Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
38. بَابُ التَّوَاضُعِ:
باب: عاجزی کرنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 6502
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ:" مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ، وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ".
مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6502 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6502  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں محدثین نے کلام کیا ہے اوراس کے راوی خالد بن مخلد کو منکر الحدیث کہا ہے۔
میں وحید الزماں کہتا ہوں کہ حافظ ابن حجر نے اس کے دوسرے طریق بھی بیان کئے ہیں گو وہ اکثر ضعیف ہیں۔
مگر یہ سب طریق مل کر حدیث حسن ہو جاتی ہے اورخالد بن مخلد کو ابوداؤ دنے صدوق کہا ہے (وحیدی)
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بندہ عین خدا ہو جاتا ہے جیسے معاذاللہ اتحادیہ اورحلولیہ کہتے ہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ میری عبادت میں غر ق ہو جاتا ہے اور مرتبہ محبوبیت پر پہنچتا ہے تواس کے حواس ظاہری وباطنی سب شریعت کے تابع ہو جاتے ہیں وہ ہاتھ پاؤں کان آنکھ سے صرف وہی کام لیتا ہے جس میں میری مرضی ہے۔
خلاف شریعت اس سے کوئی کام سرزد نہیں ہوتا۔
(اور اللہ کی عبادت میں کسی غیرکو شریک کرنا شرک ہے جس کا ارتکاب موجب دخول نار ہے۔
توحید اورشریعت کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے تقویۃ الایمان کا مطالعہ کرنا چائیے عربی حضرات الدین الخالص کا مطالعہ کریں۔
وباللہ التوفیق۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6502   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6502  
فوائد و مسائل:
یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ [صحيح ابن حبان:348]، [السنن الكبريٰ للبيهقي:346/3،219/10]، [حلية الاولياء:5،4/1]، [شرح السنة للبغوي:19/5ح 1248، وقال: هذا حديث صحيح] اور [الصححيه للالباني:1640] میں موجود ہے۔

اس حدیث میں سماعت، بصارت، ہاتھ اور پاؤں بننے سے دو چیزیں مراد ہیں:
➊ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی حاجات پوری فرماتا ہے۔
➋ بندے کی آنکھ، کان، ہاتھ اور پاؤں وہی کام کرتے ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ دیکھئے: [شرح السنه:ج5، ص20]

اس حدیث سے حلولیت کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں۔
اس سے ثابت ہوا کہ اللہ علیحدہ ہے اور بندہ علیحدہ ہے، دونوں ایک نہیں ہیں نیز دوسرے قطعی دلائل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔

انور شاہ کشمیری دیوبندی کا علمائے شریعت پر رد کرنا اور اس حدیث سے حلولیوں کا فناء فی اللہ کا عقیدہ کشید کرنا ديكھئے: [فيض الباري:ج4،ص428] واضح طور پر غلط ہے۔ اگر بندہ خود خدا ہو جاتا ہے تو پھر مجھ سے سوال کرے اور مجھ سے پناہ مانگے کیا معنی رکھتا ہے؟

تنبيه 1: روایت مذکورہ بالاِ خالد بن مخلد کی وجہ سے حسن لذاتہ (اور شواہد کے ساتھ) صحیح لغیرہ ہے۔ «والحمدلله»

تنبيه 2: منکر حدیث معترض نے لکھا ہے:
امام بخاری کہتے ہیں کہ اللہ پاک بندے میں حلول کر کے اس کے اعضاء بن جاتا ہے۔ (...محدث:ص19)
امام بخاری نے بندے میں حلول والی بات بالکل نہیں لکھی لہٰذا معترض کی یہ بات بہت بڑا جھوٹ ہے جس کا اسے اللہ کے دربار میں جواب دینا پڑے گا۔ «ان شاءالله»
   توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 30   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6502  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6502 کا باب: «بَابُ التَّوَاضُعِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے تواضع اور انکساری کے مسئلے کو واضح فرمایا ہے کہ بندے میں تواضع اور انکساری کا ہونا ضروری ہے، تحت الباب دو حدیثیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں باب سے مطابقت ان الفاظوں سے ظاہر ہے: «إن حقا على الله أن لا يرفع شيئا من الدنيا الا وضعه» اور دوسری حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس سے باب کی مطابقت مشکل ہے کیوں کہ اس حدیث میں عاجزی اور تواضع کے الفاظ وارد نہیں ہیں، اس کا جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«أشكل وجه دخول هذا الحديث فى باب التواضع حتى قال الداوردي، ليس هذا الحديث من التواضع فى شيئي، و قال بعضهم: المناسب إدخاله فى الباب الزي قبله وهو مجاهدة المرء نفسه فى طاعة الله تعالى، وبذالك ترجم البيهقي فى الزهد فقال: فصل فى الاجتهاد فى الطاعة وملازمة العبودية: و الجواب عن البخاري من أوجه، أحدهما أن التقرب إلى الله بالنوافل لا يكون ألا بغاية التواضع لله و التوكل عليه، ذكره الكرماني: ثانيها ذكره أيضا فقال قيل الترجمة مستفادة مما قال كنت سمعه و من التدرد، قلت: و يخرج منه جواب ثالث: و يظهر لي رابع، و هو أنها تستفاد من لازم قوله من عادى لي وليًا لأنه يقتضي الزجر عن معاداة الأولياء المستلزم لموالاتهم، وموالاة جميع الأولياء لا تتاتي إلا بغاية التواضع.» (1)
باب تواضع میں اس حدیث کو داخل کرنا باعث اشکال ہے، یہاں تک کہ داوردی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث کا تواضع سے کوئی تعلق نہیں ہے، بعض نے کہا: سابقہ باب میں اس کا نقل کرنا مناسبت تھا جو کہ اللہ تعالی کی اطاعت اور مجاہدائے نفس پر قائم تھا، اس کے ساتھ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب الزہد میں اپنے ترجمہ کا عنوان یوں لکھا ہے: «فصل فى الاجتهاد فى الطاعة وملازمة العبودية»، بخاری کی طرف سے کئی ایک وجہ کا جواب دیا گیا ہے، ایک یہ کہ نوافل کے ساتھ تقرب الی اللہ نہیں ہوتا مگر اللہ تعالی کے لیے نہایت تواضع (عاجزی) کے ساتھ اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے، اسے امام کرمانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ دوم یہ کہ ترجمۃ الباب «كنت سمعه» اور تردد سے مستفاد ہے یہ بھی کر مانی سے نقل کیا، بقول ابن حجر رحمہ اللہ اسی سے تیسرا جواب یہ ملتا ہے اور چوتھا جواب مجھے ظاہر ہوا کہ ترجمہ «من عادى لي وليا» کے لازم سے مستفاد ہے، کیوں یہ معادات اولیاء سے زجر اور ان کی سوالات کو مستلزم ہے اور تمام اولیاء کی موالات نہایت تواضع ہی سے میسر ہوتی ہے کہ ان میں سے کچھ اشعث و اغبر یعنی ظاہر میں پراگندہ حال میں ہوں گے، تواضع کی ترغیب و تحریص میں کئی احادیث وارد ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اقتباسات قارئین نے پڑھے، حافظ صاحب کے مطابق حدیث اور باب میں مناسبت اس طرح سے قائم ہے کہ بندہ ولی اللہ تعالی کی اطاعت میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کی عبادت میں مشغول ہو جاتا ہے تو وہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ بن جاتا ہے، یہ اسی وقت ہی ممکن ہو گا جب بندے میں تواضع اور انکساری ہو گا۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«و الأوجه عندي فى مناسبة الحديث الثاني بالترجمة انها فى قوله: من عادى لي وليًا فإن المتواضع لا يعادي أحدًا فضلًا عن الأولياء.» (2)
