صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
14. بَابُ: {لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ} :
باب: سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”وہ تمہاری لغو قسموں کے بارے میں تم سے پکڑ نہیں کرے گا بلکہ ان قسموں کے بارے میں کرے گا جن کا تمہارے دلوں نے ارادہ کیا ہو گا اور اللہ بڑا ہی مغفرت کرنے والا بہت بردبار ہے“۔
حدیث نمبر: 6663
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:" لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ سورة البقرة آية 225، قَالَ: قَالَتْ: أُنْزِلَتْ فِي قَوْلِهِ: لَا وَاللَّهِ، بَلَى وَاللَّهِ".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ آیت «لا يؤاخذكم الله باللغو» ”اللہ تعالیٰ تم سے لغو قسموں کے بارے میں پکڑ نہیں کرے گا۔“ راوی نے بیان کیا کہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آیت «لا، والله بلى والله.» (بے ساختہ جو قسمیں عادت بنا لی جاتی ہیں) کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6663 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6663
حدیث حاشیہ:
اکثر لوگوں کا تکیہ کلام ہی قسم کھانا بن جاتا ہے۔
ایسی عادت اچھی نہیں تاہم لغو قسموں کا کوئی کفارہ نہیں ہےجیسا کہ آیت قرآنی کا مفہوم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6663
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6663
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یمین لغو کی وضاحت کی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لغو قسم“ یہ ہے کہ آدمی اپنے گھر میں كلا والله اور بلٰی والله بے ساختہ کہہ دیتا ہے۔
'' (سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3254، بعد حدیث: 3324)
لیکن امام ابو داود رحمہ اللہ نے اس کے مرفوع یا موقوف ہونے کے متعلق اختلاف کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
(2)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے یمین لغو کے متعلق ثابت کیا ہے کہ اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں اور نہ اس میں کوئی کفارہ ہی پڑتا ہے۔
یمین لغو کی حقیقت ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔
وہاں اس کی وضاحت موجود ہے۔
بہرحال کچھ لوگوں کا تکیۂ کلام ہوتا ہے کہ وہ دوران گفتگو میں قصد و ارادہ کے بغیر بطور عادت قسم اٹھاتے ہیں اگرچہ یہ عادت اچھی نہیں، تاہم اس میں کوئی گناہ یا کفارہ نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6663