حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6648
حدیث حاشیہ:
(1)
زمانۂ جاہلیت میں لوگ اپنے باپ دادا اور بتوں کے نام کی قسمیں اٹھاتے تھے تاکہ ان کی عظمت کا بول بالا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ لوگوں کی زبانوں سے صرف اس کی عظمت و تکریم کا اظہار ہو کیونکہ وہی معبود برحق ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع کر دیا۔
(2)
باپ دادا کی قسم اٹھانے سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ قسم کا مقصد اس ذات کی عظمت کا اظہار ہے جس کی قسم اٹھائی جائے اور حقیقی عظمت تو اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے، اس لیے غیراللہ کی قسم اٹھانا منع ہے۔
(3)
یہ پابندی جن و انس کے لیے ہے جو شریعت پر عمل کرنے کے مکلف ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس پابندی سے بالا ہے، وہ مخلوق کی شرافت کے لیے جو چاہے قسم اٹھائے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید، الطور، السماء، التین اور الزیتون کی قسم اٹھائی ہے۔
کعبہ کی قسم اٹھانا بھی ناجائز ہے۔
قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے، لہذا اس کی قسم اٹھائی جا سکتی ہے کیونکہ اللہ کا کلام اس کی صفت ہے اور صفات باری تعالیٰ کی قسم اٹھانا جائز ہے۔
(4)
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینے کی قسم اٹھانا جائز نہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے ایک آدمی کو کعبے کی قسم اٹھاتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ غیراللہ کی قسم نہ اٹھاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ نے فرمایا:
”جس نے غیراللہ کی قسم اٹھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔
“ (جامع الترمذي، النذور والأیمان، حدیث: 1535)
امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ حدیث میں غیراللہ کی قسم اٹھانے کو شرک اور کفر قرار دیا گیا ہے، اس سے مراد سخت وعید ہے، قسم اٹھانے والا دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے باپ کی قسم اٹھاتے دیکھ کر انہیں دوبارہ مسلمان ہونے کے متعلق نہیں کہا۔
وہاں البتہ اگر کوئی شخص بتوں کی قسم اٹھاتا ہے اور اس سے مقصود ان کی تعظیم اور عظمت ہے تو وہ لا إله إلا الله کا اقرار کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص نے لات و عزیٰ کی قسم اٹھائی، وہ لا إله إلا الله پڑھے۔
“ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6648
الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3251
´غیر اللہ کی قسم کھانا شرک`
«. . . إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ . . .»
”. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا۔“ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 3251]
فوائد و مسائل
SR سوال: بعض لوگ اپنی گفتگو میں اولاد، اولیاء اور نیک بندوں کی قسم کھاتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ ER
جواب: اسلامی تعلیمات میں غیر اللہ کی قسم کھانے سے روکا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسم کو کفر و شرک قرار دیا ہے۔
❀ سعد بن عبداللہ فرماتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو قسم کھاتے ہوئے سنا، اس نے کہا: کعبہ کی قسم! تو اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: «من حلف بغير الله فقد كفر او اشرك» ” جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔“ [ابوداود، كتاب الايمان و النذور: باب كراهية الحلف بالاباء: 3251، ترمذي: 1535]
❀ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک قافلے میں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا، فليحلف بالله او ليسكت» ” بیشک اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جو شخص قسم کھانا چاہے اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔“ [ابوداود، كتاب الايمان و النذور: باب كراهية الحلف بالاباء: 3249، بخاري: 6646، مسلم: فواد عبدالباقي ترقيم1646، دارالسلام ترقيم4257]
↰ مذکورہ بالا حدیث صحیحہ سے معلوم ہو ا کہ غیر اللہ کی قسم کھانا حرام و شرک ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، جو لوگ اپنی گفتگو میں دودھ پتر کی قسم، پیر کی قسم، مرشد کی قسم، سید کی قسم، ماں باپ کی قسم، محبت کی قسم وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں انہیں اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا احادیث پر سنجیدگی و متانت سے غور و حوض کرنا چاہیے اور ناجائز و حرام قسموں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 22