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مناسبة الحديث الترجمة تستفاد من لازم قوله: من عادى لي وليًا لأنه يقتضي الزجر عن معاداة الأولياء المستلزم لموالاتهم.» (3)
یعنی مناسبت حدیث کی ترجمۃ الباب «من عادى لي وليًا» کے لزوم سے مستفاد ہے کیوں کہ معادات اولیاء سے زجر اور ان کی موالات کو مستلزم ہے اور تمام اولیاء کی موالات (یعنی ان کی ولایت) نہایت تواضع ہی سے متاتی ہوتی ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب پر اٹھتے ہوئے اشکالات نقل کرنے کے بعد حدیث اور باب میں تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
تقرب الی اللہ نوافل کے ذریعے قائم ہوتے ہیں، جس سے اللہ تعالی کی محبت حاصل ہوتی ہے اور یہ تواضع اور تذلل (یعنی نہایت انکساری) کے ساتھ وابستہ ہے۔(1)
ان تمام گفتگو سے باب اور حدیث میں مناسبت اس جہت کے ساتھ قائم ہوتی ہے کہ باب میں تواضع اختیار کرنے کا ذکر ہے اور تحت الباب اللہ کے ولی کی صفات کا ذکر ہے، لہذا اللہ کا ولی وہی ہے جو تواضع کو اپنے اوپر لازم کر لے کیونکہ قرآن مجید میں بھی اولیاء اللہ کی صفات میں عاجزی اور تواضع کا ذکر موجود ہے۔ پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
فائدہ:
مذکورہ بالا حدیث کی سند پر بعض حضرات نے جرح کی ہے، چنانچہ سند میں «خالد بن مخلد القطواني الكوفي» ہیں، ان پر جروحات تین قسموں کی نقل کی گئی ہیں:
الف: «له مناكیر»
ب: «منكر الحديث»
ج: «مفرط فى التشيع» ۔
اب ہم ان تینوں جروحات کو کتاب رجال میں دیکھتے ہیں کہ وہاں ان نکات پر کیا کہا گیا ہے اور محدثین کرام رحمہم اللہ نے مجموعی طور پر خالد بن مخلد کے بارے میں کیا فیصلہ سنایا ہے۔
خالد بن مخلد پر جرح اور اس کی تفصیل:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب «تهذيب التهذيب» میں فرماتے ہیں:
«قال عبدالله بن أحمد عن أبيه: له أحاديث مناكير.»
«و قال أبو حاتم: يكتب حديثه، ولا يحتج به.»
«و قال الآجري عن أبى داؤد: صدوق ولكنه يتشيع.»
«و قال ابن سعد: منكر الحديث مفرطًا فى للتشيع.» [477/2]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کی احادیث مناکیر ہیں۔
امام ابوحاتم کہتے ہیں: اس کی حدیث لکھی جائے مگر اس سے حجت کو اخذ نہ کیا جائے۔
امام آجری ابوداؤد رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: صدوق تھا، لیکن شیعہ تھا۔
ابن سعد کہتے ہیں: اس کی حدیثوں سے لوگوں نے انکار کیا ہے اور یہ شیعہ تھا۔
خالد بن مخلد نہ تو غالی شیعہ تھا اور نہ ہی ان کی احادیث صحیح بخاری میں جو روایت کی گئی ہیں منکر ہیں، امام عجلی رحمہ اللہ نے خود اپنی کتاب میں اسے قلیل الشیعہ کہا ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں:
«قال العجلي: فيه قليل تشيع.» (1)
یعنی ان میں شیعہ پن بہت قلیل تھا۔
جہاں تک تعلق ہے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے قول کا کہ اس کی روایت میں مناکیر ہیں، تو یاد رکھیے، یہ حکم بعض احادیث کا ہے کل کا نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قال الأزدري فى حديثه بعض المناكير.» (2)
اس کی بعض احادیث میں مناکیر ہیں (تمام میں نہیں ہیں)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خالد بن مخلد اور ان جیسے دیگر راویان جن میں ثقیل درجے کا شیعہ ہونے کا الزام ہوتا ہے ایسے راویوں کے بارے میں رقمطراز ہیں:
«اما التشيع فقد قدمنا أنه إذا كان ثبت الأخذ والأداء لا يضره.» (3)
ایسا شیعہ جو ثابت اور اخذ الادا ہو تو اس سے کچھ بھی نقصان نہیں ہے۔
