حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَخْطُبُ فَقَالَ:" إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ سورة الأنبياء آية 104 الْآيَةَ، وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ، وَإِنَّهُ سَيُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ يَا رَبِّ: أَصْحَابِي، فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ إِلَى قَوْلِهِ: الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 117 - 118، قَالَ: فَيُقَالُ: إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6526
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں مرتدین لوگ مراد ہیں جن سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جہاد کے لیے کمر باندھی تھی اور وہ لوگ بھی مردا ہیں جنہوں نے اسلام میں بدعات کا طومار بپا کر کے دین حق کا حلیہ بگاڑ دیا۔
آج کل قبروں اور بزرگوں کے مزارات پر ایسے لوگ بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں جن کے لیے کہا گیا ہے۔
شکوہ جفائے وفا نما جو حرم کو اہل حرم سے ہے اگر بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہریحضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ! میں جب تک ان میں موجود رہا اس وقت تک میں ان پر گواہ تھا۔
پھر جب کہ تونے خود مجھے لے لیا پھر تو تو ہی ان پر نگہبان تھا اور تو تو ہر چیز سے پورا باخبر ہے اگر تو انہیں سزا دے تو یہ تیرے غلام ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو زبردست غلبے والا اور حکمت والا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6526
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6526
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں مرتدین کا ذکر ہے، جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا جیسا کہ ایک روایت میں حضرت قبیصہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3447)
یا اس سے دیہاتیوں کی وہ جماعت مراد ہے جو ابھی تک تہذیب و اخلاق سے مزین نہ ہوئے تھے اور نہ اسلام ان کے دلوں میں داخل ہی ہوا تھا۔
بعض اہل علم نے منافقین کی جماعت مراد لی ہے جو اسلام کی حقانیت کے پیش نظر نہیں بلکہ دنیوی لالچ اور مفاد پرستی کی خاطر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی صحیح صورت حال واضح ہوئی تو آپ نے بھی ان کے متعلق کسی قسم کا نرم گوشہ نہیں رکھا بلکہ فرمایا:
”تباہی اور بربادی ہو اس انسان کے لیے جس نے میرے بعد میرے دین کو بدل کر رکھ دیا۔
“ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7051) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے قیامت کے دن لوگوں کے اٹھائے جانے کی کیفیت کو بیان کیا ہے کہ وہ بالکل برہنہ حالت میں، یعنی ننگے بدن اٹھائے جائیں گے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر قرآن پاک کی آیت تلاوت کر کے ہمیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا۔
سب اپنی قبروں سے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر ختنہ شدہ اٹھیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہے اور وہ ایسا کر کے رہے گا۔
اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6526
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2083
´موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے سنا آپ فرما رہے تھے: ”تم اللہ تعالیٰ سے ننگے پاؤں، ننگے بدن (اور) غیر مختون ملو گے۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2083]
اردو حاشہ:
یعنی جس حالت میں اس دنیا میں آئے تھے، اسی حالت میں لوٹا کر آخرت میں لے جایا جائے گا۔ عمل کے علاوہ وہ دنیا کی کوئی چیز ساتھ نہ ہوگی۔ اور عمل بھی روحانی اثرات کی صورت میں۔ اللہ تعالیٰ سے ملنے کا مطلب اس کے حضور حاضری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2083
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2084
´موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ قیامت کے دن ننگ دھڑنگ، غیر مختون اکٹھا کیے جائیں گے، اور مخلوقات میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «كما بدأنا أول خلق نعيده» ”جیسے ہم نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ویسے ہی دوبارہ پیدا کریں گے“ (الانبیاء: ۱۰۴)۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2084]
اردو حاشہ:
