صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
18. بَابُ الأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَكَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمْعٍ:
باب: اگر کئی مسافر ہوں تو نماز کے لیے اذان دیں اور تکبیر بھی کہیں اور عرفات اور مزدلفہ میں بھی ایسا ہی کریں۔
حدیث نمبر: 632
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ: أَذَّنَ ابْنُ عُمَرَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ قَالَ: صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ، ثُمَّ يَقُولُ عَلَى إِثْرِهِ:" أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوِ الْمَطِيرَةِ فِي السَّفَرِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبیداللہ بن عمر عمری سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا «ألا صلوا في الرحال» کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی راتوں میں تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 632 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 632
حدیث حاشیہ:
کیونکہ ارشادباری ہے۔
ماجعل علیکم في الدین من حرج (الحج: 78)
دین میں تنگی نہیں ہے۔
ضجنان مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کا نام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 632
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 632
فائدہ:
اس سے پہلے حدیث (616) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت گزری ہے کہ انھوں نے جمعہ کے دن مؤزن کو «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» اور «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کی جگہ «اَلصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ» کہنے کا حکم دیا۔ زیر شرح حدیث میں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کو اذان کہنے کے بعد «أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ» کہنے کا حکم دیتے تھے۔ اس لیے دونوں طرح عمل جائز ہے، البتہ ابن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت پر عمل زیادہ جامع ہے، تا کہ جو «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» سن کر نماز کے لیے آنا چاہے آ جائے اور جو «أَلَا صَلَّوْا فِي الرِّحَالِ» سن کر نہ آنا چاہے نہ آئے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 632
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:632
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان کے آخری حصے کو ثابت کرنے کےلیے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
اب اس میں اختلاف ہے کہ اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھنے کا اعلان حي علی الصلاة کی جگہ یا اس کے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کیا کہا جائے؟ متقدمین کے ہاں اس کے متعلق تین موقف حسب ذیل ہیں:
٭حي علی الصلاة کی جگہ ان الفاظ کو کہا جائے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے مؤذن کو کہا کہ جب تو أشهد ان محمداً رسول الله کہے تو حي علی الصلاة مت کہنا بلکہ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کرنا۔
(صحیح البخاری، الجمعة، حدیث: 901)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کیچڑ کے دن خطبہ دینے کا ارادہ فرمایا، مؤذن جب حي علی الصلاة پر پہنچا تو اسے حکم دیا کہ وہ الصلاة في الرحال کے الفاظ کہے۔
(صحیح البخاري، الأذان،حدیث: 668)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ الصلاة في الرحال کے الفاظ حي علی الصلاة کی جگہ پر کہے جائیں۔
امام ابن خزیمہ ؒ نے ان الفاظ کے پیش نظر اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ بارش کہ دن حي علی الصلاة کے الفاظ حذف کردیے جائیں۔
ان حضرات نے جب اذان کے مفہوم پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حي علی الصلاة کہنے، پھر الصلاة في الرحال یا صلوا في بيوتكم کا اعلان کرنے میں بظاہر تضاد ہے، اس لیے حي علی الصلاة کے الفاظ حذف کر دیے جائیں۔
(فتح الباري: 130/2) (2)
حي علی الصلاة کے بعد یہ اعلان کیا جائے۔
اس کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ سخت سردی کی رات میں مؤذن نے اذان دی تو اس نے حي علی الصلاة کہنے کے بعد گھروں میں نماز پڑھنےکا اعلان کیا۔
(المصنف عبدالرزاق: 501/1) (3)
گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان اذان مکمل ہونے کے بعد کیا جائے۔
جیسا کہ مذکورہ روایت میں حضرت ابن عمر ؓ نے اس امر کی صراحت کی ہے تاکہ اذان کا نظم متاثر نہ ہو۔
ہمارے نزدیک راجح آخری موقف ہے کہ اذان کی تکمیل کے بعد گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کیا جائے، کیونکہ ان الفاظ سے اگر کوئی فائدہ اٹھا کر گھر میں نماز پڑھنا چاہے تو اس کےلیے رخصت ہے اور اگر حي علی الصلاة کے پیش نطر تکلیف برداشت کرکے مسجد میں آتا ہے تو اس کے لیے یقیناً یہ امر باعث اجرو ثواب ہوگا۔