اور جہاں تک تعلق ہے اس کے مناکیر ہونے کا تو ابن عدی رحمہ اللہ نے اس کی کل مناکیر اپنی کتاب «الكامل» میں جمع کی ہیں لیکن بخاری کی وہ روایت جس پر ہم گفتگو کر رہے ہیں اس روایت کو ابن عدی رحمہ اللہ نے «الكامل» میں ذکر نہیں کیا جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خالد بن مخلد کی وہ حدیث جو بخاری میں منقول ہے وہ مکمل طور پر صحیح ہے مناکیر میں سے نہیں ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«و أما المناكير فقد تتبعها ابن عدي من حديثه، و أوردها فى كامله، و ليس فيها شييء مما أخرج له البخاري.» (1)
ابن عدی نے خالد کی کل مناکیر والی احادیث کو تلاش کر کے اپنی کتاب الکامل میں درج کی ہیں اور اس میں وہ روایت نہیں ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں درج فرمایا ہے۔
تفصیل کے لیے خالد کی تمام وہ روایات جنہیں ابن عدی نے الکامل میں درج کی ہیں دیکھئے۔(2)
اور جہاں تک تعلق ہے ابوحاتم رحمہ اللہ کے قول کا کہ آپ نے دو باتیں لکھیں: «يكتب حديثه» اور «لا يحتج به»، یاد رکھیں! یہ دونوں قول اس قسم کے نہیں ہیں جس کی وجہ سے خالد کی روایت کو چھوڑ دیا جائے، خصوصا وہ روایت جسے شیخین نے روایت کیا ہو، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ابوحاتم کے اس قول کے بارے میں فرماتے ہیں:
«و أما قول أبى حاتم: يكتب حديثه ولا يحتج به، فأبوحاتم يقول: مثل هذا فى كثير من رجال الصحيحين.» (3)
یعنی ابوحاتم کا یہ جو قول ہے: «يكتب حديثه ولا يحتج به» ابوحاتم نے بہت سارے رجال الصحیحین پر یہ بات کہی ہے۔
لہذا لفظ «يكتب حديثه» الفاظ تعدیل سے نہیں ہے، اور دوسرا قول: «لا يحتج به» خفیف جرح ہے، یعنی اس کی وجہ سے راوی کی عدالت اثر انداز نہیں ہوتی، کیوں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ راوی حجت نہیں اور حجت توثیق کے درجات میں اعلی درجہ ہے اور حجت ثقہ سے بھی اعلی درجہ ہوتا ہے، معروف ہے کہ
«حجة وهو أقوى من ثقة»
ایک قول سے حجت کے قوی ہونے کو سمجھئے، امام آجری رحمہ اللہ نے امام ابوداؤد رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ:
«عن سليمان بن بنت شرحبيل فقال: ثقه يخطيء كما يخطيء الناس، قال الآجرى، قلت: هو حجة؟ فقال: الحجة أحمد بن حنبل رحمه الله.» (4)
لہذا اگر کوئی راوی حجت نہ ہو گا تو وہ راوی «صدوق، حسن الحديث، لا باس به» وغیرہ ہو سکتا ہے اور ان اقوال کی پاداش میں اس کی روایت مقبول ہوتی ہے، اس قسم کے اقوال خالد بن مخلد کے بارے میں موجود ہیں، جو ان کی روایت کو اخذ کے قابل بناتی ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«قال الآجرى عن أبى داؤد: صدوق.» امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے انہیں صدوق کہا ہے۔
«قال أبوحاتم: يكتب حديثه.» ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کی احادیث لکھی جائیں۔
«قال عثمان الدارمي عن ابن معين: ما به بأس.» عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا کہ: «ما به بأس» ۔
«قال ابن عدي: وهو عندي إن شاء الله لا بأس به.» ابن عدی کہتے ہیں: وہ میرے نزدیک ان شاء اللہ «لا بأس به» (ثقہ) ہے۔
«قال العجلي: ثقة.» امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ثقہ ہے۔
«و قال صالح بن محمد جزرة: ثقة فى الحديث.» صالح بن محمد فرماتے ہیں: وہ حدیث میں ثقہ ہے۔
⑦ عثمان بن ابی شیبہ لکھتے ہیں: «هو ثقة و صدوق» وہ ثقہ اور صدوق ہے۔
«ذكره ابن حبان فى الثقات.» ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں ثقات میں ذکر فرمایا ہے۔
«قال الأزدي: هو عندنا فى عداد أهل الصدق.»
