Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْقَدَرِ
کتاب: تقدیر کے بیان میں
4. بَابُ: {وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا} :
باب: اور اللہ نے جو حکم دیا ہے (تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا ہے) وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
حدیث نمبر: 6602
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَهُ رَسُولُ إِحْدَى بَنَاتِهِ، وَعِنْدَهُ سَعْدٌ، وأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، ومُعَاذٌ: أَنَّ ابْنَهَا يَجُودُ بِنَفْسِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا:" لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلِلَّهِ مَا أَعْطَى كُلٌّ بِأَجَلٍ، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے عاصم نے، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے اسامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سے ایک کا بلاوا آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سعد، ابی بن کعب اور معاذ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ بلانے والے نے آ کر کہا کہ ان کا بچہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ) نزع کی حالت میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلا بھیجا کہ اللہ ہی کا ہے جو وہ لیتا ہے، اس لیے وہ صبر کریں اور اللہ سے اجر کی امید رکھیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6602 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6602  
حدیث حاشیہ:
یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو اس لیے لائے ہیں کہ اس سے ہر چیز کی مدت مقرر ہونا اور ہر کام کا اپنے وقت پر ضرور ظاہر ہونا نکلتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6602   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6602  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز ایک معین وقت سے وابستہ ہے اور اس کے یہاں رہنے کا ایک وقت مقرر ہے۔
وقتِ مقرر آنے پر ہر کام ضرور ہو جاتا ہے۔
انسانوں کا بھی یہی معاملہ ہے کہ جب ان کے دنیا سے جانے کا وقت آ جاتا ہے تو ایک لمحے کا آگا پیچھا نہیں ہوتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ہر گروہ کے لیے ایک مدت مقرر ہے۔
وہ مدت پوری ہو جاتی ہے تو پھر لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔
(الأعراف: 34/7)
حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب اپنے بیٹوں کو مصر روانہ کیا تو نظربد سے تحفظ کے لیے فرمایا:
بیٹو! ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے اندر جانا۔
(یوسف 67/12) (2)
ایک طرف انہوں نے نطربد سے بچنے کے لیے تدبیر بتائی تو دوسری طرف تقدیر کے مؤثر ہونے سے آگاہ فرمایا:
میری یہ تدبیر عالم اسباب کی ایک تسلی ہے لیکن جو مقدر ہو چکا ہے میں اسے نہیں ٹال سکتا ہوں، وہ بہرصورت ہو کر رہے گا۔
کہتے ہیں:
تدبیر کند بندہ تقدیر کند خندہ، یعنی انسان کی کوشش سے تقدیر نہیں بدلتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6602   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1869  
´مصیبت آنے پر صبر کرنے اور اللہ سے ثواب چاہنے کے حکم کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کہلا بھیجا کہ میرا بیٹا ۱؎ مرنے کو ہے آپ آ جائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلا بھیجا کہ آپ سلام کہتے ہیں، اور کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو (کچھ) لے، اور اسی کے لیے ہے جو (کچھ) دے، اور اللہ کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، تو چاہیئے کہ تم صبر کرو، اور اللہ سے اجر طلب کرو، بیٹی نے (دوبارہ) قسم دے کے کہلا بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور آ جائیں، چنانچہ آپ اٹھے، آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور کچھ اور لوگ تھے، (بچہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر اس حال میں لایا گیا کہ اس کی سانس ٹوٹ رہی تھی، تو آپ کی آنکھوں (سے) آنسو بہ پڑے، اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ رکھا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1869]
1869۔ اردو حاشیہ:
صبر سے مراد شریعت کے حکم کا پابند رہنا ہے، نہ یہ کہ افسوس نہ کرے یا آنسو نہ بہائے، یہ تو فطری چیزیں ہیں جو ممنوع یا ناپسندیدہ نہیں۔
➋ بات کو پختہ کرنے کے لیے یا کسی سے مطالبہ منوانے کے لیے قسم ڈال دینا درست ہے۔
➌ اگر کوئی اس طرح قسم ڈال دے تو اس کی قسم کو پورا کرنا چاہیے۔
➍ پہلے سلام پھر کلام ہونا چاہیے۔
➎ مریض کی عیادت کرنی چاہیے، خواہ وہ اپنے سے کم تر ہی ہو یا چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس سے اس کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
➏ اہل فضل و صلاح کو مریض یا قریب الوفات شخص کے پاس دعا کے لیے دعوت دی جا سکتی ہے۔
