صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
2. بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ فَأَتَمَّ الْحَدِيثَ ثُمَّ أَجَابَ السَّائِلَ:
باب: اس بیان میں کہ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپنی کسی دوسری بات میں مشغول ہو پس (ادب کا تقاضا ہے کہ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے۔
حدیث نمبر: 59
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ. ح وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: سَمِعَ مَا قَالَ، فَكَرِهَ مَا قَالَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ، قَالَ: أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ؟ قَالَ: هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ (فليح بن سليمان الأسلمي) نے بیان کیا، کہا ہلال بن علی نے، انہوں نے عطاء بن یسار سے نقل کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ (جو مجلس میں تھے) کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (یا رسول اللہ!) میں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت (ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 59 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 59
� تشریح:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری باتوں میں مشغول تھے، اس لیے اس کا جواب بعد میں دیا۔ یہیں سے حضرت امام کا مقصود باب ثابت ہوا اور ظاہر ہوا کہ علمی آداب میں یہ ضروری ادب ہے کہ شاگرد موقع محل دیکھ کر استاد سے بات کریں۔ کوئی اور شخص بات کر رہا ہو تو جب تک وہ فارغ نہ ہو درمیان میں دخل اندازی نہ کریں۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وانما لم يجبه عليه الصلوهٰ والسلام لانه يحتمل ان يكون لانتظار الوحي اويكون مشغولا بجواب سائل اخر و يوخذ منه انه ينبغي للعالم والقاضي ونحوهما رعاية تقدم الاسبق.» ”یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید وحی کے انتظار میں اس کو جواب نہ دیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے سائل کے جواب میں مصروف تھے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عالم اور قاضی صاحبان کو پہلے آنے والوں کی رعایت کرنا ضروری ہے۔“
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 59
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:59
حدیث حاشیہ:
1۔
پہلے باب میں علم کے متعلق طلب زیادت کا حکم تھا، اس باب میں اس کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا علم نہ ہو، اس کے متعلق اہل علم سے دریافت کر لینا چاہیے نیز اس حدیث میں معلم کے کچھ آداب ہیں:
(1)
اسے طلباء کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
(2)
کسی ضرورت و مصلحت کے پیش نظر اسے کسی سوال کے جواب کو مؤخر کرنے کی اجازت ہے۔
اسی طرح کچھ آداب طالب علم سے متعلق ہیں۔
(3)
اگر استاد کسی سے گفتگو میں مصروف ہو تو خواہ مخواہ اس میں دخل انداز نہ ہو۔
(4)
اگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق استفسار کرنے کی اجازت ہے۔
(فتح الباري: 1؍288)
2۔
ہنگامی قسم کے سوالات کے متعلق اصل بات یہ ہے کہ سوال کی نوعیت سائل اور مفتی کے حالات پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
اگر کوئی ہنگامی سوال عقیدے کے متعلق ہےتو خطبہ چھوڑ کر بھی اس کا جواب دیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے دین کے متعلق سوال کیا تو آپ نے خطبہ چھوڑکر اسے جواب دیا۔
(صحيح مسلم، الجمعة: 2025۔
(876)
3۔
ضروریات زندگی سے متعلق اہم سوالات کرنے چاہئیں، ان کا جواب بھی پہلے دینا چاہیے، جن سوالات کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے نہیں ہے ان سے صرف نظر کرنا عین مصلحت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے قیامت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
”تو نے اس کے متعلق کیا تیاری کی ہے؟“ یعنی سوال اس کی تیاری کے متعلق کرنا چاہیے تھا۔
(صحيح البخاري، الأدب، حدیث: 6171)
4۔
اگر مفتی مصروف ہو اور کوئی جلد باز دوران مصروفیت میں سوال کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اسی وقت جواب دیا جائے بلکہ اپنی مصروفیات سے فراغت کے بعد اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
یہ کتمان علم نہیں جس پر قرآن میں وعید آئی ہے۔
5۔
حدیث میں”امر“سے مراد دینی معاملات ہیں جیسے خلافت قضا اور افتا وغیرہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دینی ضروریات کے لیے علمی لحاظ سے مضبوطی کے لیے علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
علماء حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ طالبان حق کی تسلی کرائیں۔
حدیث میں ہے کہ قیامت سے پہلے علم کی تلاش جاہلوں کے ہاں کی جائے گی۔
جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو قیامت قریب ہوگی۔
(فتح الباري: 1؍189)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 59
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6496
6496. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کے منتظر رہو۔“ پوچھا اللہ کے رسول! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ”جب معاملات نالائق اور نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6496]
حدیث حاشیہ:
ابن بطال نے کہا اللہ پاک نے حکومت کے ذمہ داروں پر یہ امانت سونپی ہے کہ وہ عہدہ اور مناصب ایمانداراور دیانت دار آدمیوں کو دیں اگر ذمہ دار لوگ ایسا نہ کریں گے تو عند اللہ خائن ٹھہریں گے۔
آج کے نام نہاد جمہور ی دور میں یہ ساری باتیں خواب وخیا ل ہوکر رہ گئی ہیں۔
إلا ماشاء اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6496
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6496
6496. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کے منتظر رہو۔“ پوچھا اللہ کے رسول! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ”جب معاملات نالائق اور نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6496]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں لفظ ''الأمر'' آیا ہے، اس سے مراد وہ امور ہیں جن کا تعلق حکومت و امارت اور قضا و افتا سے ہو۔
جب اہم منصب ایسے لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں جیسا کہ آج کل جمہوری دور میں ہو رہا ہے تو قیامت کا ظہور قریب ہو گا۔
(2)
شارح صحیح بخاری ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے حکومت کے ذمہ داروں کو یہ امانت سونپی ہے کہ وہ اہم مناصب دیانت دار اور ایمان والوں کے حوالے کریں، اگر حکومت کے ذمہ دار ایسا نہیں کریں گے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں خائن ٹھہریں گے۔
(فتح الباري: 406/11)
دور حاضر میں یہ بات روز روشن کی طرح دیکھی جا سکتی ہے کہ حکومت کے اہم مناصب نالائق لوگوں کے سپرد ہیں اور وہ قومی خزانے کو جی بھر کر لوٹ رہے ہیں۔
أعاذنا الله منه
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6496