صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} :
باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا ”اللہ تعالیٰ لغو قسموں پر تم کو نہیں پکڑے گا، البتہ ان قسموں پر پکڑے گا جنہیں تم پکے طور سے کھاؤ۔ پس اس کا کفارہ دس مسکینوں کو معمولی کھانا کھلانا ہے، اس اوسط کھانے کے مطابق جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ پس جو شخص یہ چیزیں نہ پائے تو اس کے لیے تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جس وقت تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے حکموں کو کھول کر بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم شکر کرو۔
حدیث نمبر: 6621
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمْ يَكُنْ يَحْنَثُ فِي يَمِينٍ قَطُّ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ كَفَّارَةَ الْيَمِينِ وَقَالَ لاَ أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتُ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلاَّ أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي.
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی اپنی قسم نہیں توڑتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قسم کا کفارہ اتارا۔ اس وقت انہوں نے کہا کہ اب اگر میں کوئی قسم کھاؤں گا اور اس کے سوا کوئی چیز بھلائی کی ہو گی تو میں وہی کام کروں گا جس میں بھلائی ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6621 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6621
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت کے مطابق اس حدیث کا آغاز اس طرح ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ لغو قسموں سے مراد ایسی قسمیں ہیں جو انسان تکیۂ کلام کے طور پر کہہ دیتا ہے، جیسے لا واللہ اور بلٰی واللہ۔
(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی لغو قسموں پر کوئی کفارہ نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے۔
جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی تو تہمت لگانے والوں میں حضرت مسطح بھی شامل تھے جن کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کفالت کرتے تھے۔
انہوں نے غیرت میں آ کر قسم اٹھائی کہ وہ آئندہ اس پر کچھ بھی خرچ نہیں کریں گے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری:
”اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے لوگوں کو اس بات پر قسم نہیں کھانی چاہیے کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو (اپنا مال نہیں)
دیں گے، انہیں چاہیے کہ وہ انہیں معاف کر دیں اور ان سے درگزر کریں کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے؟“ (النور: 22/24)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فوراً اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور پہلے سے بھی زیادہ ان کی مدد کرنے لگے۔
(فتح الباري: 631/11)
شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں یمین لغو کی وضاحت ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6621