صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
8. بَابُ لاَ يَقُولُ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ. وَهَلْ يَقُولُ أَنَا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ؟
باب: یوں کہنا منع ہے کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں (وہ ہو گا) اور کیا کوئی شخص یوں کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو اللہ کا آسرا ہے پھر آپ کا؟
حدیث نمبر: 6653
وَقَالَ عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ، فَبَعَثَ مَلَكًا فَأَتَى الْأَبْرَصَ فَقَالَ: تَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ، فَلَا بَلَاغَ لِي إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ"، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ".
اور عمرو بن عاصم نے کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن عبداللہ نے، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے اللہ نے ان کو آزمانا چاہا (پھر سارا قصہ بیان کیا) فرشتے کو کوڑھی کے پاس بھیجا وہ اس سے کہنے لگا میری روزی کے سارے ذریعے کٹ گئے ہیں اب اللہ ہی کا آسرا ہے پھر تیرا (یا اب اللہ ہی کی مدد درکار ہے پھر تیری) پھر پوری حدیث کو ذکر کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6653 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6653
حدیث حاشیہ:
امام بخاری پہلے مطلب کے لیے کوئی حدیث نہیں لائے حالانکہ اس باب میں صریح حدیثیں وارد ہیں کیونکہ وہ ان کی شرط پر نہ ہوں گی وہ حدیث سنائی۔
ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ کوئی یوں نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں بلکہ یوں کہے کہ جو اللہ اکیلا چاہے وہ ہوگا۔
باب کے دوسرے حصے کا مطلب حدیث کے آخری جملہ سے نکلتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6653
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6653
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6653 کا باب: «بَابُ لاَ يَقُولُ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ. وَهَلْ يَقُولُ أَنَا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ؟»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «ما شاء الله و شئت» کے بھی الفاظ نقل فرمائے جبکہ ترجمۃ الباب کے اس جزء کی کوئی حدیث پیش نہیں کی، اور دوسرا جزء «أنا بالله ثم بك» کی حدیث پیش فرمائی ہے، یعنی ترجمۃ الباب کا مکمل طور پر حدیث سے مطابقت ہونا مشکل ہے۔
علامہ مہلب رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے پہلے جزء سے مطابقت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«إنما أراد البخاري أن قوله: ”ما شاء الله ثم شئت“ جائز مستدلًا بقوله: أنا بالله ثم بك.» (2)
”دراصل امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود «ما شاء الله ثم شنت» سے جائز کی طرف ہے اور آپ رحمہ اللہ تحت الباب حدیث میں وارد شدہ الفاظ «أنا بالله ثم بك» سے مستدلل ہیں۔“
یعنی کوئی یوں کہے کہ ”جو آپ نے چاہا اور اللہ نے چاہا وہی ہوا۔“ تو یہ حرام ہے، اگر کوئی یوں کہے کہ ”جو اللہ نے چاہا، پھر آپ نے چاہا“ تو درست ہے، کیوں کہ مشیت تو صرف اللہ تعالی کی ہی ہو گی، اس کی مشیت کے تحت سب کے ایرادے مقید ہیں، ترجمۃ الباب کے پہلے جز کا تعلق بھی ایک مرفوع حدیث ہی ہے، چونکہ وہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہ تھی تو اسے ذکر نہ کر پائے، اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب الاسماء والصفات میں ذکر فرمایا ہے:
«جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم يكلمه فى بعض الأمر، فقال الرجل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ما شاء الله و شئت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اجعلتني لله عدلًا، بل ما شاء الله وحده.» (1)
”ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، بعض امور پر گفتگو کرنے لگا تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ وہی ہوا جو اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ”کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا؟ بلکہ یوں کہو کہ وہی ہوا جو اللہ اکیلے نے چاہا۔“