اس سلسلے میں حضرت جابر ؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر میں نکلے تو بارش ہونے لگی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اگر کوئی خیمے میں نماز پڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔
“ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1603(698)
(4)
حدیث میں سفر کا ذکر اتفاقی ہے۔
اگر ایسے حالات حضر میں پیدا ہو جائیں تو عام حالات میں بھی مذکورہ اعلان کیا جاسکتا ہے تاکہ لوگوں کو سہولت رہے اور مسجد میں آنے کی تکلیف سے محفوظ رہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 632
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 75
´دوران بارش اذان کیسے کہی جائے`
«. . . وبه: ان ابن عمر اذن بالصلاة فى ليلة ذات برد وريح، فقال: الا صلوا فى الرحال، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يامر المؤذن إذا كانت ليلة باردة ذات مطر، يقول: ”الا صلوا فى الرحال . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (نافع تابعی سے) روایت ہے کہ ایک ٹھنڈی اور (تیز) ہوا والی رات سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اذان دی تو فرمایا: «ألا صلوا فى الرحال» سن لو! اپنے ڈیروں (گھروں) میں نماز پڑھو، پھر فرمایا: جب بارش والی ٹھنڈی رات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ کہے: «ألا صلوا فى الرحال» سن لو! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھو . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 75]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 666، ومسلم 697، من حديث مالك به]
تفقه:
① جب بارش ہو رہی ہو یا سخت سرد ہوا چل رہی ہو تو نماز باجماعت کے لئے مسجد میں جانا ضروری نہیں ہے۔
② بارش والے دن اذان کے بعد یہ اعلان کرنا جائز ہے کہ «صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ» لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔
③ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سفر میں اقامت کے علاوہ کچھ (اذان) نہیں کہتے تھے سواۓ صبح کے، وہ صبح کی اذان اور اقامت دونوں کہتے تھے اور فرماتے: اذان تو اس امام کے لئے ہوتی ہے جس کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ [الموطا 73/1 ح188، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ اذان کے بغیر اور صرف اقامت کے ساتھ بھی نماز باجماعت ہو جاتی ہے۔ اگر شرعی عذر نہ ہو تو سفر میں بھی اذان بہتر ہے۔ شہر اور گاؤں میں اذان اسلام کا شعار ہے۔
④ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے کہا: اگر تم سفر میں ہو تو تمہاری مرضی ہے کہ اذان اور اقامت کہو یا صرف اقامت کہہ دو اور اذان نہ دو۔ [الموطأ 1/73 ح156، وسنده صحيح]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سواری پر اذان دینا جائز ہے۔ [الموطأ 74/1]
➎ سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے تھے: جو شخص بیاباں علاقے میں نماز پڑھے تو اس کی دائیں طرف ایک فرشتہ اور بائیں طرف ایک فرشتہ نماز پڑھتا ہے۔ اگر وہ اذان اور اقامت کہے یا (صرف) اقامت کہے تو پہاڑوں جتنے (بہت زیادہ) فرشتے اس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ [الموطا 74/1 ح 157، وسنده صحيح]
➏ ابراہیم نخعی نے کہا: بغیر وضو اذان دینا جائز ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 211/1 ح 2188، 2189 وهو صحيح]
⑦ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز ہو چکی تھی تو وہ اقامت کہنے لگا-اسے عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے کہا: اقامت نہ کہو کیونکہ ہم نے اقامت کہہ دی ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 221/1ح2305وسندحسن]
⑧ مشہور تابعی اور مفسرِ قرآن امام مجاہد نے فرمایا: اگر تم اپنے گھر میں اقامت سن لو اور چاہو تو تمہارے لئے یہ کافی ہے۔ [ابن ابي شيبه 1/220 ح2296 وسنده حسن]
معلوم ہوا کہ انفرادی نماز اذان اور اقامت کے بغیر بھی جائز ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 198
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 655
´بارش کی رات میں جماعت میں نہ آنے کے لیے اذان کے طریقہ کا بیان۔`
نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ایک سرد اور ہوا والی رات میں نماز کے لیے اذان دی، تو انہوں نے کہا: «ألا صلوا في الرحال» ”لوگو سنو! (اپنے) گھروں میں نماز پڑھ لو“ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سرد بارش والی رات ہوتی تو مؤذن کو حکم دیتے تو وہ کہتا: «ألا صلوا في الرحال» ”لوگو سنو! (اپنے) گھروں میں نماز پڑھ لو۔“ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 655]
