صحيح البخاري
كِتَاب الْقَدَرِ
کتاب: تقدیر کے بیان میں
6. بَابُ إِلْقَاءِ النَّذْرِ الْعَبْدَ إِلَى الْقَدَرِ:
باب: نذر کرنے سے تقدیر نہیں پلٹ سکتی۔
حدیث نمبر: 6608
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّذْرِ، وَقَالَ:" إِنَّهُ لَا يَرُدُّ شَيْئًا، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے عبداللہ بن مرہ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ نذر کسی چیز کو نہیں لوٹاتی، نذر صرف بخیل کے دل سے پیسہ نکالتی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6608 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6608
حدیث حاشیہ:
یوں تو اس کے دل سے پیسہ نکلتا نہیں جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو نذر مانتا ہے اور اتفاق سے اس کا مطلب پورا ہو گیا تو اب پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے جھک مار کر اس وقت خرچ کرنا پڑتا ہے الغرض سارے معاملات تقدیر ہی کے تحت انجام پاتے ہیں۔
یہی ثابت کرنا حضرت امام قدس سرہ کا مقصد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6608
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6693
´منت، نذر پوری کرنا واجب ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،" نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّذْرِ، وَقَالَ: إِنَّهُ لَا يَرُدُّ شَيْئًا، وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ . . .»
”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر سے منع فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ وہ کسی چیز کو واپس نہیں کر سکتی، البتہ اس کے ذریعہ بخیل کا مال نکالا جا سکتا ہے۔“ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 6693]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6693باب: «بَابُ الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب نذر اور منت کے پورے کرنے پر قائم ہے کہ اسے پورا کرنا واجب ہے، تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے تین احادیث کا ذکر فرمایا، تینوں حدیثوں کا مفہوم آپس میں ملتا جلتا ہے، مگر احادیث میں نذر کے واجب ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، لہذا باب سے حدیث کی مناسبت کس طرح سے ممکن ہے؟
ابن المنیر رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«موضع الاستشهاد قوله: ”يستخرج به من البخيل“ (و انما يخرج البخيل) ما يجب عليه، لا ما هو مبتدع به، و إلا كان جودًا.» (1)
”یعنی احادیث باب کی وفاء بالنذر کے ترجمہ کے ساتھ مناسبت اس قول: «يستخرج به من البخيل» کے الفاظ کے ساتھ ہے کہ بخیل وہی اپنا مال نکالتا ہے جو اس پر متعین ہو جائے کہ اگر از راہ تبرع خرچ کرے تو پھر بخیل کیوں کہلائے۔“
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”حدیث کی ترجمۃ الباب سے مطابقت اس قول سے ہے کہ «يستخرج، لأن البخيل لا يستخرج منه» یعنی بخیل کا ادا کرنا اور وفا کا پورا کرنا واجب ہے، اور اگر وہ بغیر واجب ہونے کے خرچ کرے تو پھر بخیل کیوں کہلائے۔“
یعنی بخیل جب اپنی نذر کو پورا کرے گا - حالانکہ اس پر وہ شاق ہی کیوں نہ گزرے - اور اسے اپنا متعین مال نکالنا پڑتا ہے، لہذا اس اعتبار سے مشقت سے مال نکالنا نذر کے پورا کرنے کی وجوب کی دلیل ہے۔ یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت قائم ہوتی ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 241
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1180
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا کہ ” نذر سے کوئی خیر و بھلائی حاصل نہیں ہوتی صرف بخیل کا مال اس طریقہ سے نکال لیا جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1180»
تخریج: «أخرجه البخاري، القدر، باب إلقاء العبد النذرإلي القدر، حديث:6608، ومسلم، النذر، باب النهي عن النذر...، حديث:1639..»
تشریح:
1. نذر سے منع کرنے کا مقصد دراصل افضل کام کی طرف رہنمائی کرنا اور یہ بتانا ہے کہ صدقہ و خیرات وغیرہ کو مطلوب کے حصول سے معلق کرنا کسی صاحب عظمت و مروت کے شایان شان نہیں ہے۔
2. یہ عمل تو ایسا بخیل آدمی کرتا ہے جو کبھی خرچ نہیں کرتا۔
اگر کرتا ہے تو اس کے عوض افضل چیز کی خواہش کرتا ہے اور یہ اقدام ایسا شخص کرتا ہے جس کا دل صدقہ و خیرات پر آمادہ نہیں ہوتا الا یہ کہ جب اس کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے اور حالات تنگ ہو جاتے ہیں تو حالات کی درستی کے لیے صدقہ و خیرات کی نذر مانتا ہے۔
جب یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے تب صدقہ کرتا ہے ورنہ نہیں‘ مثلاً: وہ کہتا ہے کہ اگر اللہ نے مجھے میرے مرض سے شفا بخش دی یا میرے مریض کو صحت و تندرستی سے نواز دیا تو میں اتنا مال راہ الٰہی میں خرچ کروں گا۔
اور وہ مال تب خرچ کرتا ہے جب اسے اس مرض سے صحت و تندرستی مل جاتی ہے جبکہ خرچ کرتے وقت بھی دل کی گھٹن موجود ہوتی ہے‘ لہٰذا نذر سے منع اس لیے کیا گیا ہے کہ اس میں ایسا گھٹیا پن ہے جو کسی سے مخفی نہیں ہے۔
3. علاوہ ازیں نذر ماننے والا گویا یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اسے نذر ماننے کی صورت میں وہ چیز حاصل ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں نہیں رکھا۔
ہاں‘ اگر نذر ماننے والے کا یہ اعتقاد نہ ہو تو نذر ماننے کی اجازت ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1180
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3832