(1) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سب سے پہلے لباس مہیا ہونا ان کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ اور وہ ان کا ایسا امتیاز ہے جس پر کوئی اور نبی حتیٰ کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک نہیں۔ یہ ان کی جزوی فضیلت ہے۔ اور یہ کوئی بعید نہیں کہ کسی نبی کو جزوی طور پر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت حاصل ہو، البتہ یہ بات قطعی ہے کہ مجموعی طور پر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہی افضل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ فضیلت اس بنا پر حاصل ہوئی کہ انھیں آگ میں پھینکتے وقت اللہ کے راستے میں ننگا کیا گیا اور انھوں نے اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برداشت کیا اور ثواب کے طالب ہوئے۔ یا، اس لیے کہ انھوں نے سب سے پہلے لباس پہنا جو یقیناً پردہ دار لباس ہے۔ اس کا بدلہ ان کو اس فضیلت کی صورت میں دیا جائے گا۔
(2) ”ویسے ہی“ یعنی تمام اعضاء اصلی حالت میں ہوں گے حتیٰ کہ ختنہ بھی نہیں ہوگا (کیونکہ یہ بعد کی تبدیلی ہے) البتہ جسامت کے لحاظ سے جسم بڑا ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2084
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2089
´(قیامت کے دن) جسے سب سے پہلے کپڑا پہنایا جائے گا۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کرنے کھڑے ہوئے تو فرمایا: ”لوگو! تم اللہ تعالیٰ کے پاس ننگے جسم جمع کئے جاؤ گے، (ابوداؤد کی روایت میں ہے ننگے پاؤں اور غیر مختون جمع کئے جاؤ گے، اور وکیع اور وہب کی روایت میں ہے: ننگے جسم اور بلا ختنہ) جیسے ہم نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ویسے ہی دوبارہ پیدا کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے جسے قیامت کے دن کپڑا پہنایا جائے گا ابراہیم ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2089]
اردو حاشہ:
(1) اس روایت کی کچھ باتوں کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 2084)
(2) ”بائیں طرف“ یعنی انھیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ جہنمیوں کو اصحاب الشمال کہا گیا ہے۔
(3) ”اسی وقت مرتد ہوگئے تھے“ فتنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا اور اب تک جاری ہے۔ کوئی نہ کوئی بدنصیب مرتد ہوتا ہی رہتا ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔ ممکن ہے صرف وہ لوگ مراد ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد مرتد ہوگئے تھے اور جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ برسر پیکار ہوئے۔ اور ممکن ہے اسلام سے ارتداد کے بجائے سنن سے ارتداد مقصود ہو، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بدعتی ہوگئے تھے اور اصل اسلامی تعلیمات سے انحراف کرکے اسی بدعتی انحراف پر قائم رہے۔ أعاذنا اللہ من البدع و الخرافات۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2089
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2423
´حشر و نشر کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہو گا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» ”جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے“ (الانبیاء: ۱۰۴)، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2423]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے،
یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے،
اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے۔
(الانبیاء: 104)
2؎:
ابراہیم علیہ السلام کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے،
اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا،
اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر انسان کا ایمان وعمل درست نہ ہوتووہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں ر ہا ہو،
کسی دوسری ہستی پر مغرور ہوکر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے،
بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتارہیں،
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔
3؎:
اگر تو انہیں عذاب دے تو یقینا یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقینا تو غالب اور حکمت والا ہے۔
(المائدہ: 118)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2423
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3167
