Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
15. بَابُ إِذَا حَنِثَ نَاسِيًا فِي الأَيْمَانِ:
باب: اگر قسم کھانے کے بعد بھولے سے اس کو توڑ ڈالے تو کفارہ لازم ہو گا یا نہیں۔
حدیث نمبر: 6673
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: كَتَبَ إِلَيَّ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ: وَكَانَ عِنْدَهُمْ ضَيْفٌ لَهُمْ، فَأَمَرَ أَهْلَهُ أَنْ يَذْبَحُوا قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ، لِيَأْكُلَ ضَيْفُهُمْ، فَذَبَحُوا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُعِيدَ الذَّبْحَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِنْدِي عَنَاقٌ جَذَعٌ عَنَاقُ لَبَنٍ هِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَكَانَ ابْنُ عَوْنٍ يَقِفُ فِي هَذَا الْمَكَانِ، عَنْ حَدِيثِ الشَّعْبِيِّ، وَيُحَدِّثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ بِمِثْلِ هَذَا الْحَدِيثِ، وَيَقِفُ فِي هَذَا الْمَكَانِ وَيَقُولُ: لَا أَدْرِي أَبَلَغَتِ الرُّخْصَةُ غَيْرَهُ، أَمْ لَا، رَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ محمد بن بشار نے مجھے لکھا کہ ہم سے معاذ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے شعبی نے بیان کیا، کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ان کے یہاں کچھ ان کے مہمان ٹھہرے ہوئے تھے تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ان کے واپس آنے سے پہلے جانور ذبح کر لیں تاکہ ان کے مہمان کھائیں، چنانچہ انہوں نے نماز عید الاضحی سے پہلے جانور ذبح کر لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ نماز کے بعد دوبارہ ذبح کریں۔ براء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے پاس ایک سال سے زیادہ دودھ والی بکری ہے جو دو بکریوں کے گوشت سے بڑھ کر ہے۔ ابن عوف شعبی کی حدیث کے اس مقام پر ٹھہر جاتے تھے اور محمد بن سیرین سے اسی حدیث کی طرح حدیث بیان کرتے تھے اور اس مقام پر رک کر کہتے تھے کہ مجھے معلوم نہیں، یہ رخصت دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے یا صرف براء رضی اللہ عنہ کے لیے ہی تھی۔ اس کی روایت ایوب نے ابن سیرین سے کی ہے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6673 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6673  
حدیث حاشیہ:
سعید بن جبیر نےحضرت ابن عباس ؓ کےسامنے نوف بکالی کا قول نقل کیا تھا کہ وہ خضر والے موسیٰ کواسرائیلی موسیٰ نہیں بلکہ اور کوئی دوسرا موسیٰ کہتےہیں۔
اس پر حضرت ابن عباس نے نوف بکالی کے قول کی تردید کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت نقل کر کے بتلایا کہ وہ موسیٰ اسرائیلی ہی تھے، جن کا اس شرط کا خیال نہیں رہا تھا کہ وہ خضر سےکرچکے تھے اس پرلفظ لاتؤاخذني الخ انہوں نے کہے۔
وجہ مناسبت وہی ہے کہ سہو اور نسیان کوحضرت موسیٰ نےمؤاخذہ کے قابل نہیں سمجھا حضرت خضرنے بھی اس نسیان کو معاف ہی کر دیا تھا۔
حضرت انس بن مالک خزرجی خادم دس سال کی عمر میں خدمت نبوی میں آئے اور آخر تک خاص خدمات کا شرف حاصل ہوا۔
عہد فاروقی میں بصرہ میں مبلغ اسلام کی حیثیت سےمقیم ہوئے اور 91ھ میں بعمر 103 سال بصرہ ہی میں انتقال ہوا۔
مرتے وقت سو کے قریب اولاد چھوڑ کر گئے ان کی ماں کا نام ام سلیم بنت ملحان ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6673   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5557  
5557. سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ابو بردہ ؓ نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی تو نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: اس کے بدلے کوئی دوسری قربانی ذبح کرو۔ انہوں نے عرض کی: میرے پاس صرف ایک یکسالہ بچہ ہے میرے خیال کے مطابق وہ دو دانتے جانور سے بہتر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اس کی جگہ اسی کو ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہوگا۔ حاتم بن وردان نے محمد بن سیرین سے انہوں نے سیدنا انس ؓ اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے پاس ایک یکسالہ جوان بچہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5557]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں دو حضرات ہیں جنہیں خاص حالات کے پیش نظر ایک سالہ بکری کے بچے کو بطور قربانی ذبح کرنے کی اجازت دی گئی۔
ایک حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ ہیں۔
یہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ماموں ہیں۔
اور دوسرے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں قربانی کے جانور تقسیم کرنے پر مقرر کیا گیا تھا۔
انہیں خلوص نیت اور جذبۂ اتباع کے پیش نظر خصوصی اجازت دی گئی لیکن ساتھ وضاحت کر دی گئی کہ دوسرے لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔
اگرچہ دوسرے بعض حضرات کے متعلق بھی اس طرح کی صراحت ہے لیکن وہ روایات محل نظر ہیں۔
(2)
بہرحال علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بکری کا بچہ خواہ کتنا ہی موٹا تازہ ہو بطور قربانی ذبح نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے دو دانتا ہونا ضروری ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 20/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5557