صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
31. بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الْفَجْرِ فِي جَمَاعَةٍ:
باب: فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 650
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ، تَقُولُ:" دَخَلَ عَلَيَّ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَهُوَ مُغْضَبٌ، فَقُلْتُ: مَا أَغْضَبَكَ؟ فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَعْرِفُ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ جَمِيعًا".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سالم سے سنا۔ کہا کہ میں نے ام الدرداء سے سنا، آپ نے فرمایا کہ (ایک مرتبہ) ابودرداء آئے، بڑے ہی خفا ہو رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہوئی، جس نے آپ کو غضبناک بنا دیا۔ فرمایا: اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی کوئی بات اب میں نہیں پاتا۔ سوا اس کے کہ جماعت کے ساتھ یہ لوگ نماز پڑھ لیتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 650 کے فوائد و مسائل
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 650
فوائد:
➊ پچھلے باب میں جماعت کی فضیلت کا ذکر تھا، اس باب میں خصوصاََ فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس میں رات اور دن کے فرشتے جو انسان کی حفاظت پر مقرر ہیں یا اس کے اعمال لکھنے پر مامور ہیں جمع ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے صبح (اور عصر) کی نماز دوسری نمازوں پر فضیلت رکھتی ہے۔
➋ ابو درداء رضی اللہ عنہ اس زمانے میں جو بعد کے سب زمانوں سے بہتر زمانہ تھا، یہ کہہ رہے ہیں کہ صرف جماعت باقی ہے، تو ہمارے زمانے کا کیا حال ہو گا۔ افسوس! ہمارے زمانے میں لوگوں نے جماعت کا خیال بھی چھوڑ دیا۔ پانچوں وقت مسجد میں آنا اور جماعت سے نماز پڑھنا تو بڑی بات ہے آٹھویں دن جمعہ کو بھی مسجد میں نہیں آتے۔ اس پر اسلام کا دعویٰ اور مسلمانوں کے خیر خواہ بننے کا جوش، یہ عجب تماشا ہے۔ [تيسير الباري]
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 650
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:650
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ اس میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لینے کا ذکر ہے اس میں نماز فجر بھی آجاتی ہے۔
امام بخاری ؒ کے اسلوب سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک اتنی سی مطابقت ہی کافی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن المنیر کے حوالے سے اس مطابقت کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے علاوہ اور کسی شارح نے مناسبت عنوان کی طرف توجہ نہیں دلائی۔
(فتح الباري: 180/2) (2)
اس حدیث میں ام درداء ؓ سے مراد تابعیہ ہیں جن کا نام ہجیمہ ہے۔
ام درداء کبریٰ مراد نہیں جو صحابیہ ہیں اور کبریٰ کے لقب سے مشہور ہیں جن کا نام خیرہ ہے کیونکہ ام درداء کبریٰ حضرت ابو درداء ؓ کی زندگی ہی میں وفات پا چکی تھیں، اور سالم ابن ابی الجعد کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔
ان کے بعد حضرت ابو درداء ؓ نے دوسری بیوی سے نکاح کیا جنھوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 179/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 650