655 ۔ اردو حاشیہ: ”گھروں میں نماز پڑھ لو۔“ کے اعلان سے معلوم ہوا کہ بارش وغیرہ میں دو نمازوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے یہ اعلان کر دینا زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کرنے کی بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی رخصت عنایت فرما دی ہے، پھر جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگرچہ بعض روایات کے مفہوم «مِنْ غيرِ خوفٍ ولا مطَرٍ» اور بعض صحابہ سے ایسے موقع پر جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جس سے اس کے جواز میں شک نہیں رہتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے موقع پر جمع کرنے کی بجائے رخصت کے اعلان ہی کا ثبوت ملتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 655
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1060
´سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان۔`
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما وادی ضجنان میں ایک سرد رات میں اترے اور منادی کو حکم دیا اور اس نے آواز لگائی: لوگو! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، ایوب کہتے ہیں: اور ہم سے نافع نے عبداللہ بن عمر کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سردی یا بارش کی رات ہوتی تو منادی کو حکم دیتے تو وہ «الصلاة في الرحال» ”لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو“ کا اعلان کرتا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1060]
1060. اردو حاشیہ:
ایسا اعلان کر دینا مسنون ہے اور نمازیوں کے لئے مسجد میں نہ آنے کی رخصت ہے، لیکن اگر کوئی آنا چاہے تو اس کے لئے فضیلت ہے۔ جیسے آئندہ احادیث سے واضح ہو گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1060
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1061
´سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے وادی ضجنان میں نماز کے لیے اذان دی، پھر اعلان کیا کہ لوگو! تم لوگ اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، اس میں ہے کہ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نقل کی کہ آپ سفر میں سردی یا بارش کی رات میں منادی کو حکم فرماتے تو وہ نماز کے لیے اذان دیتا پھر وہ اعلان کرتا کہ لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن سلمہ نے ایوب اور عبیداللہ سے روایت کیا ہے اس میں «في الليلة الباردة وفي الليلة المطيرة في السفر» کے بجائے «في السفر في الليلة القرة أو المطيرة» کے الفاظ ہیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1061]
1061۔ اردو حاشیہ:
اکثر روایات میں گھروں میں نماز پڑھنے کے اعلان کا تعلق سفر سے بتلایا گیا ہے، لیکن بعض روایات میں مطلقاً بھی آیا ہے۔ اس اعتبار سے اس اعلان کا تعلق سفر سے نہیں ہے بلکہ مطلق ہے۔ یعنی ہر جگہ حسب ضرورت اذان میں مذکورہ الفاظ کے ذریعے سے گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1061
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:666
666. حضرت نافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرد اور تیز آندھی کی رات کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اذان دی، پھر کہا: لوگو! اپنے اپنے گھر میں نماز پڑھ لو۔ اس کے بعد فرمایا: جب کبھی شب بادو باراں کا سامنا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ (ألا صلوا فى الرحال) کہہ دے، یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لینے کا اعلان کر دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:666]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے پہلے حدیث: 616 میں گزرا ہے کہ (اَلَا صلوا في الرحال)
کے الفاظ اذان کے دوران میں کہے گئے جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اذان مکمل کہنے کہ بعد یہ الفاظ اداکیے۔
ان دونوں روایات سے پتا چلتا ہے کہ (اَلَا صلوا في الرحال)
کے الفاظ کہنے میں توسع ہے، یعنی دوران اذان میں بھی کہے جاسکتے ہیں اور اذان مکمل ہونے کہ بعد بھی یہ الفاظ کہنے کی گنجائش ہے۔
(شرح الکرمانی: 2/53)
علامہ عینی ابن حبان کے حوالے سے لکھا ہے کہ مختلف احادیث کے پیش نظر دس عذر ایسے ہیں جو نماز باجماعت میں شرکت کرنے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ شدید بیماری٭ کھانے کا سامنے آجانا، جب بھوک لگی ہو٭ سہوونسیان٭ غیر معمولی فربہی، یعنی موٹاپا٭تقاضائے بول و براز٭ راستہ میں مال وجان کا خطرہ٭سخت سردی٭ تکلیف دہ بارش٭ زیادہ تاریکی جس میں آنا جانا دشوار ہو٭لہسن، پیاز، اور مولی وغیرہ کا استعمال جس سے ناگوار بو آتی ہو۔
(عمدۃ القاری: 4/274) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 666