صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
50. بَابُ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ:
باب: جنت میں ستر ہزار آدمی بلاحساب داخل ہوں گے۔
حدیث نمبر: 6545
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُقَالُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، خُلُودٌ لَا مَوْتَ، وَلِأَهْلِ النَّارِ: يَا أَهْلَ النَّارِ، خُلُودٌ لَا مَوْتَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اہل جنت سے کہا جائے گا کہ اے اہل جنت! ہمیشہ (تمہیں یہیں) رہنا ہے، تمہیں موت نہیں آئے گی اور اہل دوزخ سے کہا جائے گا کہ اے دوزخ والو! ہمیشہ (تم کو یہیں) رہنا ہے، تم کو موت نہیں آئے گی۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6545 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6545
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب اہل جنت، جنت میں اور اہل جہنم، جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو ان کے درمیان لا کر ذبح کر دیا جائے گا، پھر مذکورہ اعلان کیا جائے گا تاکہ اہل جنت کو انتہائی فرحت اور اہل جہنم کو انتہائی غم ہو۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6548) (2)
ان احادیث کو اس عنوان کے تحت ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو انسان بھی جنت میں داخل ہو گا وہ چند دن کا مہمان نہیں بلکہ اس میں ہمیشہ رہے گا، البتہ اس میں پہلے پہلے بلا حساب کتاب داخل ہونے والوں کو ایک اضافی برتری حاصل ہو گی کہ انہیں حساب کتاب کے سخت کمر توڑ مرحلے سے نہیں گزرنا پڑے گا۔
(فتح الباري: 504/11)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6545
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4327
´جہنم کے احوال و صفات کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن موت کو لایا جائے گا، اور پل صراط پر کھڑا کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: اے جنت والو! تو وہ خوف زدہ اور ڈرے ہوئے اوپر چڑھیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو ان کے مقام سے نکال دیا جائے، پھر پکارا جائے گا: اے جہنم والو! تو وہ خوش خوش اوپر آئیں گے کہ وہ اپنے مقام سے نکالے جا رہے ہیں، پھر کہا جائے گا: کیا تم اس کو جانتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں، یہ موت ہے، فرمایا: پھر حکم ہو گا تو وہ پل صراط پر ذبح کر دی جائے گی، پھر دونوں گروہوں سے کہا جائے گا: اب دونوں گروہ اپنے اپن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4327]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
موت ایک وجودی چیز ہے جو قیامت کے دن ایک محسوس شکل میں سامنے آئے گی۔
(2)
موت کو محسوس شکل میں ظاہر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو موت کے ختم ہوجانے میں کوئی شک نہ رہے۔
(3)
موت کا ذبح ہوجانا اھل جنت کے لیے مزید خوشی کا باعث ہو گا۔
اور اہل جہنم کے لیے مزید غم کا باعث ہوگا۔
(4)
یہ اعلان اس وقت کیا جائے گا جب شفاعت کی وجہ سے نجات پانے والے جنت میں جا چکیں گے اور جہنم میں صرف وہی باقی رہ جائیں گے جن کے لیے خلود کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4327