Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ
کتاب: دعاؤں کے بیان میں
19. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَصَلِّ عَلَيْهِمْ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ التوبہ میں) فرمان «وصل عليهم‏» ۔
حدیث نمبر: 6333
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرًا، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ"، وَهُوَ نُصُبٌ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ يُسَمَّى: الْكَعْبَةَ الْيَمَانِيَةَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَجُلٌ لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ، فَصَكَّ فِي صَدْرِي، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ، وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا"، قَالَ: فَخَرَجْتُ فِي خَمْسِينَ فَارِسًا مِنْ أَحْمَسَ مِنْ قَوْمِي، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: فَانْطَلَقْتُ فِي عُصْبَةٍ مِنْ قَوْمِي فَأَتَيْتُهَا فَأَحْرَقْتُهَا، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا أَتَيْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا مِثْلَ الْجَمَلِ الْأَجْرَبِ، فَدَعَا لِأَحْمَسَ، وَخَيْلِهَا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس نے کہ میں نے جریر بن عبداللہ بجلی سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ایسا مرد مجاہد ہے جو مجھ کو ذی الخلصہ بت سے آرام پہنچائے وہ ایک بت تھا جس کو جاہلیت میں لوگ پوجا کرتے تھے اور اس کو کعبہ کہا کرتے تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس خدمت کے لیے میں تیار ہوں لیکن میں گھوڑے پر ٹھیک جم کر بیٹھ نہیں سکتا ہوں آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ مبارک پھیر کر دعا فرمائی کہ اے اللہ! اسے ثابت قدمی عطا فرما اور اس کو ہدایت کرنے والا اور نور ہدایت پانے والا بنا۔ جریر نے کہا کہ پھر میں اپنی قوم احمس کے پچاس آدمی لے کر نکلا اور ابی سفیان نے یوں نقل کیا کہ میں اپنی قوم کی ایک جماعت لے کر نکلا اور میں وہاں گیا اور اسے جلا دیا پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں آپ کے پاس نہیں آیا جب تک میں نے اسے جلے ہوئے خارش زدہ اونٹ کی طرح سیاہ نہ کر دیا۔ پس آپ نے قبیلہ احمس اور اس کے گھوڑوں کے لیے دعا فرمائی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6333 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6333  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اس بت کو ختم کیا بلکہ وہاں کے مجاوروں کو بھی نیست و نابود کر کے زمین کو گندگی سے پاک کر دیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4355)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ احمس کی بہادری اور ان کے گھوڑوں کی جفاکشی کے پیش نظر ان کے لیے پانچ مرتبہ خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 3076) (2)
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جریر رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت قدمی کی دعا فرمائی، دعا کرتے وقت اپنی ذات کو دعا میں شریک نہیں فرمایا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی بابت کو ثابت فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6333   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2772  
´جنگ میں فتح کی خوشخبری دینے والوں کو بھیجنے کا بیان۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے ذو الخلصہ ۱؎ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟ ۲؎، یہ سن کر جریر رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور اسے جلا دیا پھر انہوں نے قبیلہ احمس کے ایک آدمی کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کو اس کی خوشخبری دیدے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2772]
فوائد ومسائل:

بنو خشعم نے اپنا ایک معبد بنا رکھا تھا۔
جسے وہ (الکعبة الیمانیة) کہتے تھے۔
اس گھرکا نام (خلصہ) اور بت کا نام (ذوالخلصہ) رکھا ہوا تھا۔
حضرت جریر فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور یہ مہم سر کی۔


کسی اہم واقعے کی خوشخبری بھیجنا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ اس میں اپنے کردار کا لوگوں کو سنانا اور دکھلانا مقصود نہ ہو بلکہ اسلام کی سر بلندی کی اطلاع دینا مقصود ہویا مسلمانوں کا بڑھاوا اور ان کی حوصلہ افزائی مقصود ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2772   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث159  
´جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا، اور جب بھی مجھے دیکھا میرے روبرو مسکرائے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر ٹک نہیں پاتا (گر جاتا ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پہ مارا اور دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو ثابت رکھ اور اسے ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 159]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ دراز قد، خوبصورت اور خوش شکل تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں اس امت کا یوسف کہا کرتے تھے۔

