Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
39. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ میں اور قیامت دونوں ایسے نزدیک ہیں جیسے یہ (کلمہ اور بیچ کی انگلیاں) نزدیک ہیں۔
حدیث نمبر: 6503
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ هَكَذَا"، وَيُشِيرُ بِإِصْبَعَيْهِ فَيَمُدُّ بِهِمَا.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور قیامت اتنے نزدیک نزدیک بھیجے گئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کے اشارہ سے (اس نزدیکی کو) بتایا پھر ان دونوں کو پھیلایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6503 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6503  
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ مجھ میں اور قیامت میں اب کسی نئے پیغمبرورسول کا فاصلہ نہیں ہے اور میری امت آخری امت ہے اسی پر قیامت آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6503   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4936  
4936. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فر رہے تھے: "میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے فاصلے برابر فاصلہ ہے۔" ٱلطَّآمَّةُ کے معنی ہیں: جو ہر چیز پر چھا جائے اور غالب آ جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4936]
حدیث حاشیہ:
یعنی قیامت میں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت میں اب صرف اتنا فاصلہ رہ گیا ہے جتنا ان دو انگلیوں میں ہے۔
دنیا کے اول سے آخر تک وجود کی مثال انگلیوں سے دی گئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اکثر مدت گزر چکی اور جو کچھ رہ گئی ہے وہ مدت بہت ہی کم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4936   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5301  
5301. رسول اللہ ﷺ کے صحابی سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اور قیامت اس انگلی اور اس انگلی کی طرح ہیں۔ پھر آپ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5301]
حدیث حاشیہ:
کرمانی کے زمانہ تک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری پر سات سو اسی برس گزر چکے تھے۔
اب تو چودہ سو برس پورے ہو رہے ہیں پھر اس قرب کے کیا معنی ہوں گے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرب بہ نسبت اس زمانہ کے ہے جو آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تک گزرا تھا۔
وہ تو ہزاروں برس کا زمانہ تھا یا قرب سے یہ مقصود ہے کہ مجھ میں اور قیامت کے بیچ میں اب کوئی نیا پیغمبر صاحب شریعت آنے والا نہیں ہے اور عیسیٰ علیہ السلام جو قیامت کے قریب دنیا میں پھر تشریف لائیں گے تو ان کی کوئی نئی شریعت نہیں ہوگی۔
وہ شریعت محمدی پر چلیں گے پس مرزائیوں کا آمد عیسیٰ علیہ السلام سے عقیدہ ختم نبوت پر معارضہ پیش کرنا بالکل غلط ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5301   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4936  
4936. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فر رہے تھے: "میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے فاصلے برابر فاصلہ ہے۔" ٱلطَّآمَّةُ کے معنی ہیں: جو ہر چیز پر چھا جائے اور غالب آ جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4936]
حدیث حاشیہ:

درمیانی انگلی تھوڑی سی آگے ہوتی ہے اور سبابہ اس کے پیچھے ہوتی ہے،مطلب یہ ہے کہ میں تھوڑا سا آگے ہوں اور میرے بعد جلد ہی قیامت آجائے گی۔
دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح یہ انگلیاں ایک دوسری سے ملی ہوئی ہیں،اسی طرح اور قیامت ملے ہوئے ہیں،یعنی میرے اور قیامت کے درمیان اللہ تعالیٰ کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجے گا۔

اس حدیث سے بعض اہل علم نے اس امت کی عمر کاتعین کرناچاہا ہے لیکن بے سود ثابت ہواہے کیونکہ قیامت کے واقع ہونے کا علم اللہ کے سوا کسی کےپاس نہیں ہے۔
واللہ اعلم w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4936