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 543
´غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے`
«. . . 218- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أدرك عمر بن الخطاب وهو يسير فى ركب وهو يحلف بأبيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک قافلے میں سفر کرتے ہوئے اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہیں تمہارے والدین کی قسمیں کھانے سے منع کرتا ہے لہٰذا جو شخص قسم کھانا چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 543]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6646، من حديث مالك به، ورواه مسلم 3/1646، من حديث نافع به]
تفقه:
➊ غیر اللہ کی قسم کھانا ممنوع اور حرام ہے۔
➋ اگر کسی سے لاعلمی میں کتاب وسنت کی مخالفت میں کوئی کام سرزد ہوجائے تو وہ معذور سمجھا جائے گا تاوقتیکہ اسے علم ہوجائے لیکن اگر کوئی ممانعت ثابت ہونے کے باوجود باطل تاویل کے ساتھ دلیل کی مخالفت پر اڑا رہے تو مجرم ہے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سننے کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے تو پھر میں نے کبھی ایسی قسم نہیں کھائی، نہ خود اور نہ کسی دوسرے سے نقل کرتے ہوئے۔ [صحيح بخاري: 6647، صحيح مسلم: 1646، ترقيم دارالسلام: 4254]
معلوم ہوا کہ اتباعِ سنت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اعلیٰ مقام پر تھے۔
➍ ایک روایت میں آیا ہے، «وأفلح وأبيه» اس کا مطلب یہ ہے کہ اور وہ کامیاب ہوگیا، اس کے باپ (کے رب) کی قسم! یہاں «وأبيه» سے مراد «ورب أبيه» ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 218
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1171
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایک کارواں میں اپنے باپ کی قسم اٹھاتے سنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر فرمایا ” اللہ نے تمہیں تمہارے آباء و اجداد کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے۔ پس اب جو قسم کھانا چاہے تو اسے اللہ کے نام کی قسم کھانی چاہیئے ورنہ خاموش رہے۔“ (بخاری و مسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوداؤد اور نسائی کی ایک مرفوع روایت میں ہے ” اپنے باپ دادوں، اپنی ماؤں اور اللہ کے شریکوں کی قسم نہ کھاؤ۔ اللہ کی قسم بھی صرف اس حالت میں کھاؤ کہ جب تم سچے ہو۔“ «بلوغ المرام/حدیث: 1171»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائكم، حديث:6108، ومسلم، الأيمان، باب النهي عن الحلف بغير الله تعالي، حديث:1646، وحديث أبي هريرة: أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3249، والنسائي، الأيمان والنذور، حديث:3797، 3798، وسنده صحيح.»
تشریح:
1. یہ حدیث دلیل ہے کہ غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا حرام ہے۔
جامع الترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس کسی نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔
“ (جامع الترمذي‘ النذور والأیمان‘ حدیث:۱۵۳۵) امام ابوداود رحمہ اللہ نے یہی روایت ان الفاظ سے نقل کی ہے:
”جس کسی نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔
“ (سنن أبي داود‘ الأیمان والنذور‘ حدیث:۳۲۵۱) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کے نام کی قسم کھانا اس کی عظمت کی دلیل ہوتی ہے اور عظمت فی الحقیقت صرف اللہ کے لیے ہے۔
2. قدیم ترین زمانے سے لوگوں کا یہ عقیدہ چلا آرہا ہے کہ جس کے نام کی قسم کھائی جائے اس کا قسم کھانے والے پر غلبہ ہوتا ہے اور وہ مافوق الاسباب بھی نفع و نقصان دینے کی طاقت رکھتا ہے‘ چنانچہ جب قسم کھانے والا اپنی قسم پوری کرتا ہے تو جس کی قسم کھائی گئی ہوتی ہے وہ خوش ہوتا اور اسے نفع دیتا ہے، اور جب قسم کھانے والا اپنی قسم پوری نہیں کرتا تو وہ اس پر ناراض ہوتا اور اسے نقصان پہنچاتا ہے۔
بلاشبہ ایسا عقیدہ غیراللہ کے بارے میں رکھنا کھلا شرک و کفر ہے اور غیر اللہ کے نام کی قسم اور غیراللہ کے نام کی نذر شرک ہی کی ایک صورت ہے‘ لہٰذا جب کوئی اس اعتقاد کے ساتھ قسم کھائے تو اس نے حقیقت میں شرک کا ارتکاب کیا، اور جب قسم کھائے اور یہ اعتقاد و نظریہ نہ ہو تو پھر اس نے کم از کم شرک کی ایک ظاہری صورت کا ارتکاب ضرور کر لیا ہے۔