´سورۃ انبیاء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”تم لوگ قیامت کے دن اللہ کے پاس ننگے اور غیر مختون جمع کئے جاؤ گے، پھر آپ نے آیت پڑھی «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا» ”ہم نے جیسے پہلے آدمی کو پیدا کیا ہے ویسا ہی دوبارہ لوٹا دیں گے (پیدا فرما دیں گے)“ (الانبیاء: ۱۰۴)، آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن جنہیں سب سے پہلے کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم علیہ السلام ہوں گے، (قیامت کے دن) میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے جنہیں چھانٹ کر بائیں جانب (جہنم کی رخ) کر دیا جائے گا، میں کہوں گا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3167]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم نے جیسے پہلے آدمی کو پیدا کیا ہے ویسا ہی دوبارہ لوٹا دیں گے،
(پیدا فرما دیں گے...(الأنبیاء: 104)
2؎:
میں جب تک ان کے درمیان تھا ان کی دیکھ بھال کرتا رہا تھا،
پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا آپ ان کے محافظ ونگہبان بن گئے،
آپ ہر چیز سے واقف ہیں۔
اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے وغلام ہیں۔
(آپ انہیں سزادے سکتے ہیں) اور اگر آپ انہیں معاف کر دیں تو آپ زبردست حکمت والے ہیں (المائدۃ: 118)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3167
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3332
´سورۃ عبس سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ (قیامت کے دن) جمع کیے جاؤ گے ننگے پیر، ننگے جسم، بیختنہ کے، ایک عورت (ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا) نے کہا: کیا ہم میں سے بعض بعض کی شرمگاہ دیکھے گا؟ آپ نے فرمایا: «لكل امرئ منهم يومئذ شأن يغنيه» ”اے فلانی! اس دن ہر ایک کی ایک ایسی حالت ہو گی جو اسے دوسرے کی فکر سے غافل و بے نیاز کر دے گی“ (سورۃ عبس: ۴۲)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3332]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سورہ عبس: 42۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3332
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:489
489- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیدل، برہنہ پاؤن، برہنہ جسم اور ختنے کے بغیر حاضر ہو گے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:489]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مسجد میں منبر ہونا چاہیے، قیامت کے دن انسان بالکل ننگا ہوگا، اس دن سب برابر ہوں گے، اور بغیر ختنے کے ہوں گے۔ روز قیامت سب سے پہلے ابراہیم علیہ اسلام کولباس پہنایا جائے گا۔ [صحيح البخاري: 6526]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 489
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7201
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے ا بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتےہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نصیحت آموز خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:"اے لوگو! تم کو اللہ کے سامنے ننگے پاؤں بے لباس بے ختنہ اکٹھا کیا جا ئے گا۔(قرآن مجید میں ہے):"جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز کیا تھا اسی کو دوبارہ لو ٹائیں گے۔ یہ ہم پر (پختہ)وعدہ ہے ہم یہی کرنے والے ہیں۔"یاد رکھو!مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنھیں لباس پہنایا جا ئے گا وہ ابراہیم ؑ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7201]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے لباس حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہنایا جائے گا،
کیونکہ انہیں برہنہ کر کے آگ کے الاؤ میں پھینکا گیا تھا اور یہ ایک جزئی فضیلت ہے،
جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر برتری لازم نہیں آتی،
اس لیے کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔
حدیث کی توضیح و تفسیر پیچھے گزر چکی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7201
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4625
4625. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”لوگو! تم قیامت کے دن اللہ کے حضور ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بے ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: "جیسے ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کر کے رہیں گے۔۔" پھر فرمایا: ”سن لو! قیامت کے دن ساری خلقت میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر میری امت کے کچھ لوگ حاضر کیے جائیں گے جنہیں فرشتے بائیں جانب لے چلیں گے۔ میں کہوں گا: یا رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ جواب ملے گا: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی باتیں نکال لی تھیں۔ میں اس وقت وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (حضرت عیسٰی ؑ) نے کہا: "جب تک میں ان لوگوں ان کا حال دیکھتا رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اس کے بعد تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4625]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا، مراد وہ گنوار لوگ ہیں جو خالی دنیا کی رغبت سے مسلمان ہوئے تھے اور آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد وہ اسلام سے پھر گئے تھے اور وہ جملہ اہل بدعت مراد ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا بدعات بنی ہوئی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4625