خالد بن مخلد کے ترجمہ کے لیے مراجعت کیجیے، ان کتب کی طرف [تهذيب الكمال: 363/1 - تاريخ الكبير للبخاري: 174/3 - تاريخ الصغير للبخاري: 331/2 - الجرح و التعديل: 1599/3 - الوافي بالوفيات: 375/13 - الكاشف: 274/1]
گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ کسی راوی کا حجت نہ ہونا، اس کی توثیق اور عدالت کے منافی نہیں، لہذا خالد بن مخلد کی روایت مقبول ہو گی، خصوصا جبکہ بخاری و مسلم نے ان سے روایت اخذ کی ہو۔
اس مفید قاعدے کو بھی دامن گیر فرما لیں: جب کسی راوی سے امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ روایت کریں صحیحین میں تو وہ راوی پل پار کر گیا۔ «قد جاوز عن القنطرة» ۔
شاہ ولی اللہ الدہلوی رحمہ اللہ اس مفید قاعدے پر گفتگو کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«أما الصحيحان فقد اتفق المحدثون على أن جميع ما فيهما من المتصل المرفوع صحيح بالقطع، وأنهما متواتران إلى مصنفيهما، و أنه من يهون من أمرهما فهو مبتدع متبع غير سبيل المؤمنين.» (1)
صحیح بخاری و مسلم کی روایت پر محدثین کا اتفاق ہے، جو کہ تمام کی تمام متصل، مرفوع اور صحیح بالقطع ہیں اور وہ دونوں اپنے مصنفین تک متواتر پہنچتی ہیں اور جو شخص (اس قاعدے سے) پہلوتہی برتے تو وہ بدعتی ہے اور سبیل المومنین کے مخالف ہے۔
حافظ ابوبکر الحازمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«قد يكون الحديث عند البخاري ثابتًا وله طرق أخرى بعضها أرفع من بعض.» (2)
جو احادیث امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ہیں وہ ثابت ہیں اور اس کے دوسرے طرق بھی ہیں، جو ایک دوسرے سے ارفع ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و انما يفترق الصحيحان و غيرهما من الكتب فى كون ما فيهما صحيحًا لا يحتاج إلى النظر فيه بل يجب العمل به مطلقًا.»
یعنی بخاری و مسلم کی جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں، اس میں نظر کی ضرورت نہیں بلکہ ان کتابوں پر مطلق عمل کیا جائے (یعنی اس میں تحقیق اور صحت کی حرکت نہیں ہے)۔
مزید آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یقینا امت نے بخاری و مسلم کی احادیث کو تلقی بالقول سے نوازا ہے، ان کی احادیث پر عمل واجب ہے، کیوں کہ یہ قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتابیں ہیں، اس کی سند پر دیکھنا (تحقیق کرنا) ضروری نہیں (بلکہ عمل کیا جائے)۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 221   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6502  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ بندہ عین اللہ بن جاتا ہے، نعوذ باللہ جس طرح حلولیہ یا اتحادیہ کہتے ہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میرا بندہ جب میری عبادت میں غرق ہو جاتا ہے اور محبوبیت کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے تمام ظاہری اور باطنی حواس شریعت کے تابع ہو جاتے ہیں۔
وہ ہاتھ، پاؤں، کان اور آنکھ سے صرف وہی کام لیتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوتی ہے۔
اس سے کوئی فعل بھی خلاف شریعت سرزد نہیں ہوتا ہے۔
بہرحال مذکورہ کمالات فرائض اور نوافل کی ادائیگی اور ان کی برکات سے حاصل ہوتے ہیں۔
(2)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل سے اللہ تعالیٰ کا قرب وہی انسان حاصل کر سکتا ہے جو انتہائی متواضع اور منکسر المزاج ہو، متکبر آدمی یہ منصب نہیں حاصل کر سکتا، نیز اس حدیث میں اولیاء اللہ کی دشمنی اور عداوت سے منع کیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان سے محبت کی جائے۔
اور تمام اولیاء سے وہی انسان محبت کرتا ہے جس میں تواضع اور انکسار ہو کیونکہ کچھ اولیاء غبار آلود اور پراگندہ بال بھی ہوتے ہیں، ایسی حالت میں ان سے محبت کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع بیان کرتے ہیں کہ آپ بیمار کی عیادت فرماتے، جنازے کے ساتھ جاتے، غلام کی دعوت قبول کرتے اور گدھے پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔
بنو قریظہ اور بنو نضیر سے لڑائی کے دن آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور جنگ خیبر کے موقع پر بھی آپ ایک گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی رسی کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے کھجور کے پتوں کی زین تھی۔
(سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4178)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6502