(2)
حاضر ہونے سے منع نہیں فرمایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے یا کسی خاص مجلس میں رونق افروز ہوتے تھے اگر میں حاضری کی اجازت چاہتا تو مجھے ضرور اجازت مل جاتی تھی۔
کبھی حاضری سے منع نہیں کیا گیا، یعنی حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی قرب حاصل تھا۔

(3)
ملاقات کے وقت مسکرانا خوشی کا مظہر ہے، جو محبت کی علامت ہے کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ملاقات سے خوشی ہوتی ہے، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی اور خندہ پیشانی کی عادتِ مبارکہ بھی معلوم ہوتی ہے۔

(4)
گھوڑ سواری ایک فن ہے جس کا حصول ایک مجاہد کے لیے بہت ضروری ہے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو یہ شکایت تھی کہ گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے تھے، گرنے کا خطرہ محسوس کرتے تھے، اس لیے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔
کسی بزرگ ہستی کو اپنی کسی کمزوری سے آگاہ کرنا درست ہے تاکہ کوئی مناسب مشورہ حاصل ہو یا دعا ہی مل جائے۔

(5)
جب کسی بزرگ سے دعا کی درخواست کی جائے تو اسے چاہیے کہ دعا کر دے، انکار نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 159   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:818  
818- سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مجھے دیکھتے تھے، تو مجھے دیکھ کر مسکر ادیتے تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:818]
فائدہ:
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکرانے کا ذکر ہے۔ اسلام نے زیادہ ہنسنے کو پسند نہیں کیا بلکہ قرآن کریم میں ہے:
انھیں چاہیے کہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ۔ (التوبہ: 82)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 820   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6365  
حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، زمانہ جاہلیت میں ایک عبادت گاہ تھی جس کو ذوالخلصہ کہتے تھے اور اس کو کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ بھی کہا جا تا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فر یا:" کیا تم مجھے ذوالخلصہ کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ کی اذیت سے راحت دلا ؤ گے؟"تو میں قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو جوانوں کے ساتھ اس کی طرف گیا۔ہم نے اس بت خانے کو تو ڑ دیا اور جن لو گوں کو وہاں پا یا ان سب کو قتل کر دیا پھر میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6365]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ذوالخلصه نامی بت کدہ یمن میں واقع تھا،
اس لیے اس کو اس کے پرستار کعبہ یمانیہ کا نام دیتے تھے اور اس کا ایک دروازہ شام کی طرف تھا،
اس لیے اس کو کعبہ شامیہ کا نام بھی دیتے تھے،
حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کی معیت میں اس کو توڑ پھوڑ کر جلا دیا تھا اور اس کو خارشی اونٹ کی طرح جسے تارکول ملایا جاتا ہے،
کوئلہ بنا دیا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6365   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3020  
3020. حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت کیوں نہیں دیتے؟ یہ قبیلہ خشعم میں ایک گھر تھا جس کو کعبہ یمانیہ کہاجاتا تھا۔ حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں آپ کا فرمان سن کر قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کے ہمراہ چلا جن کے پاس گھوڑے تھے، لیکن میرا پاؤں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس سے میں نے آپ کي انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے اور آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ!اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔ الغرض حضرت جریر ؓوہاں گئے اور اس بت کوتوڑ کر جلادیا، پھر رسول اللہ ﷺ کو ایک آدمی کے ذریعے سے اس کی اطلاع دی۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے بیان کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں آپ کے پاس اس وقت آیا ہوں جبکہ وہ بت خالی پیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3020]
حدیث حاشیہ:
ذی الخلصہ نامی بت خانہ حربی کافروں کا مندر تھا‘ جہاں وہ جمع ہوتے‘ اور اسلام کی نہ صرف توہین کرتے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی مختلف تدابیر سوچا کرتے تھے۔
اس لئے آنحضرتﷺ نے اسے ختم کرا کر ایک فساد کے مرکز کو ختم کرا دیا تاکہ عام مسلمان سکون حاصل کرسکیں۔
ذمی کافروں کے عبادت خانے مسلمانوں کی حفاظت میں آجاتے ہیں۔
لہٰذا ان کے لئے ہر دور میں اسلامی سربراہوں نے بڑے بڑے اوقاف مقرر کئے ہیں اور ان کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھا ہے جیسا کہ تاریخ شاہد ہے۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3020   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3036  
3036.۔(حضرت جریر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ) میں نے آپ کی خدمت میں شکایت کی کہ میں اپنے گھوڑے پر ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا تو آپ نے میرے سینے پر اپنا دست مبارک مارا اور دعا دی: اے اللہ!اسے گھوڑے پر جما دے اور اسے دوسروں کو سیدھا راستہ بتانے والا اور خود سیدھے راستے پر چلنے والا بنادے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3036]
حدیث حاشیہ:
مجاہد کے لئے دعا کرنا ثابت ہوا۔
کسی بھی اس کی حاجت سے متعلق ہو۔
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ گھوڑے کی سواری میں پختہ نہیں تھے۔
اللہ نے اپنے حبیب کی دعا سے ان کی اس کمزوری کو دور کردیا۔
یہی بزرگ صحابی ہیں جنہوں نے یمن کے بت خانہ ذی الخلصہ کو ختم کیا تھا جو یمن میں کعبہ شریف کے مقابلہ پر بنایا گیا تھا۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3036   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3076  