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4740
4740. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”تم سب اللہ کے حضور اس حالت میں اٹھائے جاؤ گے کہ تمہارے پاؤں اور بدن ننگے ہوں گے اور تمہارا ختنہ بھی نہیں کیا ہو گا۔“ جیسے ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی تھی (اسی طرح) ہم اسے دوبارہ لوٹائیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے، ہم اسے ضرور پورا کریں گے۔“ پھر قیامت کے دن سب سے پہلے جس کو لباس پہنایا جائے گا وہ سیدنا ابراہیم ؑ ہوں گے، آگاہ رہو! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے اور ان کو بائیں جانب سے پکڑا جائے گا تو اس وقت میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں۔ مجھ سے کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تھا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے نے کہا تھا: ”جب تک میں ان میں موجود رہا ان کے حالات سے آگاہ رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اس وقت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4740]
حدیث حاشیہ:
رافضی کم بخت اس حدیث کا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ آنحضرت کے کل اصحاب معاذ اللہ! آپ کی وفات کے بعد اسلام سے پھر گئے مگر چند صحابہ جیسے جابر بن عبداللہ انصاری، ابو ذر غفاری، مقداد بن اسود، سلمان فارسی رضی اللہ عنہم اسلام پر قائم اور اہل بیت کی محبت پر مضبوط رہے۔
ہم کہتے ہیں کہ صحابہ سب کے سب اسلام پر قائم رہے خصوصاً عشرہ مبشرہ جن کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہشت کی بشارت دی اور پیغمبر کا وعدہ جھوٹ نہیں ہوسکتا۔
قرآن شریف ان بزرگوں کے فضائل سے بھرا ہوا ہے اور متعدد حدیثیں ان کے مناقب میں وارد ہیں اگر معاذاللہ! رافضیوں کا کہنا صحیح ہو تو آنحضرت کی صحبت کی برکات ایک درویش کی صحبت سے کم قرار پاتی ہیں اور پیغمبر کی بڑی توہین اور تحقیر ہوتی ہے۔
اب بعض صحابہ سے جو ایسی باتیں منقول ہیں جن میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ ورسول کی مرضی کے خلاف تھیں تو اول تو یہ روایتیں صحیح نہیں ہیں۔
دوسرے اگر صحیح بھی ہوں تو صحابہ معصوم نہ تھے۔
خطا اجتہادی ان سے ممکن ہے جس پر وہ معذور سمجھے جانے کے لائق ہیں اور حدیث سے ثابت ہے کہ مجتہد اگر خطا بھی کرے تو اس کو ایک اجر ملے گا۔
علاوہ اس کے اجلہ صحابہ جیسے حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں ان سے تو کوئی ایسی بات منقول نہیں ہے جو شرع کے خلاف ہو۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4740
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3349
3349. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن تم لوگ ننگے پاؤں، برہنہ بدن اور بغیر ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔“ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا، اسی طرح ہم دوبارہ لوٹائیں گے۔ یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے۔ یقیناً (اسے)ہم پورا کریں گے۔“ (پھر فرمایا:)”قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر ایسا ہو گا کہ میرے چند اصحاب بائیں طرف کھینچ لیے جائیں گے۔ میں کہوں گا: یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ جواب دیا جائے گا کہ جب تمھاری وفات ہوئی تو یہ لوگ اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ پھر میں وہی کہوں گا۔ جیسا کہ ایک نیک بندے نے کہا تھا: ”میں جب تک ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا“ آخر آیت تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3349]
حدیث حاشیہ:
مراد وہ لوگ ہیں جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت میں مرتد ہوگئے تھے۔
حضرت ابوبکر ؓنے ان سے جہاد کیا۔
