صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
7. بَابُ مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيهَا:
باب: دنیا کی بہار اور رونق اور اس کی ریجھ کرنے سے ڈرنا۔
حدیث نمبر: 6427
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَكْثَرَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ بَرَكَاتِ الْأَرْضِ"، قِيلَ: وَمَا بَرَكَاتُ الْأَرْضِ؟ قَالَ:" زَهْرَةُ الدُّنْيَا"، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: هَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَصَمَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ، ثُمَّ جَعَلَ يَمْسَحُ عَنْ جَبِينِهِ، فَقَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ"، قَالَ: أَنَا، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لَقَدْ حَمِدْنَاهُ حِينَ طَلَعَ ذَلِكَ، قَالَ:" لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ مَا أَنْبَتَ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرَةِ، أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ، فَاجْتَرَّتْ، وَثَلَطَتْ، وَبَالَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ، وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوَةٌ مَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطا بن یسار نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لیے نکال دے گا۔ پوچھا گیا زمین کی برکتیں کیا ہیں؟ فرمایا کہ دنیا کی چمک دمک، اس پر ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا بھلائی سے برائی پیدا ہو سکتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ اس کے بعد اپنی پیشانی کو صاف کرنے لگے اور دریافت فرمایا، پوچھنے والے کہاں ہیں؟ پوچھنے والے نے کہا کہ حاضر ہوں۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس سوال کا حل ہمارے سامنے آ گیا تو ہم نے ان صاحب کی تعریف کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سرسبز اور خوشگوار (گھاس کی طرح) ہے اور جو چیز بھی ربیع کے موسم میں اگتی ہیں وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کر دیتی ہیں یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہیں۔ سوائے اس جانور کے جو پیٹ بھر کے کھائے کہ جب اس نے کھا لیا اور اس کی دونوں کوکھ بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کر کے جگالی کر لی اور پھر پاخانہ پیشاب کر دیا اور اس کے بعد پھر لوٹ کے کھا لیا اور یہ مال بھی بہت شیریں ہے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق میں خرچ کیا تو وہ بہترین ذریعہ ہے اور جس نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا تو وہ اس شخص جیسا ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6427 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6427
حدیث حاشیہ:
اس اعتدال پر اشارہ ہے جسے ہریالی چرنے والے جانور کی مثال سے بیان فرمایا ہے جو جانور ہریالی بے اعتدالی سے کھا جاتے ہیں وہ بیمار بھی ہو جاتے ہیں دنیا کا یہی حال ہے یہاں اعتدال ہر حال میں ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6427
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6427
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتدال کے ساتھ گھاس چرنے والے حیوان کی مثال دے کر اعتدال پسندی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور جو جانور بے اعتدالی سے اس گھاس کو کھاتا ہے وہ بدہضمی سے ہلاک ہوتا ہے یا بیماری اسے دبوچ لیتی ہے۔
دنیا کے مال و متاع کی بھی یہی مثال ہے۔
یہاں بھی ہر حال میں اعتدال اور میانہ روی بہت ضروری ہے۔
(2)
قرآن کریم میں ہے:
”یہ مال و اولاد تو محض دنیوی زندگی کی زینت ہیں اور آپ کے پروردگار کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ہی ثواب کے لحاظ سے اور اچھی امیدیں لگانے کے اعتبار سے بہت بہتر ہیں۔
“ (الکھف: 46)
اس کا مطلب یہ ہے کہ مال و اولاد انسان کے لیے دلچسپی کا سامان ضرور ہیں لیکن ان چیزوں پر ایسا فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور اخروی زندگی کو ہی فراموش کر کے صرف انہی چیزوں کو اپنا مقصود زندگی بنا لے بلکہ ان چیزوں کو اللہ کے راستے میں لگا کر اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا:
''جو شخص اللہ سے ڈرے، اس کے لیے مال داری میں کوئی حرج نہیں، صحت مندی صاحب تقویٰ کے لیے دولت مندی سے بھی بہتر ہے اور خوش دلی بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔
'' (مسند أحمد: 372/5)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دولت مندی اور مال داری اگر تقویٰ کے ساتھ ہو تو اس میں دین کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو بھی یہی دولت، جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت مندی کے ساتھ فکر آخرت اور اتباع شریعت کی توفیق بہت ہی کم لوگوں کو ملتی ہے، اکثر لوگ دولت کے نشے میں بہک جاتے ہیں۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6427