3. شریعت نے شرک کی ظاہری صورتوں سے بھی اسی طرح منع کیا ہے جیسے حقیقی شرک سے منع فرمایا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1171
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3795
´غیر اللہ کی قسم کھانے کی شناعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو قسم کھائے تو وہ اللہ کے سوا کسی اور کی قسم نہ کھائے“، اور قریش اپنے باپ دادا کی قسم کھاتے تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ۔“ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3795]
اردو حاشہ:
(1) قسم انتہائی معظم ذات کی کھائی جاتی ہے۔ اور حقیقتاً معظم اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے‘ لہٰذا قسم اسی کے نام کی ہونی چاہیے۔ آباؤ اجداد اگرچہ تعظیم ہیں مگر وہ حقیقتاً صاحب عظمت نہیں‘ لہٰذا ان کے نام کی قسم کھانا جائز نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی مخلوق کہ انبیاء‘ ملائکہ اور کعبہ وغیرہ کی قسم بھی ممنوع ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بھی عبادت جائز نہیں۔ گویا قسم بھی عبادت ہے۔
(2) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی مخلوقات کی قسمیں کھائی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قسم تعظیم کی خاطر نہیں ہوتی بلکہ استدلال کی خاطر ہوتی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات شرعی اصول کی صحت وصداقت پر گواہ ہیں۔
(3) غیر اللہ کے نام پر کھائی گئی قسم کا انعقاد نہیں ہوگا کیونکہ یہ حرام ہے۔ ایسی قسم کھانے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے رب سے استغفار کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3795
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3797
´باپ دادا کی قسم کھانے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: میرے باپ کی قسم! میرے باپ کی قسم! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ۔“ (عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) اللہ کی قسم! اس کے بعد پھر میں نے کبھی ان کی قسم نہیں کھائی، نہ تو خود اپنی بات بیان کرتے ہوئے اور نہ ہی دوسرے کی بات نقل کرتے ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3797]
اردو حاشہ:
(1) ”اپنے طور پر“ یعنی خود قصداً قسم کھائی ہو۔ اور ”نقل کرتے ہوئے“ یعنی فلاں نے یہ قسم کھائی۔
(2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو مقام ومرتبہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا وہ اسی اطاعت اور فرماں برداری کی بنا پر تھا۔ دوبارہ کبھی اس بات کو نہ دہرایا جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرما دیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3797
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3251
´باپ دادا کی قسم کھانا منع ہے۔`
سعد بن عبیدہ کہتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا۔“ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3251]
فوائد ومسائل:
1۔
غیر اللہ کی قسم کھانا۔
خواہ وہ کعبہ کی ہو یا فرشتے یا نبیاء یا اولیاء صالحین یا آبائواجداد وغیر کی۔
اسے گویا اللہ کے ہم پلہ ٹھرانا ہے۔
یا اس کی سی صفات سے موصوف سمجھنا ہے۔
جو کہ واضح شرک ہے۔
جس سے ایسا ہوجائے اسے چاہیے کہ وہ ایمان کی تجدید کرلے۔
اور لا الہ الا اللہ پڑھے۔
جیسے کہ (حدیث 3247)میں گزرا ہے۔
2۔
خیال رہے کہ قرآن مجید کی قسم کھانا اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
تاہم اگر کوئی اٹھا لے تو مباح اور جائز ہے۔
اس لئے کہ قرآن مجید اللہ ذو الجلال کا کلا م اور اس کی صفت ہے اور اللہ کی صفات کی قسم کھانا ثابت اور صحیح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3251
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2094
´اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت۔`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”اللہ تمہیں باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے“، اس کے بعد میں نے کبھی باپ دادا کی قسم نہیں کھائی، نہ اپنی طرف سے، اور نہ دوسرے کی نقل کر کے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2094]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اہل عرب کی عادت تھی کہ باپ کی قسم کھا لیا کرتے تھے، اس لیے نبی ﷺ نے منع فرمایا دیا۔
