صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
6. بَابُ الْعَمَلِ الَّذِي يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ:
باب: ایسا کام جس سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہو۔
حدیث نمبر: 6424
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:" مَا لِعَبْدِي الْمُؤْمِنِ عِنْدِي جَزَاءٌ إِذَا قَبَضْتُ صَفِيَّهُ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا ثُمَّ احْتَسَبَهُ، إِلَّا الْجَنَّةُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس مومن بندے کا جس کی، میں کوئی عزیز چیز دنیا سے اٹھا لوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کر لے، تو اس کا بدلہ میرے یہاں جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6424 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6424
حدیث حاشیہ:
مراد وہ بندہ ہے جس کا کوئی پیارا بچہ فوت ہو جائے اور وہ صبر کرے تو یقینا اس کے لئے وہ بچہ شفاعت کرے گا۔
مگر دنیا میں ایسا کون ہے جسے یہ صدمہ پیش نہ آتا ہو۔
إلا ماشاء اللہ۔
اللہ مجھ کو بھی صبر کی توفیق دے آمین (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6424
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6424
حدیث حاشیہ:
(1)
بندۂ مومن کے ہر کام میں ثواب کی امید کی جا سکتی ہے بشرطیکہ طلب ثواب کی نیت ہو۔
اس نیت کو شریعت نے احتساب کا نام دیا ہے، بلکہ ہر مصیبت اور پریشانی میں اگر ثواب کی نیت سے صبر کیا جائے تو اس میں بھی ثواب کا وعدہ ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔
(2)
واضح رہے کہ حدیث میں ''محبوب چیز'' سے مراد عام ہے، خواہ کوئی پیارا بچہ ہو یا اور کوئی پیاری چیز، اس بنا پر اگر کسی کا بچہ فوت ہو جائے یا اس کی بینائی جاتی رہے اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کرے تو اللہ تعالیٰ نے اسے جنت دینے کا وعدہ کیا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آتا تھا اور اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بیٹا بھی آیا کرتا تھا۔
چند دن وہ آپ کی مجلس سے غائب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت فرمایا؟ لوگوں نے بتایا کہ اس کا بیٹا فوت ہو گیا ہے، اس لیے وہ پریشان ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا اسے یہ بات پسند نہیں کہ وہ جنت کے کسی بھی دروازے کے پاس جائے تو اپنے بیٹے کو وہاں انتظار کرتا پائے؟“ یہ بشارت سن کر ایک آدمی نے کہا:
اللہ کے رسول! کیا یہ خوشخبری صرف اس آدمی کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا:
”تم سب کے لیے ہے۔
“ (مسند أحمد: 436/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6424