´نذر کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر (ماننے) سے منع کیا اور فرمایا: ”اس سے کوئی بھلائی حاصل نہیں ہوتی، البتہ اس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3832]
اردو حاشہ:
جائز نذر ماننا گناہ کبیرہ اور مصییت تو نہیں مگر مستحب چیز بھی نہیں کیونکہ اس میں صدقے اور نیکی کو مشروط کیا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر میں صحت یاب ہوگیا تو پھر نیکی یا صدقہ کروں گا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ سے شرطیں لگانا اچھی بات نہیں لیکن نفل نیکی یا صدقے کے لیے شرط لگانا منع بھی نہیں‘ لہٰذا اسے مستحسن قرار نہیں دیا گیا مگر پورا کرنا بھی ضروری قراردیا گیا ہے۔ نذر کی بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ازخود بغیر کسی شرط کے صدقہ یا نیکی کرکے اپنی حاجت کے لیے دعا مانگے کیونکہ دعا تو تقدیر کو بھی بدل سکتی ہے مگر نذر سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سخی آدمی صدقہ کرنے میں جلدی کرتا ہے اور بغیر عوض کے صدقہ کرتا ہے جبکہ بخیل شخص ویسے صدقہ نہیں کرتا بلکہ کسی چیز کے عوض میں صدقہ کرتا ہے‘ اس لیے نذر مان کر اسے چار و ناچار صدقہ کرنا پڑتا ہے۔ اشارتاً معلوم ہوا کہ نذر ماننا کنجوس اور بخیل شخص کا کام ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی اچھی مثال نہیں۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ نذر ماننے سے اس لیے روکا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے بعد میں پوری نہ ہوسکے۔ گویا دراصل یہ نذر پوری کرنے کی تاکید ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3832
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3287
´نذر کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نذر سے منع فرماتے تھے، اور فرماتے تھے کہ نذر تقدیر کے فیصلے کو کچھ بھی نہیں ٹالتی سوائے اس کے کہ اس سے بخیل (کی جیب) سے کچھ نکال لیا جاتا ہے۔ مسدد کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر کسی چیز کو ٹالتی نہیں ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3287]
فوائد ومسائل:
یہ ممانعت اور ناپسندیدگی اس قسم کی نذر سے ہے۔
کہ آدمی یہ کہے اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو اتنا مال صدقہ کروں گا۔
کیونکہ ہوتا تو وہی ہے جو مقدر ہے، مگر اس سے یہ ہوتا ہے کہ جو آدمی عام حالات میں اللہ کی رضا کےلئے خرچ نہیں کرتا وہ کسی مشکل میں پڑ کرخرچ کردیتا ہے۔
الغرض اللہ کی راہ میں مال خر چ کرنے کو اپنی مطلب بر آری کے ساتھ مشروط ٹھرانا پسند نہیں کیا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3287
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4237
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ہمیں نذر سے روکنے لگے، آپﷺ کہہ رہے تھے، ”وہ کسی چیز کو ٹالتی نہیں ہے، اس کے ذریعہ تو بس بخیلوں اور کنجوسوں سے مال نکلوایا جاتا ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4237]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث کا مقصد اس نذر سے روکنا ہے،
جو مشروط ہوتی ہے،
جسے نذر معلق کہتے ہیں،
مثلاً کوئی کہے،
اگر اللہ نے ہمارے مریض کو شفا بخشی تو ہم بکرا صدقہ کریں گے،
یا یوں عقیدہ رکھے کہ نذر سے مصیبت ٹل سکتی ہے،
اور یہ تقدیر الٰہی پر اثر انداز ہوتی ہے،
اس لیے آپﷺ نے فرمایا:
”یہ کسی تقدیر کو نہیں ٹالتی،
بلکہ اس کے ذریعہ کنجوس سے کچھ نکلوایا جاتا ہے۔
“
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4237
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6692
6692. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کیا لوگوں کو نذر سے منع کیا گیا؟ بلاشبہ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”نذر کسی چیز کو آگے پیچھے نہیں کرسکتی اس کے ذریعے سے تو صرف بخیل سے مال نکالا جاتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6692]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک واقعے کے پس منظر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی تھی۔
وہ واقعہ امام حاکم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، سعید بن حارث کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا جبکہ ان کے ہاں عمرو بن کعب کا بیٹا مسعود بن عمرو آیا اور کہنے لگا:
ابو عبدالرحمٰن! میرا بیٹا عمر بن عبیداللہ کے ہمراہ ایران کی سرزمین میں ہے اور وہاں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔
میں نے نذر مانی ہے کہ اگر میرا بیٹا صحیح سالم واپس آ گیا تو میں پیدل بیت اللہ کا سفر کروں گا۔
وہ بیماری کی حالت میں ہمارے پاس آیا، کچھ دن زندہ رہا پھر فوت ہو گیا، اب آپ کا اس نذر کے متعلق کیا خیال ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت مذکورہ حدیث بیان کی۔
(عمدة القاري: 737/15) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے کہ بہترین نذر یہ ہے کہ انسان کسی قسم کی شرط کے بغیر کسی عبادت کو خود پر لازم کر لے جیسا کہ انسان کسی مرض سے شفایاب ہو تو کہے کہ میں شکریے کے طور پر روزے رکھوں گا۔
اس امر کی اللہ تعالیٰ کے لیے نذر مانے۔
اس کے برعکس اگر کوئی اپنے غلام کو خود پر بوجھ خیال کرتا ہے اور اس کے آزاد کرنے کے لیے نذر مان لیتا ہے تاکہ اس سے نجات مل جائے تو اس قسم کی نذر اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے نہیں ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 702/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6692