(2)
اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں، خواہ باپ کی ہو یا دادا کی، یا استاد کی یا پیر کی یا بزرگ کی یا کسی ولی کی یا نبی کی جیسے بعض لوگ حضرت علی کی یا ” پنجتن پاک“ کی قسم کھا لیتے ہیں۔
یہ سب حرام ہیں۔
(3)
نقل کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر کسی کی بات کرتے ہوئے کہا جائے کہ ”فلاں نے کہا:
قسم ہے پیرودستگیر کی! میں سچ کہہ رہا ہوں۔“
حضرت عمر نے حکم کی اس حد تک تعمیل کی کہ کسی کی بات بیان کرتے ہوئے بھی یہ نہیں کہا:
”فلاں کہہ رہا تھا:
قسم ہے لات وعزی کی!“ (4)
نامناسب الفاظ کو زبان سے نکالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کسی کی بات سنانے کی ضرورت پڑ جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے لات وعزی کی قسم کھا کر یوں کہا:
جیسے ہم کسی کی گالی نقل کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں:
فلاں نے ماں کی گالی دی، گالی کے الفاظ نہیں دہراتے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2094
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2101
´اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہی جائے تو اس کو مان لینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”اپنے باپ دادا کی قسمیں نہ کھاؤ، جو شخص اللہ کی قسم کھائے تو چاہیئے کہ وہ سچ کہے، اور جس سے اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہی جائے تو اس کو راضی ہونا چاہیئے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے نام پہ راضی نہ ہو وہ اللہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2101]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: 8؍2698، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 2101)
علاوہ ازیں مذکورہ روایت کے ایک ٹکڑے (لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ،)
کی تائید صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: 6648)
۔
(2)
قسم دلانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر تو نے قسم کھالی تو میں اعتبار کر لوں گا۔
اب دوسرا شخص قسم کھاتا ہے اور قسم دلانے والا پھر بھی اعتبار نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی نظر میں قسم کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔
اگر یہ بات تھی تو پھر قسم دلانا ہی غلط تھا ورنہ تسلیم کرے۔
(3)
قسم کھا کر جھوٹ بولنا بہت بڑا گنا ہے۔
(4)
قسم صرف اللہ کی کھانی اور دینی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2101
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4254
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم اپنے آباؤ اجداد کی قسم اٹھاؤ۔“ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی ممانعت سنی ہے، میں نے یہ قسم اپنی طرف سے یا بطور نقل بھی نہیں اٹھائی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4254]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ايمان،
يمين کی جمع ہے،
جس کا معنی ہے،
قوت و طاقت،
اس بنا پر دائیں ہاتھ کو یمین کہتے ہیں،
کیونکہ اس میں زور و قوت زیادہ ہے،
اور قسم کو بھی یمین کہتے ہیں،
کیونکہ عرب آپس میں قسم اٹھاتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے،
اور یمین سے مقصود تاکید و مبالغہ ہوتا ہے۔
(2)
ذاكرا:
اپنی طرف سے،
اثرا:
دوسرے کی قسم کی نقل و حکایت کرتے ہوئے۔
صحیح اور واضح معنی یہی ہے اگرچہ امام بلقینی دو اور احتمال پیدا کرتے ہیں۔
(3)
آثرا کا معنی ہے مختارا کیونکہ آثرا کا معنی ہوتا ہے اس کو پسند کرنا،
تو معنی ہو گا دوسری چیز پر ترجیح دیتے ہوئے اس کو پسند کرتے ہوئے۔
آثرا کا معنی آباو اجداد کے مفاخر اور مکارم بیان کرنا،
اس سے ماثرة اور ماثر ہے یعنی میں نے آباؤ اجداد کے مفاخر بیان کرتے ہوئے ان کی قسم نہیں اٹھائی۔
فوائد ومسائل:
ائمہ اربعہ اور اکثر فقہاء کے نزدیک غیر اللہ کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے،
اور بقول علامہ ابن عبدالبر،
هذا اصل مجمع عليه:
یہ اتفاقی قاعدہ و ضابطہ،
کیونکہ شاذ قول کا اعتبار نہیں ہوتا اور بعض احادیث میں آپﷺ نے وابيه کا لفظ فرمایا ہے،
تو علماء نے اس کے مختلف جوابات دئیے۔
(1)
بقول علامہ ابن عبدالبر،
حدیث میں یہ لفظ صحیح احادیث کے خلاف ہے،
اس لیے منکر ہے لیکن یہ جواب درست نہیں۔
(2)
یہ اس وقت کی بات ہے،
جب ابھی غیراللہ کی قسم،