3076. حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ذی الخلصہ کو تباہ کرکے مجھے کیوں خوش نہیں کرتے ہو؟ یہ قبیلہ خشعم کا بت کدہ تھا جسے کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا، چنانچہ میں(قبیلے) احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر تیار ہوگیا اور یہ سب بہترین شہسوار تھے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ میں گھوڑے پر اچھی طرح جم کر بیٹھ نہیں سکتا تو آپ نے میرے سینے پر تھپکا دیا حتیٰ کہ میں نے آپ کی انگلیوں کا اثر اپنے سینے میں پایا۔ پھر آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔ اس کے بعد جریر ؓ روانہ ہوئے اور اسے تباہ وبرباد کرکے آگ میں جلادیا۔ پھر نبی کریم ﷺ کو خوشخبری دینے کے لیے آپ کی طرف قاصد روانہ کیا۔ جریر ؓ کے قاصد نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3076]
حدیث حاشیہ:
خارش زدہ اونٹ بال وغیرہ جھڑ کر کالا اور دبلا پڑ جاتا ہے۔
اسی طرح ذی الخلصہ جل بھن کر چھت وغیرہ گر کر کالا پڑ گیا تھا۔
باب کا مطلب اس طرح نکلا کہ جریر ؓنے کام پورا کر کے آپ ﷺکو خوش خبری بھیجی۔
فساد اور بد امنی کے مراکز کو ختم کرنا‘ قیام امن کے لئے ضروری ہے۔
خواہ وہ مراکز مذہب ہی کے نام پر بنائے جائیں۔
جیسا کہ آنحضرتﷺ نے مدینہ میں ایک مسجد کو بھی گرا دیا جو مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3076   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3823  
3823. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں ذوالخلصہ نامی ایک بت کدہ تھا، جسے الكعبة اليمانية یا الكعبة الشاميه بھی کہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم ذوالخلصہ کی طرف سے مجھے آرام پہنچا سکتے ہو؟ حضرت جریر ؓ نے کہا کہ میں قبیلہ احمس سے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر وہاں گیا اور ہم نے اسے زمین بوس کر دیا، نیز جسے وہاں پایا اسے قتل کر دیا۔ پھر ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حالات بیان کیے تو آپ نے ہمارے لیے اور قبیلہ احمس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3823]
حدیث حاشیہ:
حضرت جریربن عبداللہ بجلی ؓ بہت ہی بڑے بہادرانسان تھے دل میں توحید کا جذبہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی منشا پا کر ذی الخلصہ نامی بت کدے کو قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کے ساتھ مسمارکر دیا، آنحضرت ﷺ نے ان مجاہدین کے لیے بہت بہت دعائے خیر و برکت فرمائی، اس بت کدے کو معاندین اسلام نے اپنا مرکزبنا رکھا تھا، اس لیے اس کا ختم کرنا ضروری ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3823   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4355  
4355. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک گھر تھا جسے ذوالخلصہ، کعبی یمانیہ اور کعبہ شامیہ کہا جاتا تھا۔ نبی ﷺ نے مجھے فرمایا: "کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟" میں ایک سو پچاس سوار لے کر گیا۔ اسے ہم نے توڑ پھوڑ دیا اور اس کے مجاوروں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے ہمارے اور قبیلہ حمس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4355]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں یوں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ کے سر پر ہاتھ رکھا اور منہ اور سینے پر زیرناف تک پھیر دیا پھر سر پر ہاتھ رکھا اور پیٹھ پر سرین تک پھیرا یا سینے پر خاص طور سے ہاتھ پھیرا۔
ان پاکیزہ دعاؤ ں کا یہ اثر ہوا کہ حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ ایک بہترین شہسوار بن کر اس مہم پر روانہ ہوئے اور کا میابی سے واپس آئے۔
آپ نے اس بت خانے کے بارے میں جو فرمایا ا س کی وجہ یہ تھی کہ وہاںکفار ومشرکین اسلام کے خلاف سازشیں کرتے، رسول کریم ﷺ کی ایذارسانی کی تدابیر سوچتے اور کعبہ مقدس کی تنقیص کرتے اور ہر طرح سے اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے، لہذاقیام امن کے لیے اس کا ختم کرنا ضروری ہوا۔
حالت امن میں کسی قوم ومذہب کی عبادت گاہ کو اسلام نے مسمار کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں ذمی یہود اور نصاری کے گرجاؤں کو محفوظ رکھا اور ہندو ستان میں مسلمان بادشاہوں نے اس ملک کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی اور ان کے لیے جاگیریں وقف کی ہیں۔
جیساکہ تاریخ شاہد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4355   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4356  
4356. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے نبی ﷺ نے فرمایا: کیا تم ذوالخلصہ کو اجاڑ کر مجھے سکون نہیں پہنچاتے؟ ذوالخلصہ، قبیلہ خثعم میں ایک بت خانہ تھا جسے وہ کعبہ یمانیہ کے نام سے پکارتے تھے۔ میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سوار لے کر چل پڑا۔ وہ لوگ گھوڑوں والے تھے اور میں گھوڑے پر نہی ٹھہر سکتا تھا۔ آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا تو میں نے آپ کی انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے۔ آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے گھوڑے پر ثابت رکھ، نیز اسے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنا دے۔ چنانچہ انہوں نے وہاں جا کر ذوالخلصہ کو توڑا اور اسے آگ لگا دی۔ اس کے بعد جریر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک قاصد روانہ کیا۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے! میں آپ کے پاس جب آیا ہوں تو اس وقت بت خانہ کو توڑ کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4356]
حدیث حاشیہ:
خارش زدہ اونٹ پر ڈامر وغیرہ ملتے ہیں تو اس پر کالے کالے دھبے پڑجاتے ہیں۔
جل بھن کر، بالکل یہی حال ذی الخلصہ کا ہوگیا۔
ذی الخلصہ والے اسلام کے حریف بن کر ہر وقت مخالفانہ سازشیں کرتے رہتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4356   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4357  
