صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
17. بَابُ كَيْفَ كَانَ عَيْشُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، وَتَخَلِّيهِمْ مِنَ الدُّنْيَا:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے گزران کا بیان اور دنیا سے کنارہ کشی کا بیان۔
حدیث نمبر: 6453
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدًا، يَقُولُ:" إِنِّي لَأَوَّلُ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَرَأَيْتُنَا نَغْزُو وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا وَرَقُ الْحُبْلَةِ وَهَذَا السَّمُرُ، وَإِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ مَا لَهُ خِلْطٌ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ تُعَزِّرُنِي عَلَى الْإِسْلَامِ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ سَعْيِي".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں سب سے پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلائے۔ ہم نے اس حال میں وقت گزارا ہے کہ جہاد کر رہے ہیں اور ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز حبلہ کے پتوں اور اس ببول کے سوا کھانے کے لیے نہیں تھی اور بکری کی مینگنیوں کی طرح ہم پاخانہ کیا کرتے تھے۔ اب یہ بنو اسد کے لوگ مجھ کو اسلام سکھلا کر درست کرنا چاہتے ہیں پھر تو میں بالکل بدنصیب ٹھہرا اور میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6453 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6453
حدیث حاشیہ:
بنو اسد نے ان پر کچھ ذاتی اعتراض کئے تھے جو غلط تھے ان کے بارے میں انہوں نے یہ بیان دیا ہے۔
حدیث میں فقرکا ذکر ہے یہی باب سے مناسبت ہے۔
یہ بنو اسد وفات نبوی کے بعد مرتد ہو کر طلیحہ بن خویلد کے پیرو ہو گئے تھے جس نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تھا حضرت خالد بن ولید نے ان کو مار کر پھر مسلمان بنایا ان لوگوں نے حضرت عمر سے سعد بن ابی وقاص کی شکایت کی تھی۔
سعد کوفہ کے حاکم تھے۔
حضرت سعد نے فرمایا کہ چہ خوش کل کے مسلمان مجھ کو پڑھانے بیٹھے ہیں۔
حبلہ اور سمر کانٹے دار درخت ہوتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6453
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6453
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں کوفے کے گورنر تھے۔
اہل کوفہ انتہائی سازشی اور مکار تھے۔
بنو اسعد قبیلے نے تو حد کر دی تھی۔
انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق شکایت کی تھی کہ یہ حضرت جہاد میں نہیں جاتے۔
فیصلے کرتے وقت عدل و انصاف سے کام نہیں لیتے اور نماز بھی صحیح طور پر نہیں پڑھاتے۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی تردید میں مذکورہ بیان دیا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دور نبوی میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے گزر اوقات کی وضاحت کی ہے کہ انہوں نے مشکل حالات میں اسلام قبول کیا اور درختوں کے پتے کھا کر جہاد میں حصہ لیا۔
کیکر کے پتے کھانے اور اس کا چھلکا چبانے کی وجہ سے انھیں جو قضائے حاجت ہوتی وہ خشک ہونے کا باعث ایک دوسرے سے الگ ہوتی اور اس میں اختلاط نہیں ہوتا تھا۔
ایسے حالات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دین اسلام کے احکام کو خوب بجا لاتے اور ان کے متعلق انھیں پوری پوری معلومات حاصل تھیں۔
(3)
اس قسم کے حالات اس وقت تھے جب فتوحات کا دروازہ نہیں کھلا تھا۔
فتح خیبر کے بعد کافی حالات تبدیل ہو گئے تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں:
”آلِ محمد نے تین دن متواتر گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔
“ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5416)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6453