یا آباؤ و اجداد کی قسم اٹھانا جائز تھا،
بعد میں منسوخ ہو گیا،
لیکن اس کی بھی کوئی دلیل نہیں۔
(3)
عرب یہ لفظ بعض دفعہ تکیہ کلام استعمال کر لیتے تھے قسم اٹھانا مقصود نہیں ہوتا تھا،
اس لیے یہ لفظ غیر شعوری طور پر زبان سے نکل جاتا تھا۔
(4)
اس سے مقصود قسم نہیں ہوتا،
یہ لفظ محض تقریر و تاکید کے لیے بڑھا دیتے ہیں،
جس طرح محض اختصاص کے لیے،
حرف نداء کا اضافہ کر دیتے ہیں،
حالانکہ نداء مقصود نہیں ہوتی۔
(5)
قسم تنظیم و توقیر کے لیے اٹھانا جائز نہیں ہے،
تاکید و مبالغہ کے لیے قسمیہ الفاظ کا استعمال درست ہے۔
(6)
وابيه یا وابيك،
یہ الفاظ بعض دفعہ حیرت و تعجب کا اظہار کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں،
قسم مقصود نہیں ہوتی،
قسم کے لیے ان کا استعمال ممنوع ہے،
بطور تعجب ممنوع نہیں ہے۔
(7)
آپ کے لیے جائز تھا،
امت کے لیے جائز نہیں ہے۔
(فتح الباری،
ج 11،
مکتبہ دارالسلام،
ص 650-651)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4254
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4257
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک قافلہ میں پایا، اور وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکار کر فرمایا: ”خبردار! اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتے ہیں کہ تم اپنے باپوں کی قسم اٹھاؤ، جس نے قسم اٹھانا ہو، وہ اللہ کی قسم اٹھائے یا چپ رہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4257]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کسی کی قسم اٹھانا،
درحقیقت اس کے تقدس اور تعظیم کا مظہر ہوتا ہے،
اور حقیقتا تقدس و تعظیم اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے،
لیکن بقول بعض قسم کے اندر شہادت اور گواہی کا معنی موجود ہے،
اور ایسی ذات جس کا ہر جگہ ہر وقت اور ہر موقع پر گواہ ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے،
وہ صرف اللہ کی ذات ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ کے غیر کی قسم اٹھانا،
اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ غیراللہ کو ہر جگہ،
ہر موقع پر اور ہر وقت گواہ سمجھتا ہے،
اور یہ شرک اور کفر ہے۔
(علامہ سعیدی شرح صحیح مسلم،
ج 4،
ص 561)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو اپنی مخلوقات کی قسمیں اٹھائی ہیں،
ان سے مقصود ان کی تعظیم و تقدیس نہیں ہے،
بلکہ قسم کے بعد جو دعویٰ مذکور ہوا ہے،
وہ چیز اس دعویٰ کی دلیل اور شہادت دیتی ہے،
اس موضوع پر بہترین رسالہ مولانا حمید الدین فراہی مرحوم کا ہے،
جن کا نام ہے،
الامعان في اقسام القرآن ہے،
جس کا ترجمہ اقسام القرآن کے نام سے ہوا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قسم صرف اللہ تعالیٰ کی اٹھائی جا سکتی ہے،
لیکن اللہ کی قسم میں،
اس کی ذات،
اسماء اور صفات داخل ہیں،
اور غیراللہ کی قسم اٹھانا بالاتفاق ناجائز ہے،
لیکن اس میں اختلاف موجود ہے،
کہ وہ مخالفت کا حکم تحریم کے لیے ہے یا کراہت کے لئے،
علامہ شامی حنفی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے سوا قسم منعقد نہیں ہوتی،
غیراللہ کی قسم بطریق صراحۃ ہو یا کنایۃ ہو،
حرام ہے،
بلکہ اس میں کفر کا خدشہ ہے۔
(ردالمختار،
ج 3،
ص 70۔
مطبعہ عثمانیہ استانبول)
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں،
اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے سوا قسم اٹھانا جائز نہیں ہے،
مثلا اپنے باپ کی یا کعبہ کی یا کسی صحابی اور امام کی قسم اٹھانا۔
(مغنی،
ج 3،
ص 36،
دکتور ترکی)
قرآن مجید،
اللہ کا کلام اور اس کی صفت ہے،
اس لیے قرآن یا اس کی کسی آیت کی قسم اٹھانا صحیح ہے،
حنث کی صورت میں کفارہ ادا کرنا ہو گا،
ائمہ حجاز مالک،
شافعی،
اور احمد کا یہی موقف ہے،
اور عام اہل علم بھی اس کے قائل ہیں۔
(مغنی،
ج 13،
ص 460)
امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ قسم نہیں ہے،
کیونکہ وہ الفاظ قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتے،
لیکن موجودہ دور میں بعض احناف اس کو قسم قرار دیتے ہیں۔
(تکملہ،
ج 2،
ص 180)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4257
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4259
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم اٹھانی ہو، وہ صرف اللہ کی قسم اٹھائے“ اور قریش اپنے باپوں کی قسم اٹھاتے تھے، تو آپﷺ نے فرمایا: ”تم اپنے باپوں کی قسم نہ اٹھاؤ۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4259]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