4357. حضرت جریر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے راحت نہیں پہنچاتے؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں، ضرور پہنچاتا ہوں، چنانچہ میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر روانہ ہوا۔ وہ سب گھوڑوں پر سوار تھے جبکہ میں گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتا تھا۔ میں نے نبی ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا حتی کہ میں نے اس کے اثرات اپنے سینے میں محسوس کیے۔ پھر آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے ثابت رکھ اور اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔ اس کے بعد میں کبھی گھوڑے سے نہیں گرا۔ واضح رہے کہ ذوالخلصہ یمن میں قبیلہ خثعم اور بجیلہ کا ایک گھر تھا جس میں بت نصب تھے جن کی عبادت کی جاتی تھی۔ اسے کعبہ کہا جاتا تھا۔ حضرت جریر ؓ نے اسے آگ لگا دی اور گرا دیا۔ جب حضرت جریر ؓ یمن پہنچے تو وہاں ایک شخص تیروں کے ذریعے سے فال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4357]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وَفِي الْحَدِيثِ مَشْرُوعِيَّةُ إِزَالَةِ مَا يُفْتَتَنُ بِهِ النَّاسُ مِنْ بِنَاءٍ وَغَيْرِهِ سَوَاءً كَانَ إِنْسَانًا أَوْ حَيَوَانًا أَوْ جَمَادًا وَفِيهِ اسْتِمَالَةُ نُفُوسِ الْقَوْمِ بِتَأْمِيرِ مَنْ هُوَ مِنْهُمْ وَالِاسْتِمَالَةُ بِالدُّعَاءِ وَالثَّنَاءِ وَالْبِشَارَةِ فِي الْفُتُوحِ وَفَضْلُ رُكُوبِ الْخَيْلِ فِي الْحَرْبِ وَقَبُولُ خَبَرِ الْوَاحِدِ وَالْمُبَالَغَةُ فِي نِكَايَةِ الْعَدُوِّ وَمَنَاقِبُ لِجَرِيرٍ وَلِقَوْمِهِ وَبَرَكَةُ يَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدُعَائِهِ وَأَنَّهُ كَانَ يَدْعُو وِتْرًا وَقَدْ يُجَاوِزُ الثَّلَاثَ الخ (فتح الباري)
یعنی حدیث ہذا سے ثابت ہوا کہ جو چیزیں لوگوں کی گمراہی کا سبب بنیں وہ مکان ہوں یا کوئی انسان ہویا حیوان ہو یا کوئی جمادات سے ہو، شرعی طور پر ان کا زائل کر دینا جائز ہے۔
اوریہ بھی ثابت ہوا کہ کسی قوم کی دلجوئی کے لیے امیر قوم خود ان ہی میں سے بنانا بہتر ہے اور فتوحات کے نتیجہ میں دعا کر نا، بشارت دینا اور مجاہدین کی تعریف کرنا بھی جائز ہے اور جنگ میں گھوڑے کی سواری کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور رسول کریم ﷺ کے دست مبارک کی اور آپ کی دعاؤں کی برکت بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ آپ دعاؤں میں بھی وتر کا خیا ل رکھتے اور کبھی تین سے زیا دہ بار بھی دعا فرمایا کرتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4357   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6090  
6090. (حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ) میں نے آپ ﷺ سے شکایت کی میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ آپ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سینے پر مارا اور دعا فرمایا: اے اللہ! اسے ثابت قدم رکھ اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6090]
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بت خانہ ڈھانے کے لئے بھیجا تھا، اس وقت انہوں نے گھوڑے پر اپنے نہ جم سکنے کی دعا کی درخواست کی تھی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی تھی، روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کا ذکر ہے باب سے یہی مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6090   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3020  
3020. حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت کیوں نہیں دیتے؟ یہ قبیلہ خشعم میں ایک گھر تھا جس کو کعبہ یمانیہ کہاجاتا تھا۔ حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں آپ کا فرمان سن کر قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کے ہمراہ چلا جن کے پاس گھوڑے تھے، لیکن میرا پاؤں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس سے میں نے آپ کي انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے اور آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ!اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔ الغرض حضرت جریر ؓوہاں گئے اور اس بت کوتوڑ کر جلادیا، پھر رسول اللہ ﷺ کو ایک آدمی کے ذریعے سے اس کی اطلاع دی۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے بیان کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں آپ کے پاس اس وقت آیا ہوں جبکہ وہ بت خالی پیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3020]
حدیث حاشیہ:
مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ کفار و مشرکین کی قوت کو ہرطرح سے کمزور کریں۔
ان کے رعب و دبدبے اور ان کی طاقت کو کمزور کرکے مسلمانوں کے لیے کامیابی کا راستہ آستان کریں۔
ان پر ہر قسم کی تنگی کرکے انھیں تباہ و برباد کردیا جائے۔
جب دشمن کا اخراج کسی اور طریقے سے ممکن نہ ہو تو ان کے مکانات گرادینے اور باغات جلادینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ بعض صحابہ کرام ؓسے باغات جلانے کی کراہت منقول ہے۔
شاید انھیں قرائن سے ان کے فتح ہونے کا یقین ہوگیا ہو،اس لیے انھوں نے مکانات وباغات کوتباہ کرنا اچھاخیال نہ کیاتاکہ وہ مسلمانوں کے کام آسکیں۔
(عمدةالقاري: 342/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3020   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3036  
3036.۔(حضرت جریر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ) میں نے آپ کی خدمت میں شکایت کی کہ میں اپنے گھوڑے پر ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا تو آپ نے میرے سینے پر اپنا دست مبارک مارا اور دعا دی: اے اللہ!اسے گھوڑے پر جما دے اور اسے دوسروں کو سیدھا راستہ بتانے والا اور خود سیدھے راستے پر چلنے والا بنادے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3036]
حدیث حاشیہ:

حضرت جریربن عبداللہ ؓاپنی قوم کے ذی وجاہت سردارتھے،اس لیے رسول اللہ ﷺ ان کا اکرام کرتے اور انھیں ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔
اس طرح ملنے سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ گھڑ سواری میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔

اس حدیث سے مجاہد کی کسی بھی حاجت کے لیے دعا کرنا ثابت ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ گھوڑے کی سواری میں پختہ کار نہیں تھے،اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی دعا سے اس کمزوری کو دور کردیا،پھر انھوں نے یمن کے بت خانے کو خاکستر کیا جو کعبے کے مقابلے میں بنایا گیاتھا۔
۔
۔
رضي اللہ تعالیٰ عنه۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3036   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3076  
3076. حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ذی الخلصہ کو تباہ کرکے مجھے کیوں خوش نہیں کرتے ہو؟ یہ قبیلہ خشعم کا بت کدہ تھا جسے کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا، چنانچہ میں(قبیلے) احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر تیار ہوگیا اور یہ سب بہترین شہسوار تھے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ میں گھوڑے پر اچھی طرح جم کر بیٹھ نہیں سکتا تو آپ نے میرے سینے پر تھپکا دیا حتیٰ کہ میں نے آپ کی انگلیوں کا اثر اپنے سینے میں پایا۔ پھر آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔ اس کے بعد جریر ؓ روانہ ہوئے اور اسے تباہ وبرباد کرکے آگ میں جلادیا۔ پھر نبی کریم ﷺ کو خوشخبری دینے کے لیے آپ کی طرف قاصد روانہ کیا۔ جریر ؓ کے قاصد نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3076]
حدیث حاشیہ:

حضرت جرید بن عبداللہ ؓنے اس بت کدے کو جلا دیا۔
اس کے بعدانھوں نے رسول اللہ ﷺ کو خوشخبری بھیجی کہ ہم نے اس کا کام تمام کردیاہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ فساد اور بدامنی کے مراکز ختم کرنا قیام امن کے لیے بہت ضروری ہے،خواہ وہ مراکز مذہب کے نام پر ہی کیوں نہ بنائے گئے ہوں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے نواح میں ایک مسجد کو بھی گرادینے کا حکم دیا تھا جومسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ صاحب اختیار حاکم بھی تھے،اس لیے آپ نے ایسی کاروائیاں کرنے کا حکم دیا۔

اس دور میں ہمیں ان واقعات کی آڑ میں مزارات اور بت کدوں کو گرانے کی اجازت نہیں کیونکہ اس سے فساد پھیلنے کااندیشہ ہے،تاہم اگرحکومت یہ کام کرے تو درست ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3076   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3823  
3823. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں ذوالخلصہ نامی ایک بت کدہ تھا، جسے الكعبة اليمانية یا الكعبة الشاميه بھی کہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم ذوالخلصہ کی طرف سے مجھے آرام پہنچا سکتے ہو؟ حضرت جریر ؓ نے کہا کہ میں قبیلہ احمس سے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر وہاں گیا اور ہم نے اسے زمین بوس کر دیا، نیز جسے وہاں پایا اسے قتل کر دیا۔ پھر ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حالات بیان کیے تو آپ نے ہمارے لیے اور قبیلہ احمس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3823]
حدیث حاشیہ:

یمن میں خشعم قبیلے کا یہ بت کدہ ذوالخلصہ کے نام سے مشہور تھا اور مخالفین اسلام نے اسے اپنی منفی سرگرمیوں کے لیے مرکز کی حیثیت دے رکھی تھی، اس لیے اسے ختم کرنا بہت ضروری تھا۔