➐ آدمی اپنے امام سے کوئی نئی چیز دیکھے تو وضاحت پوچھ سکتا ہے۔
➑ سوال میں حسن ادب ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔
➒ اللہ کی مخلوق کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔
➓ آہ و بکا کے بغیر رونا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1869   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7377  
7377. سیدنا اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے پاس تھے کہ اس دوران میں آپ کی ایک صاحبزادی کا قاصد حاضر خدمت ہوا کہ ان کا بیٹا نزع کی حالت میں ہے اور وہ آپ کو بلا رہی ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: واپس جا کر اسے کہو: اللہ ہی سب کچھ ہے جو چاہے لے لے اور جو چاہے دے دے اور اس کی بارگاہ میں ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے اسے کہو کہ صبر کرے اور اللہ کے ہاں ثواب کی امید رکھے۔ صاحبزادی نے دوبارہ قاصد بھیجا کہ وہ آپ کو قسم دیتی ہے آپ ضرور تشریف لائیں۔ تب نبی ﷺ اٹھے اور آپ کے ہمراہ سیدنا سعد بن عبادہ اور سیدنا معاذ بن جبل ؓم بھی کھڑے ہوئے۔ (پھر جب صاحبزادی کے گھر پہنچے تو) بچہ آپ کو دے دیا گیا۔ اس کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ گویا وہ پرانے مشکیزے میں ہے۔ یہ منطر دیکھ کر آپﷺ نےکہا: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپﷺ نےفرمایا: یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7377]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب یہیں سے نکلا کہ اللہ کے لیے صفت رحم کا اثبات ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7377   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6655  
6655. حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ کے پاس حضرت اسامہ بن زید، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابی بن کعب ؓ بھی تھے۔ (پیغام یہ تھا) کہ میرا بیٹا قریب الوفات ہے، آپ تشریف لائیں۔ آپ نے جواب میں پیغام بھیجا کہ میرا سلام کہو اور کہو: بے شک سب اللہ کے مال ہے جو اس نے لے لیا اور جو عنایت فرمایا۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک مقرر ہے، لہذا اسے چاہیئے کہ صبر کرے اور اللہ تعالٰی سے ثواب کی امید رکھے۔ صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ اسی وقت اٹھے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ تیار ہوئے، جب آپ وہاں جا کر بیٹھے تو بچہ اٹھا کر آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اسےاپنی آغوش میں بٹھایا جبکہ وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے تو حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6655]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں قسم دینے کا ذکر ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6655   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6655  
6655. حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ کے پاس حضرت اسامہ بن زید، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابی بن کعب ؓ بھی تھے۔ (پیغام یہ تھا) کہ میرا بیٹا قریب الوفات ہے، آپ تشریف لائیں۔ آپ نے جواب میں پیغام بھیجا کہ میرا سلام کہو اور کہو: بے شک سب اللہ کے مال ہے جو اس نے لے لیا اور جو عنایت فرمایا۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک مقرر ہے، لہذا اسے چاہیئے کہ صبر کرے اور اللہ تعالٰی سے ثواب کی امید رکھے۔ صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ اسی وقت اٹھے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ تیار ہوئے، جب آپ وہاں جا کر بیٹھے تو بچہ اٹھا کر آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اسےاپنی آغوش میں بٹھایا جبکہ وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے تو حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6655]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں حلف یا یمین کے بجائے لفظ قسم آیا ہے بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ صاجزادی آپ کو قسم دیتی تھیں کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1284) (2)
اس امر میں اختلاف ہے کہ أقسمت بالله یا صرف أقسمت کہنے سے قسم ہوتی ہے یا نہیں؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس طرح قسم ہو جاتی ہے اگرچہ اس کی نیت نہ ہو جبکہ اکثریت کا موقف ہے کہ جب قسم کی نیت ہو تو اس طرح قسم منعقد ہو جاتی ہے۔
اس حدیث سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ جب صاجزادی نے قسم کے الفاظ سے آپ کو گزارش کی تو آپ اسے پورا کرنے کے لیے فوراً چل پڑے کیونکہ قسم کو پورا کرنا ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 660/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6655   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7377  