غیراللہ کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے،
اور باپوں کی قسم اٹھانے کی خصوصی طور پر بھی ممانعت اس بنا پر ہے،
کہ قریش عام طور پر اپنے باپوں کی قسم اٹھاتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4259
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6646
6646. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو پایا جبکہ وہ ایک قافلے کے ساتھ چل رہے تھے اور اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آگاہ رہو! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا جو کوئی قسم کھائے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی کھائے یا پھر خاموش رہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6646]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر بن خطاب امیرالمؤمنین کالقب فاروق اورکنیت ابوحفص ہے۔
نسبتا وہ عدوی قریشی ہیں۔
انہوں نے 6 نبوی میں اسلام قبول کیا اور بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ نبوت کے پانچویں سال اسلام قبول کیا جب کہ چالیس مر د اور گیارہ عورتیں مسلمان ہو چکی تھیں اورکچھ لوگوں نےلکھا ہےکہ مردوں کی چالیس تعداد حضرت عمر کےاسلام لانے سے پوری ہوئی۔
ان کے اسلام لانے سے اسلام کو بڑا غلبہ نصیب ہوا۔
اسی واسطے ان کو فاروق کہا گیا۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر فاروق سےدریافت کی کہ آپ کا نام فاروق کب سے ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سےتین دن پہلے حضرت حمزہ ایمان لائے۔
اس کے بعد اللہ نے میرا سینہ کھول دیا تو میں نے اپنی زبان سے کہا ”اللہ ہی ہے، اس کےعلاوہ کوئی بھی بندگی کے لائق نہیں، اس کے نیک نام ہیں اور زمین میں کوئی ذات میرے نزدیک حضرت محمد ﷺ کی ذات سے زیادہ محبوب نہیں۔
حضرت عمر فرماتے ہیں پھر میں نےسوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ کہاں ہیں، تو میرے بہن نے جواب دیا کہ وہ ارقم کےمکان میں ہیں، تو میں نے ارقم کے مکان کے پاس گیا۔
جہاں حمزہ اور آپ کے اصحاب حویلی میں بیٹھے تھے اور حضورﷺ گھر میں تھے تو جب میں نے دستک دی تو لوگ نکلے، تو حضرت حمزہ نے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے تومیں نے جواب دیا کہ عمربن خطاب آیا ہے۔
تو آنخضرت ﷺ باہر تشریف لائے اور میرا دامن کھینچا اور پوچھا کہ تو باز آنے والا نہیں ہے۔
تومیں نے کلمہ پڑھا ''أشھد أن لا إله إلا اللہ وحدہ لاشریك له و أشھد أن محمداعبدہ و رسو له'' تو سب حویلی والوں نے اللہ اکبر کانعرہ بلند کیا جس کو مسجد والوں نے سن لیا۔
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں، زندہ رہیں یا مر جائیں۔
تو حضور ﷺ نے جواب دیا کہ اس ذات میں کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، بیشک تم دین حق پرہو۔
زندہ رہو یا مر جاؤ۔
تو میں نے کہا کہ ہم چھپ کر کیوں رہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آ پ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، ہم ضرور باہر نکلیں۔
چنانچہ ہم سے حضور ﷺ کو باہر نکلنے کے لیے کہا اور آپ کو دو صفوں میں لے لیا ایک صف میں اور دوسری صف میں حضرت حمزہ تھے۔
اسی طرح ہم مسجدوں میں پہنچے تو ہم لوگوں کو دیکھ کر قریش نے کہا کہ ابھی ایک غم ختم نہیں ہوا کہ دوسرا غم سامنے آ گیا۔
اسی دن سے اسلام کو غلبہ نصیب ہوا اور لوگ مجھ کو فاروق کہنے لگے۔
اس لیے میرے سبب سے اللہ نے حق کو باطل سےجدا کر دیا۔
داؤد بن حصین اور زہر ی فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر مسلمان ہوئے تو حضرت جبریل اترے اور حضو ر علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ حضرت عمر کے اسلام لانے سے آسمان والوں کو خوشی ہوئی۔
اورحضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں حضرت عمر کےعلم سےخوب واقف ہوں، اگر ان کاعلم ترازو کے ایک پلہ میں رکھا جائےاور تمام مخلوق کا دوسرا پلہ میں تو حضرت عمر کا پلہ بھاری ہو جائے اور انہوں نے کہا کہ جب حضرت عمر کی وفات ہوئی تو گویا وہ علم کا ایک بڑا حصہ لے کے گئے۔
حضرت عمر نبی کریم ﷺ کےساتھ تمام جنگوں میں حاضر رہے اور وہ سب سے پہلے خلیفہ ہیں جن کو امیراالمؤمنین کہا گیا۔
ان کی خلافت حضرت ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد ہی قائم ہوئی۔