حضرت جریر بن عبداللہ ؓ بہت ہی بہادر انسان تھے، دل میں توحید کا جذبہ موجزن تھا۔
رسول اللہ ﷺ کی منشا پاکر انھوں نے قبیلہ احمس کے سرداروں کو ساتھ لے کر اسے زمین بوس کردیا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے ڈھیروں دعائیں کیں۔

حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں گھوڑےپر نہیں بیٹھ سکتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارکردعا فرمائی:
اے اللہ! اسے ثابت قدم کردے،اسے ہدایت یافتہ اور دوسروں کو ہدایت دینے والا بتادے۔
اس واقعے کی مزید تفصیل حدیث 3020 میں دیکھی جاسکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3823   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4355  
4355. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک گھر تھا جسے ذوالخلصہ، کعبی یمانیہ اور کعبہ شامیہ کہا جاتا تھا۔ نبی ﷺ نے مجھے فرمایا: "کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟" میں ایک سو پچاس سوار لے کر گیا۔ اسے ہم نے توڑ پھوڑ دیا اور اس کے مجاوروں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے ہمارے اور قبیلہ حمس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4355]
حدیث حاشیہ:

قبیلہ خشعم کے لوگوں نے بیت اللہ کی طرز پر ایک بت خانہ تیا رکیا تھا جسے کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ کہا جاتاتھا۔
ذوالخلصہ، کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ یہ تینوں اس کےنام تھے۔
کعبہ یمانیہ اس لیے کہ اسے یمن میں تعمیر کیا گیا تھا اور کعبہ شامیہ اس لیے کہتے تھے کہ اس کا دروازہ شام کی طرف تھا جیسا کہ لاہور میں دہلی دروازے کا نام اس بناپر ہے کہ وہ انڈیا کے شہر دہلی کی طرف واقع ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے حضرت جریربن عبداللہ ؓ کو اسے توڑنے کے لیے مقرر فرمایا کیونکہ یہ بت خانہ ان کے علاقے میں تھا اوریہ اپنی قوم کے سردار تھے۔
ان کا تعلق قبیلہ بجیلہ سے تھا اور قبیلہ احمس ان کا حلیف تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے لیے دعا فرمائی۔
اس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔
ان شاء اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4355   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4356  
4356. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے نبی ﷺ نے فرمایا: کیا تم ذوالخلصہ کو اجاڑ کر مجھے سکون نہیں پہنچاتے؟ ذوالخلصہ، قبیلہ خثعم میں ایک بت خانہ تھا جسے وہ کعبہ یمانیہ کے نام سے پکارتے تھے۔ میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سوار لے کر چل پڑا۔ وہ لوگ گھوڑوں والے تھے اور میں گھوڑے پر نہی ٹھہر سکتا تھا۔ آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا تو میں نے آپ کی انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے۔ آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے گھوڑے پر ثابت رکھ، نیز اسے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنا دے۔ چنانچہ انہوں نے وہاں جا کر ذوالخلصہ کو توڑا اور اسے آگ لگا دی۔ اس کے بعد جریر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک قاصد روانہ کیا۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے! میں آپ کے پاس جب آیا ہوں تو اس وقت بت خانہ کو توڑ کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4356]
حدیث حاشیہ:

حضرت جریر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ وہ گھوڑے پرٹھہر نہیں سکتے توآپ ﷺ نے فرمایا:
میرے قریب آؤ۔
وہ آپ کے قریب ہوئے تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک ان کے سرپررکھا پھر اس کے چہرے اور سینے پر اسے پھیرتے ہوئے ناف تک لے گئے، پھردوبارہ اپنا ہاتھ ان کے سرپررکھا اور ان کی کمر پر اسے پھیرتے ہوئے ان کی سرین تک لے گئے، پھرفرمایا:
اے اللہ! جریر کو ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنادے۔
چنانچہ حضرت جریر ؓ نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے اس بت خانے کو جلا کرراکھ کردیا اور اسے خارشی اونٹ کی طرح بنادیا، یعنی وہ اس اونٹ کی طرح سیاہ ہوگیا جسے خارش کی وجہ سے گندھک ملی گئی ہو اور اس کے بال اُتر گئے ہوں اور اس کا چمڑا خارش اور گندھک ملنے کی وجہ سے خراب اور سیاہ ہوگیا ہو۔
(فتح الباري: 91/8)

