Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ
کتاب: دعاؤں کے بیان میں
44. بَابُ الاِسْتِعَاذَةِ مِنْ أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَفِتْنَةِ النَّارِ:
باب: ناکارہ عمر، دنیا کی آزمائش اور دوزخ کی آزمائش سے اللہ کی پناہ مانگنا۔
حدیث نمبر: 6375
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَالْهَرَمِ، وَالْمَغْرَمِ، وَالْمَأْثَمِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے کہا «اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والمغرم والمأثم،‏‏‏‏ اللهم إني أعوذ بك من عذاب النار وفتنة النار وعذاب القبر،‏‏‏‏ وشر فتنة الغنى،‏‏‏‏ وشر فتنة الفقر،‏‏‏‏ ومن شر فتنة المسيح الدجال،‏‏‏‏ اللهم اغسل خطاياى بماء الثلج والبرد،‏‏‏‏ ونق قلبي من الخطايا،‏‏‏‏ كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس،‏‏‏‏ وباعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، ناکارہ عمر سے، بڑھاپے سے، قرض سے اور گناہ سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے عذاب سے، دوزخ کی آزمائش سے، قبر کے عذاب سے، مالداری کی بری آزمائش سے، محتاجی کی بری آزمائش سے اور مسیح دجال کی بری آزمائش سے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے پاک کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل سے صاف کر دیا جاتا ہے اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دے جتنا فاصلہ مشرق و مغرب میں ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6375 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6375  
حدیث حاشیہ:
اس دعا میں عذاب جہنم کے ساتھ فتنۂ جہنم سے اور عذاب قبر کے ساتھ فتنۂ قبر سے بھی پناہ مانگی گئی ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق عذاب جہنم سے مراد دوزخ کا ہر وہ عذاب ہے جو ان لوگوں کو ہو گا جو کفروشرک جیسے سنگین جرائم کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
اسی طرح عذاب قبر سے مراد وہ عذاب ہے جو اس طرح کے بڑے بڑے مجرموں کو قبر میں ہو گا لیکن ان سے کم درجے کے جو مجرم ہوں گے، انہیں اگرچہ اہل جہنم کی طرح دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا اور قبر میں بھی ان پر درجۂ اول کے مجرموں کی طرح سخت عذاب مسلط نہیں کیا جائے گا، تاہم دوزخ اور قبر کی تکالیف سے انہیں بھی گزرنا ہوگا، یہی سزا ان کے لیے کافی ہو گی۔
فتنۂ جہنم اور فتنۂ قبر سے مراد یہی سزا ہے، تاہم رسول اللہ نے عذاب جہنم اور عذاب قبر کے ساتھ فتنۂ جہنم اور فتنۂ قبر سے بھی پناہ مانگی ہے اور اپنے اس عمل سے ہمیں بھی اس کی تلقین کی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6375   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6368  
6368. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کاہلی بڑھاپے ہر گناہ اور قرضے کے بوجھ سے قبر کے فتنے اور قبر کے عذاب سے، نیز دوزخ کے فتنے اور دوزخ کے عذاب سے اور فتنہ ثروت کے شر سے۔ اور فتنہ مفلسی کے شر اور فتنہ دجال کے شرسے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ! اولے اور برف کے پانی سے میرے گناہوں کے اثرات دھو دے۔ اور گناہوں سے میرا دل صاف کر دے جس طرح تو سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کر دیتا ہے۔ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری ڈال دے جتنی دوری تو نے مشرق ومغرب کے درمیان کر دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6368]
حدیث حاشیہ:
(1)
ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مبنی ہو ماثم کہلاتا ہے جسے ہم گناہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پناہ طلب کرتے تھے اور اپنے عمل سے امت کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کرتے تھے۔
اس کے علاوہ ایسا قرض جسے اتارنے کی انسان ہمت نہ رکھتا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے قرضے سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ کسی نے پوچھا:
اللہ کے رسول! آپ اس قسم کے قرضے سے اکثر اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
جب انسان قرض لیتا ہے تو بات بات پر جھوٹ بولتا ہے اور جب بھی وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورز کرتا ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 832) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قرض کے متعلق سوال کرنے والی خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں جیسا کہ سنن نسائی کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(سنن النسائي، الاستعاذة، حدیث: 5474، و فتح الباري: 211/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6368