اس لیے کہ صدیق اکبر نے انہیں کے نام کی وصیت کی تھی اور ان کو مغیرہ بن شعبہ کےغلام ابولولو نے بدھ کے روز شہید کیا۔
26ھ کو اور اتوار کے روز محرم کے عشرہ اولیٰ 24ھ میں دار آخرت کو تشریف لےگئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6646
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7401
7401. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں ںے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ۔ جو کوئی قسم اٹھانا چاہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7401]
حدیث حاشیہ:
ترمذی نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور حاکم نے کہا صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اللہ کے سوا اور کسی کی قسم کھائی اور اس نے شرک کیا۔
اس باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد احادیث لا کر یہ ثابت کیا کہ اسم مسمیٰ کا عین ہے اگر غیر ہوتا تو نہ اسم سے مدد لی جاتی نہ اسم پر ذبح کرنا جائز ہوتا نہ اسم پر کتا چھوڑا جاتا۔
علیٰ ھذا القیاس۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7401
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2679
2679. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص قسم اٹھائے تو صرف اللہ کے نام کی قسم اٹھائے یا پھر خاموش رہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2679]
حدیث حاشیہ:
اس میں اشارہ ہے کہ عدالت میں قسم وہی معتبر ہوگی جو اللہ کے نام پر کھائی جائے۔
غیراللہ کی قسم ناقابل اعتبار بلکہ گناہ ہوگی۔
دوسری روایت میں ہے جس نے غیراللہ کی قسم کھائی، اس نے شرک کیا۔
پس قسم سچی کھانی چاہئے اور وہ صرف اللہ کے نام پاک کی قسم ہو ورنہ خاموش رہنا بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2679
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6108
6108. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ایک قافلے میں پایا جبکہ وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں آواز دے کر فرمایا: ”خبردار! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا اگر کسی نے قسم کھانی ہو ہے وہ صرف کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6108]
حدیث حاشیہ:
دوسری حدیث میں آیا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا منع ہے اگر کسی کی زبان سے غیرا للہ کی قسم نکل گئی تو اسے کلمہ توحید پڑھ کر پھر ایمان کی تجدید کرنا چاہیئے اگر کوئی عمداً کسی پیر یا بت کی عظمت مثل عظمت الہٰی کے جان کر ان کے نام کی قسم کھائے گا تو وہ یقینا مشرک ہوجائے گا ایک حدیث میں جو افلح وابیہ ان صدق کے لفظ آئے ہیں۔
یہ حدیث پہلے کی ہے۔
لہٰذا یہاں قسم کا جواز منسوخ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6108
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2679
2679. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص قسم اٹھائے تو صرف اللہ کے نام کی قسم اٹھائے یا پھر خاموش رہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2679]
حدیث حاشیہ:
(1)
مقصد یہ ہے کہ قسم اٹھانے میں شدت اختیار کرنا واجب نہیں۔
ان احادیث میں صرف ''باللہ'' پر اکتفا کیا گیا ہے۔
کچھ ائمہ کا موقف ہے کہ اگر قاضی اسے مہتم کرے تو اپنی قسم میں شدت پیدا کرنے کے لیے مزید الفاظ بڑھائے جا سکتے ہیں۔
(2)
ہمارے رجحان کے مطابق صرف اللہ کے نام اور اس کی صفات پر اکتفا کیا جائے۔
اللہ کے نام کے سوا کسی دوسری چیز کی قسم اٹھانا نہ صرف ناقابل اعتبار ہے بلکہ گناہ ہے، جیسا کہ دیگر احادیث میں ہے:
”جس نے اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم اٹھائی اس نے شرک یا کفر کیا، اس لیے قسم صرف اللہ کے نام کی ہے بصورت دیگر اس کا خاموش رہنا بہتر ہے۔
'“ (جامع الترمذي، النذور و الأیمان، حدیث: 1535، و صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2679)
اگر غیر دانستہ طور پر غیراللہ کی قسم کھا بیٹھے تو امید ہے کہ گناہ نہیں ہو گا۔
اپنے باپ دادا، بزرگ، ولی، کعبہ، فرشتے یا کسی پیغمبر کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے، البتہ رب العالمین جس چیز کی چاہے قسم اٹھا سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2679
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3836