7377. سیدنا اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے پاس تھے کہ اس دوران میں آپ کی ایک صاحبزادی کا قاصد حاضر خدمت ہوا کہ ان کا بیٹا نزع کی حالت میں ہے اور وہ آپ کو بلا رہی ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: واپس جا کر اسے کہو: اللہ ہی سب کچھ ہے جو چاہے لے لے اور جو چاہے دے دے اور اس کی بارگاہ میں ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے اسے کہو کہ صبر کرے اور اللہ کے ہاں ثواب کی امید رکھے۔ صاحبزادی نے دوبارہ قاصد بھیجا کہ وہ آپ کو قسم دیتی ہے آپ ضرور تشریف لائیں۔ تب نبی ﷺ اٹھے اور آپ کے ہمراہ سیدنا سعد بن عبادہ اور سیدنا معاذ بن جبل ؓم بھی کھڑے ہوئے۔ (پھر جب صاحبزادی کے گھر پہنچے تو) بچہ آپ کو دے دیا گیا۔ اس کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ گویا وہ پرانے مشکیزے میں ہے۔ یہ منطر دیکھ کر آپﷺ نےکہا: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپﷺ نےفرمایا: یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7377]
حدیث حاشیہ:

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بچے پر حالت نزع طاری تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھی۔
ممکن ہے کہ دوالگ الگ واقعات ہوں۔
(عمدة القاري: 580/16)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ان دونوں احادیث کو کتاب التوحید میں لانے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض صفات ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندوں میں مشترک ہیں۔
ان میں صرف لفظی اشتراک ہے۔
حقیقت کے اعتبار سے ان میں بہت فرق ہے۔
ان میں سے ایک صفتِ رحم ہے۔
اللہ تعالیٰ رحیم ہے اور بندے کے لیے بھی اس صفت کا اطلاق ہوا ہے جیسا کہ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
اس لفظی اشتراک کی وجہ سے ایسی صفات کا انکار نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے تشبیہ لازم آتی ہے بلکہ ایسی صفات کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ان صفات کو ثابت کیا جائے اور بندوں کی حالت کے مطابق بندوں کے لیے انھیں برقرار رکھا جائے۔
اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی صفات "حسنیٰ" ہیں اور ہر اعتبار سے کامل ہیں جبکہ بندے کی صفات حسنیٰ نہیں ہیں اور نہ کامل ہی ہیں بلکہ ان میں نقص اور عجز پایا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات کے ساتھ حسنیٰ کی صفت ہے جوقرآن مجید میں متعدد مقام پر بیان ہوئی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی صفات میں کوئی عیب یا نقص نہیں ہے انھیں اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ثابت کیا جائے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 75/1)

دراصل اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ثبوتیہ دوقسموں پر مشتمل ہیں:
۔
صفات ذاتیہ:
۔
اس سے اللہ تعالیٰ کی وہ صفات مراد ہیں جن سے وہ ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے متصف ہے، جیسے صفت سمع اور بصر وغیرہ۔
۔
صفات فعلیہ:
۔
اس سے مراد وہ صفات ہیں جن کا صدور اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔
وہ چاہے تو اسے انجام دے اور چاہے تو نہ دے جیسا کہ صفت استواء علی العرش وغیرہ۔
بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت ذاتی اور فعلی دونوں طرح سے ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے صفت کلام کے ساتھ متصف ہے اور ہمیشہ رہے گا، اگر کلام کرنے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو صفت فعلی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا اس کی مشیت پر موقوف ہے، چنانچہ وہ جب چاہے اور جو چاہے کلام فرماتا ہے۔
اس کی صفات فعلیہ دو طرح سے ہیں:
ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں اور دوسری وہ جوبندوں میں بھی پائی جاتی ہیں، مگر ان کی حقیقت وکیفیت میں بڑا فرق ہے جیسا کہ صفت رحم ہے۔
بندے کی یہ صفت ناقص ہے وہ اپنی تکمیل میں اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحم میں کوئی نقص نہیں بلکہ وہ کامل واکمل ہے۔
اور نہ کسی کی محتاج ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع وبصیر ہے۔
(الشوریٰ 11/42)
مماثلت کی نفی کے ساتھ صفت سمع اور بصر کو اپنے لیے ثابت کیا ہے، حالانکہ سمیع اور بصیر بندے کے لیے بھی بولا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ہم نے انسان کو سمیع اوربصیر بنایا ہے۔
(الدھر 2/76)
لیکن انسان کا سمیع اور بصیر ہونا ذرائع اور وسائل کا محتاج ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر ہے جوکسی ذریعے اور وسیلے کا محتاج نہیں، یہ اشتراک محض لفظی ہے حقیقی نہیں۔
واللہ أعلم۔

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے علامہ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف"القواعد المثلی فی الاسماء والصفات" کا مطالعہ مفید رہے گا جس کا اردوترجمہ توحید اسماء وصفات کے نام سے بازار میں دستیاب ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7377