صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
51. بَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ:
باب: جنت و جہنم کا بیان۔
حدیث نمبر: 6570
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ:" لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ، لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ: مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کون حاصل کرے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! میرا بھی خیال تھا کہ یہ حدیث تم سے پہلے اور کوئی مجھ سے نہیں پوچھے گا، کیونکہ حدیث کے لینے کے لیے میں تمہاری بہت زیادہ حرص دیکھا کرتا ہوں۔ قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی جس نے کلمہ «لا إله إلا الله» خلوص دل سے کہا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6570 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6570
حدیث حاشیہ:
خلوص دل سے کہا اور عملی جامہ پہنایا کہ ساری عمر توحید پر قائم رہا اور شرک کی ہوا بھی نہ لگی۔
یقینا اسے شفاعت حاصل ہوگی اور توحید کی برکت سے اور عملی تگ و دو سے اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
یہ سعادت اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6570
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6570
حدیث حاشیہ:
(1)
کلمۂ توحید خلوص دل سے پڑھا، پھر اس کے تقاضے کے مطابق عمل کیا۔
ساری عمر اس پر قائم رہا، کفر و شرک کی ہوا تک نہ لگنے دی تو یقیناً ایسے شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش حاصل ہو گی۔
توحید کی برکت اور عملی تگ و دو، محنت اور کوشش سے اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔
(2)
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ سوال اس وقت کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل حدیث بیان کی:
”ہر نبی کے لیے ایک دعا مستجاب (یقینی طور پر قبول ہونے والی)
تھی جو اس نے دنیا میں کر لی لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنی دعا آخرت میں اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ رکھوں۔
“ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6304)
ایک روایت میں ہے کہ میری شفاعت کا حق دار وہ شخص ہو گا جس نے اخلاص کے ساتھ لا إله إلا اللہ کی گواہی دی۔
اس کے دل نے زبان اور زبان نے اس کے دل کی تصدیق کی۔
(مسند أحمد: 307/2)
پھر سفارش کی سعادت حاصل کرنے والوں کے مختلف مراتب ہوں گے جیسا کہ لفظ اسعد سے معلوم ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 539/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6570
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 99
´اہل حدیث کی فضیلت`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ أَوْ نَفْسِهِ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے «لا إله إلا الله» کہے گا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 99]
� تشریح:
حدیث شریف کا علم حاصل کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تحسین فرمائی۔ اسی سے اہل حدیث کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ دل سے کہنے کا مطلب یہ کہ شرک سے بچے، کیونکہ جو شرک سے نہ بچا وہ دل سے اس کلمہ کا قائل نہیں ہے اگرچہ زبان سے اسے پڑھتا ہو۔ جیسا کہ آج کل بہت سے قبروں کے پجاری نام نہاد مسلمانوں کا حال ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 99
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:99
99. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی سفارش سے کون زیادہ حصہ پائے گا؟ تو آپ نے فرمایا: ”ابوہریرہ! مجھے یقین تھا کہ تجھ سے پہلے کوئی مجھ سے یہ بات نہیں پوچھے گا، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تجھے حدیث کی بڑی حرص ہے۔ قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ بہرہ ور وہ شخص ہو گا جس نے اپنے دل یا خلوص نیت سے لا إله إلا الله کہا ہو گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:99]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے مطلق علم کی ترغیب کے متعلق بیان کیا تھا اب علم حدیث کی فضیلت کے متعلق حدیث لائے ہیں۔
حدیث لغوی طور پر نئی چیز کو کہتے ہیں قرآن کریم چونکہ قدیم ہے اس کے مقابلے میں حدیث نئی چیز ہے محدثین کی اصطلاح میں حدیث کی تعریف یہ ہے۔
ہر وہ قول و فعل اور اقرار واخلاق جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم حدیث سے خصوصی شغف تھا۔
خود فرماتے ہیں کہ میرے انصاری بھائی کھیتی باڑی میں مصروف رہتے اور مہاجرین اپنے کاروبار میں مشغول رہتے اور میں ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا، مبادا آپ کی کوئی بات یا ادارہ جائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسیان کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر بچھائی اس پر کچھ پڑھا پھر فرمایا:
”ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے اپنے سینے سے لگالو۔
“ جس سے ان کا سینہ گنجینہ احادیث بن گیا۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 119)
2۔
قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش مختلف اندازسے ہوگی۔
1۔
ترقی درجات و رفع منازل کی سفارش۔
2۔
بلا حساب و کتاب دخول جنت کی سفارش۔
3۔
عذاب جہنم سے تخفیف کی سفارش۔
4۔
دوزخ سے بعض اہل ایمان کو نکالنے کی سفارش 5۔
مستحق نار کو عذاب سے نجات کی سفارش۔
6۔
محشر کی ہولنا کی سے نجات کی سفارش 3۔
دل سے کلمہ اخلاص کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، کیونکہ جو شخص شرک کرتا ہے اس کا محض زبانی دعوی ہے، دل سے اس کا اقرار نہیں کرتا، ان میں سفارش کا زیادہ حقدار وہ ہوگا جس نے اخلاص کے ساتھ کلمہ پڑھا ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 99