یہ دیہات کے وہ بدوی تھے جو برائے نام اسلام میں داخل ہوگئے تھے اور آنحضرت ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی پھر مرتد ہوکر اسلام کے خلاف مقابلہ کے لیے کھڑے ہوگئے تھے جو یا تو منافق تھے یا اسلام کے غلبہ سے خوف زدہ ہوکر اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔
اور انہوں نے اسلام سے کبھی کوئی دلچسپی سرے سے لی ہی نہیں تھی۔
ان مرتدین نے خلافت اسلامیہ کے خلاف جنگ کی اور شکست کھائی یا قتل کئے گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3349
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3447
3447. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) تم لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن اور ختنے کے بغیر اٹھائے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”جس طرح ہم نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم دوبارہ بھی پیدا کریں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہ جسے ہم ضرور پورا کریں گے۔“ سب سے پہلے سیدنا ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر میرے اصحاب ؓ میں سے کچھ لوگوں کو دائیں (جنت کی) جانب لے جایا جائے گا۔ لیکن کچھ کو بائیں (جہنم کی) جانب لے جایاجائے گا تو میں کہوں گا: یہ میرے اصحاب ہیں، لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ آپ جب ان سے جدا ہوئے تو اس وقت انھوں نے ارتداد اختیار کرلیاتھا۔ میں اس وقت وہی کچھ کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ ابن مریم ؑ نے کہا تھا: ”جب تک میں ان کے اندر موجود رہا ان کی نگرانی کرتا رہا لیکن جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کی نگہانی کرنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3447]
حدیث حاشیہ:
اوروہ اہل بدعت بھی دھتکار دئیے جائیں گےجنہوں نے قسم قسم کی بدعات سے اسلام کومسخ کرڈالا تھاجیسا کہ دوسری روایت میں ہےکہ ان کوحوض کوثر سےروک دیاجائے گا۔
خود معلوم ہونے پر آنحضرت ﷺفرمائیں گے سحقالمن غیر بعدي دینا ان کےلیے دوری ہوجنہوں نے میرےبعد میرے دین کوبدل ڈالا۔
ان جملہ احادیث مذکورہ میں کسی نہ کسی طرح سے حضرت عیسیٰ ؑ کاذکر آیا ہے۔
اس لیے ان کویہاں لایا گیا اور یہی باب سےوجہ مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3447
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3349
3349. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن تم لوگ ننگے پاؤں، برہنہ بدن اور بغیر ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔“ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا، اسی طرح ہم دوبارہ لوٹائیں گے۔ یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے۔ یقیناً (اسے)ہم پورا کریں گے۔“ (پھر فرمایا:)”قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر ایسا ہو گا کہ میرے چند اصحاب بائیں طرف کھینچ لیے جائیں گے۔ میں کہوں گا: یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ جواب دیا جائے گا کہ جب تمھاری وفات ہوئی تو یہ لوگ اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ پھر میں وہی کہوں گا۔ جیسا کہ ایک نیک بندے نے کہا تھا: ”میں جب تک ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا“ آخر آیت تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3349]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابراہیم ؑ کی خصوصیت یہ تھی کہ انھیں ننگا کرکے آتش نمرود میں ڈالا گیا تھا۔
چونکہ یہ اللہ کے لیے تھا،اس لیے قیامت کے دن تمام لوگوں سے پہلے انھیں لباس پہنایا جائے گا۔
اگرچہ رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں، تاہم یہ جزوی فضیلت کلی فضیلت کے منافی نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”قیامت کے دن جب میں ہوش میں آؤں گا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کاکنارا پکڑے ہوئے پاؤں گا۔
“ (صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2411)
یہ بھی ایک اُصول ہے کہ متکلم اپنے عمومی خطاب میں داخل نہیں ہوتا۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ متکلم ہیں، اس لیے مذکورہ حکم سے خارج ہیں۔
2۔
حدیث کے آخر میں جن لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے ان سے غالباً وہ لوگ مراد ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت صدیقی میں مرتد ہوگئے اور حضرت ابوبکر ؓنے ان کے خلاف جہاد کیا تھا۔
3۔
رسول اللہ ﷺ حضرت عیسیٰ کی بات دہرائیں گے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
”جب تک میں ان کے اندر رہا ان کا حال دیکھتا رہا،پھر جب تو نے مجھے واپس بلالیا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا اور توتو ساری چیزوں پر شاہد ہے۔
