Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
36. بَابُ الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ:
باب: ریا اور شہرت طلبی کی مذمت میں۔
حدیث نمبر: 6499
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدَبًا، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا يَقُولُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَهُ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَمَّعَ، سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ يُرَائِي، يُرَائِي اللَّهُ بِهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، کہا مجھ سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا۔ (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے سلمہ نے بیان کیا کہ میں نے جندب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور میں نے آپ کے سوا کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، چنانچہ میں ان کے قریب پہنچا تو میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (کسی نیک کام کے نتیجہ میں) جو شہرت کا طالب ہو اللہ تعالیٰ اس کی بدنیتی قیامت کے دن سب کو سنا دے گا۔ اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اللہ بھی قیامت کے دن اس کو سب لوگوں کو دکھلا دے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6499 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6499  
حدیث حاشیہ:
ریاکاری سے بچنے کے لئے نیک کام چھپا کر کرنا مگر جہاں اظہار کے بغیر چارہ نہ ہو جیسے فرض نماز جماعت سے ادا کرنا یا دین کی کتابیں تالیف اور شائع کرنا اسی طرح جو شخص دین کا پیشوا ہو اس کو بھی اپنا عمل ظاہر کرنا چاہئے تاکہ دوسرے لوگ اس کی پیروی کریں بہر حال حدیث إنما الأعمالُ بالنیاتِ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
ریا کو شرک خفی کہا گیا ہے جس کی مذمت کے لئے یہ حدیث کافی وافی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6499   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6499  
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے کوئی اچھا کام اخلاص کے بغیر کیا اور لوگوں کو سنانے دکھانے کے لیے عبادت کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے یہ سزا دے گا کہ اس کے باطن کو تمام لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دے گا اور پھر اپنے ہاں اسے کوئی اجروثواب نہیں دے گا۔
قیامت کے دن جہنم کا افتتاح اسی قسم کے لوگوں سے کیا جائے گا جو ریاکار اور نمائشی ہوں گے۔
وہ اچھے کام محض نمودونمائش اور اپنی شہرت کے لیے کرنے والے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا سے محفوظ رکھے۔
(2)
جہاں اظہار کے بغیر چارہ نہ ہو، جیسے:
فرض نماز ادا کرنا یا کتب دینیہ کی نشرواشاعت وغیرہ ایسے کاموں میں اخلاص کے ساتھ اظہار ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو شخص پیشوا ہو اسے اپنے اعمال ظاہر کرنے چاہئیں تاکہ دوسرے لوگ اس کی پیروی کریں۔
بہرحال ایسے معاملات میں إنما الأعمالُ بالنياتِ کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6499   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4207  
´ریا اور شہرت کا بیان۔`
جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ریاکاری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ریاکاری لوگوں کے سامنے نمایاں اور ظاہر کرے گا، اور جو شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو رسوا اور ذلیل کرے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4207]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ریاکاری کرنے والا کام اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں میں اس کی خوبی کی شہرت ہو اور وہ اس کی تعریف اور عزت کریں لیکن اللہ تعالی لوگوں کے سامنے اس کی یہ بری نیت ظاہر کردیتا ہے جس کی وجہ سے وہ بدنام ہوجاتا ہے اور اس کی عزت ختم ہوجاتی ہے۔

(2)
اس حدیث کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی سب مخلوق کے سامنے یہ ظاہر فرمادے گا کہ یہ شخص اخلاص کے ساتھ نیکی نہیں کرتا تھا جس سے سب کے سامنے اس کی بے عزتی ہوجائے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4207   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:796  
796- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص مشہورہونا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اسے مشہور کروا دیتا ہے اور جو شخص دکھاوا ظاہر کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا دکھاوا ظاہر کر دیتا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:796]
فائدہ:
اس حدیث میں ریا کاری کی مذمت ہے۔ اپنی تشہیر کروانا کبیرہ گناہ ہے۔ یاد رہے کہ ریا کاری کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ انسان کو خود معلوم ہو جاتا ہے کہ میں یہ عمل کس لیے کر رہا ہوں اللہ کی رضا کے لیے یا لوگوں کی خوشنودی کے لیے۔ آج کل عام تبصرے سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں ریا کار ہے، حالانکہ تبصرہ کرنے والے نے کسی کا دل چیرہ نہیں ہوتا۔ یہ غلط فہمی ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے آپ جس کو ریا کار سمجھ رہے ہوں وہ دل سے کتنا مخلص ہو۔
حافظ عبدالستار الحمام لکھتے ہیں: جہاں اظہار کے بغیر چارہ نہ ہو جیسے فرض نماز ادا کرنا یا کتب دینیہ کی نشر و اشاعت وغیرہ ایسے کاموں میں اخلاص کے ساتھ اظہار ہوتا ہے اس کے علاوہ جو شخص پیشوا ہو اسے اپنے اعمال ظاہر کرنے چاہیے تا کہ دوسرے لوگ اس کی پیروی کریں۔ بہر حال ایسے معاملات میں «انـمـا الاعمال بالنيات» کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ واللہ اعلم [هداية القاري: 458/9]
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 796   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7477  
حضرت جندب علقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو لوگوں کو سنائے گا اللہ اس کی حرکت سنادے گا اور جوریاکاری کرےگا اللہ اس کی ریاکاری دکھلادےگا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7477]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سمعہ یہ ہے کہ ایک نیک کام اللہ کے لیے کرنے کے بعد لوگوں میں اس کا چرچہ کیا جائے اور ریاء یہ ہے،
لوگوں کو دکھلاکر ہی کیا جائے اور بقول بعض سمعہ لوگوں کے عیوب و نقائص دوسروں کو سنانا اور ان میں پھیلانا ہے،
تو اللہ اس کے عیوب و نقائص ظاہر کردیتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7477