اس حدیث کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا اور اسی مفہوم کی دوسری حدیث میں الفاظ کچھ یوں ہیں:
«لا تقولوا ما شاء الله و شاء فلان، و لكن قولوا ما شاء الله ثم شاء فلان.» (2)
”تم نہ کہو یوں کہ جو چاہا اللہ نے اور فلاں نے وہی ہوا، لیکن کہو وہی ہوا جو (اکیلے) اللہ نے چاہا پھر فلاں نے چاہا۔“
مندرجہ بالا حدیث میں جو الفاظ وارد ہیں اس کا مفہوم صحیح بخاری کی حدیث سے مناسبت رکھتا ہے، لہذا اب مطابقت اس جہت سے ہو گی کہ «ما شاء الله و شئت» کہنا حرام ہے، اس کی وضاحت حدیث ”کتاب الاسماء والصفات“ میں موجود ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہ تھی اس لیے اس کو تحت الباب ذکر نہیں کیا اور جو صحیح بخاری کی حدیث کے متن میں الفاظ ہیں: «فلا بلاغ لي إلا بالله ثم بك» تو اس کا تعلق ترجمۃ الباب سے ظاہر ہے۔
امام ابن بطال رحمہ اللہ اپنی شرح میں لکھتے ہیں: ایک یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:
«انكم تشركون، و انكم تجعلون لله ندًا، تقولون: و الكعبة، و تقولون ما شاء الله و شئت، فأمرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أرادوا أن يحلفوا أن يقولوا: ”و رب الكعبة“ و أمرهم أن يقولوا: ما شاء الله ثم شئت.» (3)
”یقینا (آپ کی) امت شرک کرتی ہے، آپ لوگ اللہ تعالی کا شریک ٹھہراتے ہو اور کہتے ہو: کعبہ کی قسم، اور کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور آپ چاہو (وہی ہوتا ہے)، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ ”جب آپ لوگ قسم کا ارادہ کریں تو یوں کہیں: کعبہ کے رب کی قسم۔“ اور انہیں اس کا بھی حکم دیا کہ وہ یوں کہیں: ”جو اللہ نے چاہا وہی ہوا پھر آپ نے چاہا۔“
اس حدیث کے نقل کے بعد مزید لکھتے ہیں:
«و هذا الحديث رأي البخاري، و لم يكن من شرطه، فترجم به، و استنبط معناه من حديث أبى هريرة.» (1)
”یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں تھی، مگر اس لیے پیش نہ کر سکے کہ یہ حدیث آپ کی شرط پر نہ تھی، پس اس حدیث کا باب قائم فرما دیا اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سے استنباط فرما لیا۔“
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 234
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6653
حدیث حاشیہ:
(1)
بنی اسرائیل کے تین شخصوں:
کوڑھ والے، گنجے اور نابینے کا واقعہ مشہور ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3464)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس دوسرے جز کے جواز یا عدم جواز کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ بیان نہیں کیا کیونکہ حدیث میں ایک فرشتے کی بات ہے جو بطور امتحان کہی گئی تھی، لہذا اس میں احتمال کی گنجائش ہے اور جس میں دوسرے پہلو کا احتمال ہو اس سے استدلال منع ہوتا ہے، البتہ امام مہلب نے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ماشاءالله ثم ما شئت کہنا جائز ہے، پھر بطور دلیل مذکورہ حدیث بیان کی ہے جس میں أنا بالله ثم بك استعمال ہوا ہے، کیونکہ اس میں ''ثم'' کا استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت بندوں کی مشیت پر مقدم ہے۔
چونکہ اس سلسلے میں صریح حدیث ان کی شرائط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انہوں نے ایک صحیح حدیث سے اس کا جواز استنباط کیا جو ان کی شرط کے مطابق تھی۔
(فتح الباري: 658/11) (2)
اسی طرح أعوذ بالله وبك جائز نہیں کیونکہ واؤ سے اشتراک لازم آتا ہے جبکہ أعوذ بالله ثم بك جائز ہے کیونکہ '' ثم'' سے اشتراک لازم نہیں آتا بلکہ یہ لفظ تراخی کو چاہتا ہے۔
(عمدة القاري: 702/15) (3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مذکورہ حدیث درج ذیل وجوہات کی بنا پر پیش کی ہے:
٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ان الفاظ میں مروی ہے:
”جب تم میں سے کوئی قسم اٹھائے تو یوں نہ کہے ماشاءالله و شئت بلکہ اس طرح کہے:
ماشاءالله ثم شئت (سنن ابن ماجة، الکفارات، حدیث: 2117)
٭ أنا بالله ثم بك سے غیراللہ کی قسم کا جواز کشید کیا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ قسم کے علاوہ تو جائز ہے لیکن قسم اٹھاتے وقت یہ انداز صحیح نہیں کیونکہ اس کے متعلق بصراحت حکم امتناعی ہے۔
(فتح الباري: 659/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6653