اگر توانھیں سزا دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اوراگر تو انھیں معاف کردے تو بلاشبہ تو ہی غالب اور دانا ہے۔
“ (المآئدة: 117/5، 118)
4۔
بہرحال اس حدیث سے امام بخاری ؒنے حضرت ابراہیم ؑ کی ایک جزوی فضیلت کو ثابت کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3349
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3447
3447. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) تم لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن اور ختنے کے بغیر اٹھائے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”جس طرح ہم نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم دوبارہ بھی پیدا کریں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہ جسے ہم ضرور پورا کریں گے۔“ سب سے پہلے سیدنا ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر میرے اصحاب ؓ میں سے کچھ لوگوں کو دائیں (جنت کی) جانب لے جایا جائے گا۔ لیکن کچھ کو بائیں (جہنم کی) جانب لے جایاجائے گا تو میں کہوں گا: یہ میرے اصحاب ہیں، لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ آپ جب ان سے جدا ہوئے تو اس وقت انھوں نے ارتداد اختیار کرلیاتھا۔ میں اس وقت وہی کچھ کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ ابن مریم ؑ نے کہا تھا: ”جب تک میں ان کے اندر موجود رہا ان کی نگرانی کرتا رہا لیکن جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کی نگہانی کرنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3447]
حدیث حاشیہ:
1۔
وہ اہل بدعت بھی حوض کوثر سے روک دیے جائیں گے جنھوں نے بدعات کو رواج دے کر چہرہ اسلام کو مسخ کرڈالاتھا کیونکہ ایک روایت میں ہے:
ان لوگوں کے لیے دوری ہو جنھوں نے میرے جانے کے بعد میرے دین کو بدل ڈالا۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6584)
2۔
ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی پہلو سے حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر آیا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں اس عنوان کے تحت درج کیا ہے۔
ان سے مقصود حضرت عیسیٰ ؑ کاتعارف کروانا اور ان کے حالات بیان کرنا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3447
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4625
4625. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”لوگو! تم قیامت کے دن اللہ کے حضور ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بے ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: "جیسے ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کر کے رہیں گے۔۔" پھر فرمایا: ”سن لو! قیامت کے دن ساری خلقت میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر میری امت کے کچھ لوگ حاضر کیے جائیں گے جنہیں فرشتے بائیں جانب لے چلیں گے۔ میں کہوں گا: یا رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ جواب ملے گا: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی باتیں نکال لی تھیں۔ میں اس وقت وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (حضرت عیسٰی ؑ) نے کہا: "جب تک میں ان لوگوں ان کا حال دیکھتا رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اس کے بعد تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4625]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث اور آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء ؑ کو غیب کا علم نہیں ہوتا، مگر اتنا ہی جنتا اللہ تعالیٰ انھیں بتا دے نیز انبیاء ؑ کے رخصت ہونے کے بعد انھیں اپنی امت کے اعمال کی خبر نہیں ہوتی۔
2۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد فتنوں کا دروازہ کھلا۔
مدینہ مکہ اور بحرین کے علاوہ باقی تمام جگہوں میں شور و غل اٹھا، یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا۔
اسود عنسی بھی نبوت کا دعویدار تھا جو رسول اللہ ﷺ کی وفات سے تین دن پہلے جہنم واصل ہوا۔
کچھ لوگ اس کے معتقدہوئے تھے کچھ لوگ دور جاہلیت کی طرف پھر گئے کچھ اسلام پر رہے لیکن بعض واجبات کا انھوں نے انکار کردیا جیسا کہ منکرین زکاۃ سے حضرت ابو بکر ؓ سال بھر جنگ کرتے ہے۔
کچھ مرتدین مارے گئے البتہ اکثر اسلام کی طرف واپس آگئے۔
غالباً انھی لوگوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ "أصحابي" کے الفاظ کہیں گے۔
3۔
