکم ہے جیسا کہ آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے۔
یہ مناسبت امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر کے مناسب معلوم ہوتی ہے۔
ایک دوسری مناسبت جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ حدیث کی مناسبت آیت کے ان الفاظ سے ہے:
(وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ)
”انھیں بستروں سے الگ کردو۔
“ ان کو الگ کر دینا ہی ایلاء کے مناسب ہے۔
(فتح الباري: 372/9)
یہ مناسبت امام بخاری رحمہ اللہ کی شان کے لائق نہیں کیونکہ یہ تو بہت ظاہر اور نمایاں ہے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5201
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5289
5289. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم اٹھائی۔ ان دںوں آپ کے پاؤں کو موچ بھی آ گئی تھی۔ آپ بالا خانے میں انتیس دن تک ٹھہرے رہے پھر اترے تو حاضرین نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک ماہ تک بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی تھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5289]
حدیث حاشیہ:
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ شرعی ایلاء نہیں کیونکہ اس میں چار ماہ تک تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی جاتی ہے، لہٰذا اس حدیث کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں۔
لیکن ہمیں اس موقف اس اتفاق نہیں ہے کیونکہ ایلاء چار ماہ سے کم مدت کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس سے مقصود عورت کا دماغ درست کرنا ہے اور وہ عورت کے مزاج کے مطابق چار ماہ سے کم مدت کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
اگر چار ماہ سے کم مدت کے لیےایلاء نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا واقع نہ ہوتا۔
قرآن کریم کے مطابق ایلاء کرنے والے کے لیے مہلت چار ماہ ہے، اس کے بعد دیگر کارروائی ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5289