رسول اللہ ﷺ نےحضرت جریر ؓ کو قبیلہ خشعم کی طرف بھیجنا اورانھیں ہدایت کی کہ وہ تین دن تک عقیدہ توحید کی دعوت دیں، اگروہ قبول کرلیں تو ان کا بت خانہ گرادیں اگروہ مسلمان نہ ہوں تو پھر انھیں بھی قتل کردیں۔
(فتح الباري: 90/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4356   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4357  
4357. حضرت جریر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے راحت نہیں پہنچاتے؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں، ضرور پہنچاتا ہوں، چنانچہ میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر روانہ ہوا۔ وہ سب گھوڑوں پر سوار تھے جبکہ میں گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتا تھا۔ میں نے نبی ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا حتی کہ میں نے اس کے اثرات اپنے سینے میں محسوس کیے۔ پھر آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے ثابت رکھ اور اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔ اس کے بعد میں کبھی گھوڑے سے نہیں گرا۔ واضح رہے کہ ذوالخلصہ یمن میں قبیلہ خثعم اور بجیلہ کا ایک گھر تھا جس میں بت نصب تھے جن کی عبادت کی جاتی تھی۔ اسے کعبہ کہا جاتا تھا۔ حضرت جریر ؓ نے اسے آگ لگا دی اور گرا دیا۔ جب حضرت جریر ؓ یمن پہنچے تو وہاں ایک شخص تیروں کے ذریعے سے فال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4357]
حدیث حاشیہ:

حضرت جریر ؓ جب ذوالخلصہ کوتباہ وبرباد کرکے فارغ ہوئے تو آپ یمن میں دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دینے اور خوشخبری سنانے کے لیے ایک قاصد روانہ کیا، نبی کریم ﷺ کو جب ذوالخلصہ کےتباہ ہونے کی خبر ملی تو آپ نے قبیلہ احمس کے لیے پانچ مرتبہ دعا فرمائی۔
رسول اللہ ﷺ عام طور پر تین مرتبہ دعاکرتے تھے لیکن ان حضرات کے لیے پانچ مرتبہ دعا کی۔
اس سے مقصود مبالغہ تھا کیونکہ ان لوگوں نے اسلام کی سربلندی اور کفر کی تباہی و بربادی کے لیے اپنی قوم سے جنگ مول لی۔
پہلے رسول اللہ ﷺ نے اجتماعی طور پرشہسواروں اور پیادوں کی خیروبرکت کے لیے دعا فرمائی، پھر تاکید کے لیے دومرتبہ شہسواروں کے لیے اور دومرتبہ پیادوں کے لیے الگ الگ دعاکی۔
اس طرح ہر ایک کے لیے تین تین مرتبہ دعا ہوگئی۔
(فتح الباري: 91/8)

یمن میں ایک خرابی یہ بھی تھی کہ وہاں کے لوگ تیروں کے ذریعے سے قسمت آزمائی کرتے تھے جسے قرآن نے حرام کہا ہے لیکن یمن میں اس کی حرمت کے باوجود یہ دھندا عروج پرتھا۔
ممکن ہے کہ ان لوگوں کوحرمت کا علم نہ ہو، چنانچہ حضرت جریر ؓ نے جب سخت کلام کیا اور ڈانٹ پلائی تو پھر اس شخص نے اپنے تیروں کو توڑا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوا۔

ان احادیث میں حضرت جریر ؓ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ انھیں رسول اللہ ﷺ نے خیروبرکت کی دعا سے نوازاتھا۔

اس بت خانے کو ختم کرنے کی یہ وجہ تھی کہ وہاں کفار ومشرکین اسلام کے خلاف سازشیں کرتے، رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچانے کے منصوبے بناتے اور کعبہ مقدس کی تنقیص کرتے تھے، لہذا قیام امن کے لیے اس کا ختم کرنا ضروری تھا۔
حالت امن اسلام کسی قوم ومذہب کا عبادت خانہ گرانے کا حکم نہیں دیتا۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو چیزیں لوگوں کی گمراہی کاسبب بنیں، وہ مکان ہو یا انسان یا کوئی حیوان یا جمادات، شرعی طور پر ان کا ختم کرنا ضروری ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4357