3836. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”خبردار! تم میں سے جو قسم اٹھانا چاہے اسے اللہ کے سوا کسی دوسرے کی قسم نہیں اٹھانی چاہئے۔“ قریش اپنے باپ دادا کی قسم اٹھاتے تھے، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھایا کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3836]
حدیث حاشیہ:
1۔
جس چیز کی قسم اٹھائی جائے قسم میں اس کی تعظیم مطلوب ہوتی ہے اور حقیقی عظمت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔
اس بنا پر غیر اللہ کی قسم اٹھا کر اس غیر کو اللہ تعالیٰ کے مشابہ نہیں کرنا چاہیے۔
2 دور جاہلیت میں لوگ اپنے باپ دادا کی قسم اٹھاتے تھے اور اس سے ان کی تعظیم بجا لانا مقصود تھا۔
شریعت نے اس سے منع کردیا کہ قسم صرف اللہ تعالیٰ کے نام یا اس کی صفات کی اٹھانی چاہیے۔
اس کے علاوہ نبی رسول، فرشتہ روح اور امانت وغیرہ کی قسم اٹھانا درست نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے غیر اللہ کی قسم کو اللہ کے ساتھ شرک اور کفر قراردیا ہے لہٰذا اس ے بچنا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3836
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6108
6108. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ایک قافلے میں پایا جبکہ وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں آواز دے کر فرمایا: ”خبردار! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا اگر کسی نے قسم کھانی ہو ہے وہ صرف کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6108]
حدیث حاشیہ:
(1)
غیراللہ کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
\'\'جس نے اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم اٹھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔
\'\'(مسند احمد: 2/125)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران سفر میں اپنے باپ کی قسم اٹھائی لیکن ان کا یہ اقدام لاعلمی کی وجہ سے تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاعلمی اور جہالت کے پیش نظر انہیں کافر یا مشرک قرار نہیں دیا اور نہ انہیں تجدید ایمان ہی کے متعلق کہا بلکہ ان کی لاعلمی دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔
(2)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص معقول تاویل یا جہالت کی وجہ سے کافرانہ کام کرتا ہے یا کفریہ بات کہتا ہے تو اسے معذور خیال کرتے ہوئے کافر نہیں کہا جائے گا۔
اس سلسلے میں ہم نے ایک مضمون \'\'امام بخاری اور فتنۂ تکفیر\'\' کے عنوان سے لکھا ہے جو ہماری تالیف \'\'مسئلۂ ایمان و کفر\'\' کے آخر میں مطبوع ہے، قارئین کرام اس کا ضرور مطالعہ کریں۔
واللہ المستعان w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6108
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7401
7401. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں ںے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ۔ جو کوئی قسم اٹھانا چاہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7401]
حدیث حاشیہ:
1۔
دور جاہلیت میں لوگ بکثرت اپنے باپ دادا کی قسم ا ٹھایا کرتے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ دادا کی قسم اٹھانے سے منع کر دیا کیونکہ جس کی قسم اٹھائی جائے، اس سے مقصود اس کی عظمت بجا لانا ہے اور عظمت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”صرف اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھایا کرو۔
“ حدیث میں اللہ تعالیٰ کے سواکسی دوسرے کی قسم کھانے کی سخت ممانعت ہے فرمان نبوی ہے:
”جس نے اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم کھائی اس نے اللہ کے ساتھ کفر یا شرک کیا۔
“ (مسنداحمد: 125/2)
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ کسی بات کی تاکید کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام یا اس کی کسی صفت کا حوالہ دینا شریعت میں مشروع اور جائز ہے۔
یہ صرف اللہ تعالیٰ کے نام یا اس کی صفت کے حوالے سے ہو سکتا ہے۔
گویا ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کو پکارنے کے باب سے ہے۔
اس حدیث میں ایک دوسرے انداز سے اللہ تعالیٰ کا نام پکارنے اور اس ذریعے سے اس کی عبادت کرنے کا ذکر ہے۔
قسم اٹھاتے وقت یہ آیت پیش نظر ہونی چاہیے:
”سب سے اچھے نام اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، لہذا تم اسے انھی ناموں سے پکارا کرو۔
“ (الأعراف: 180)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7401