اس حدیث سے حضرت ابراہیم ؑ کی ایک جزوی فضیلت معلوم ہوتی ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سیدالانبیاء حضرت محمد ﷺ سے افضل ہیں کیونکہ جزوی فضیلت کلی فضیلت کو لازم نہیں ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق "أصحابي" سے مراد جملہ اہل بدعت ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی بدعات و رسومات ہیں۔
ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ پہلے نرم گوشتہ رکھیں گے۔
پھر جب حقیقت حال سے آگاہ ہوں گے تو ان سے اعلان بے زاری فرمائیں گے۔
أعاذنا اللہ منه أجمعین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4625
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4626
4626. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) تمہیں جمع کیا جائے گا۔ پھر کچھ لوگوں کو بائیں جانب (جہنم کی طرف) لے جایا جائے گا، اس وقت میں وہی کہوں گا جو ایک نیک بندے نے کہا تھا: "جب تک میں ان میں رہا ان کے حالات دیکھتا رہا۔۔ آخر آیت ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ تک [صحيح بخاري، حديث نمبر:4626]
حدیث حاشیہ:
1۔
پوری آیات کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
"میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان میں موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا توتوہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے اگر تونے انھیں سزا دی تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو نے انھیں معاف فرما دے توتو زبردست ہےخوب حکمت والا ہے۔
"(المائدة: 117/5، 118)
2۔
اس آیت کریمہ میں بندوں کی عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی جلالت شان کے حوالے سے عفود مغفرت کی التجا کی گئی ہے۔
سبحان اللہ! یہ آیت کس قدر عجیب اور بلیغ ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ پر نوافل میں اس آیت کو پڑھتے ہوئے ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بار بار ہر رکعت میں اس آیت کو پڑھتے رہے حتی کہ صبح ہو گئی۔
(مسند أحمد: 149/5)
3۔
بہر حال اس آیت کریمہ میں حضرت عیسیٰ ؑ بڑے حکیمانہ انداز میں اللہ کے حضوربندوں کی سفارش کریں گے۔
پہلے تو اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر تو انھیں عذاب دے گا تو یہ تیرے بندے ہی ہیں نہ دم مار سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر کہیں جا سکتے ہیں اور اگر تو انھیں معاف فرما دے تو تیری شان غفاری کے کیا کہنے اور اگر تو انھیں معاف کردے تو مختار اور اگر سزا دے تو بھی مختار ہے۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4626
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4740
4740. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”تم سب اللہ کے حضور اس حالت میں اٹھائے جاؤ گے کہ تمہارے پاؤں اور بدن ننگے ہوں گے اور تمہارا ختنہ بھی نہیں کیا ہو گا۔“ جیسے ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی تھی (اسی طرح) ہم اسے دوبارہ لوٹائیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے، ہم اسے ضرور پورا کریں گے۔“ پھر قیامت کے دن سب سے پہلے جس کو لباس پہنایا جائے گا وہ سیدنا ابراہیم ؑ ہوں گے، آگاہ رہو! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے اور ان کو بائیں جانب سے پکڑا جائے گا تو اس وقت میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں۔ مجھ سے کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تھا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے نے کہا تھا: ”جب تک میں ان میں موجود رہا ان کے حالات سے آگاہ رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اس وقت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4740]
حدیث حاشیہ:
1۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہوگئے تھے وہ دوردراز کے رہنے والے بدولوگ تھے جوذاتی مفادات اور قتل وغارت کے ڈر سے مسلمان ہوئے تھے، اس لیے لفظ "رجال" کا اطلاق ہوا ہے جو ان کی تذلیل وتحقیر کی طرف اشارہ ہے۔
اس سے قطعاً وہ لوگ مراد نہیں ہیں جو ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے اورآپ کے وفادار اور سچے جاں نثار تھے، ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے خوش ہوئے“ خاص طور پر عشرہ مبشرہ جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مجلس میں جنتی ہونے کی بشارت دی ہے اسی طرح شیخین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر اور وزیرتھے اور مرنے کے بعد بھی آپ کے پہلو میں محو استراحت ہیں، ان کی تکفیر تو کوئی بے دین ہی کرسکتا ہے، اہل ایمان کے لیے ایسا ممکن نہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4740