صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
13. بَابُ الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ:
باب: صبح صادق سے پہلے اذان دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 623
ح وحَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عِيسَى الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ، قَالَ:" إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ".
(دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضل بن موسیٰ نے، کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے قاسم بن محمد سے بیان کیا، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رات رہے میں اذان دیتے ہیں۔ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان تک تم (سحری) کھا پی سکتے ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 623 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 623
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن ام مکتوم قیس بن زائدہ ؓ قریشی مشہور نابینا صحابی ہیں۔
جن کے متعلق سورۃ عبس نازل ہوئی۔
ایک دفعہ کچھ اکابر قریش آنحضرت ﷺ سے تبادلہ خیال کررہے تھے کہ اچانک وہاں یہ بھی پہنچ گئے۔
ایسے موقع پر ان کا وہاں حاضر ہونا آنحضرت ﷺ کو نامناسب معلوم ہوا۔
جس کے بارے میں اللہ نے سورۃ مذکورہ میں اپنے مقدس رسول ﷺ کو فہمائش فرمائی اور ارشاد ہوا کہ ہمارے ایسے پیارے غریب مخلص بندوں کا اعزاز و اکرام ہر وقت ضروری ہے۔
چنانچہ بعد میں ایسا ہوا کہ یہ جب بھی تشریف لاتے آنحضرت ﷺ ان کوبڑی شفقت ومحبت سے بٹھاتے اورفرمایا کہ یہ وہ ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ پاک نے مجھ کو فہمائش فرمائی۔
حدیث مذکورہ میں جو کچھ ہے بعض روایات میں اس کے برعکس بھی وارد ہواہے۔
یعنی یہ کہ اذان اوّل حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم اوراذان ثانی حضرت بلال ؓ دیا کرتے تھے۔
جیسا کہ نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان، مسنداحمد وغیرہ میں مذکور ہے۔
وقد جمع بينهما ابن خزيمة وغيره:
بأنه يجوز أن يكون عليه السلام جعل الأذان بين بلال وابن أم مكتوم نوائب، فأمر في بعض الليالي بلالاً أن يؤذن بليل، فإذا نزل بلال صعد ابن أم مكتوم، فأذن في الوقت، فإذا جاءت نوبة ابن أم مكتوم بدأ فأذن بليل، فإذا نزل، صعد بلال فأذن في الوقت، فكانت مقالة النبي - صلى الله عليه وسلم -:
إن بلالاً يؤذن بليل. في وقت نوبة بلال، وكانت مقالته:
إن ابن أم مكتوم يؤذن بليل. في وقت نوبة ابن أم مكتوم۔
(مرعاة المفاتیح، ج: 1، ص: 443)
یعنی محدث ابن خزیمہ وغیرہ نے ان واقعات میں یوں تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال وحضرت ابن ام مکتوم کو باری باری ہردو اذانوں کے لیے مقرر کررکھاہو۔
جس دن حضرت بلال کی باری تھی کہ وہ رات میں اذان دے رہے تھے اس دن آپ نے ان کے متعلق فرمایا کہ بلال کی اذان سن کر کھانا پینا سحری کرنا وغیرہ منع نہیں ہوا کیونکہ یہ اذان اسی آگاہی کے لیے دی گئی ہے اورجس دن حضرت ابن ام مکتوم کی رات میں اذان دینے کی باری تھی اس دن ان کے لیے فرمایاکہ ان کی اذان سن کر کھانے پینے سے نہ رک جانا کیونکہ یہ سحری یاتہجد کی اذان دے رہے ہیں اورحضرت بلال کو خاص سحری کی اذان کے لیے مقرر کردیاگیا۔
امام مالک وامام شافعی وامام احمد وامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہم نے طلوع فجر سے کچھ قبل نماز فجر کے لیے اذان دینا جائز قرار دیا ہے۔
یہ حضرات کہتے ہیں کہ نماز فجر خاص اہمیت رکھتی ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قال هؤلاء:
كان الأذانان لصلاة الفجر، ولم يكن الأول مانعاً من التسحر، و كان الثاني من قبيل الإعلام بعد الإعلام، وإنما اختصت صلاة الفجر بهذا من بين الصلوات، لما ورد من الترغيب في الصلاة لأول الوقت، والصبح يأتي غالباً عقيب النوم، فناسب أن ينصب من يوقظ الناس قبل دخول وقتها، ليتأهبوا ويدركوا فضيلة أول الوقت الخ۔
(مرعاة، ج: 1، ص: 444)
یعنی مذکورہ بالا حضرات کہتے ہیں کہ ہر دواذان جن کا ذکر حدیث مذکورہ میں ہے۔
یہ نماز فجر ہی کے واسطے ہوتی تھیں۔
پہلی اذان سحری اور تہجد سے مانع نہ تھی۔
دوسری اذان مکرر آگاہی کے لیے دلائی جاتی تھی اوربہ نسبت دوسری نمازوں کے یہ خاص فجر ہی کے بارے میں ہے اس لیے کہ اسے اوّل وقت ادا کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
پس مناسب ہوا کہ ایک ایسا مؤذن بھی مقرر کیا جائے جو لوگوں کوپہلے ہی ہوشیار وبیدار کردے تاکہ وہ تیار ہوجائیں اوراوّل وقت کی فضیلت حاصل کرسکیں۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ اذان بلال رضی اللہ عنہ کا تعلق خاص ماہ رمضان ہی سے تھا۔
بعض شراح دیوبند نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث ؒ فرماتے ہیں:
وفيه نظر؛ لأن قوله "كلوا واشربوا" يتأتى في غير رمضان أيضاً، وهذا لمن كان يريد صوم التطوع، فإن كثيراً من الصحابة في زمنه - صلى الله عليه وسلم - كانوا يكثرون صيام النفل، فكان قوله "فكلوا واشربوا" بالنظر إلى هؤلاء، ويدل على ذلك ما رواه عبد الرزاق عن ابن المسيب مرسلاً بلفظ:
إن بلالاً يؤذن بليل، فمن أراد الصوم فلا يمنعه أذان بلال حتى يؤذن ابن أم مكتوم. ذكره علي المتقي في كنز العمال۔
(ج4، ص: 311)
فجعل النبي - صلى الله عليه وسلم - الصوم فيه باختيار الرجل، ولا يكون ذلك إلا في غير رمضان، فدل على أن قوله عليه السلام "إن بلالاً يؤذن بليل" ليس مختصاً برمضان (مرعاة، ج1، ص: 444)
یعنی یہ صحیح نہیں کہ اس اذان کا تعلق خاص رمضان سے تھا۔
زمانہ نبوی میں بہت سے صحابہ غیررمضان میں نفل روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے جیسا کہ مسندعبدالرزاق میں ابن مسیب کی روایت سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رات میں اذان دیتے ہیں۔
پس جو کوئی روزہ رکھنا چاہے اس کو یہ اذان سن کر سحری سے رکنا نہ چاہئیے۔
یہ ارشادِ نبوی غیررمضان ہی سے متعلق ہے۔
پس ثابت ہوا کہ اذان بلال کو رمضان سے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی شخص فجر کی اذان جان کر یابھول کر وقت سے پہلے پڑھ دے تووہ کفایت کرے گی یافجر ہونے پر دوبارہ اذان لوٹائی جائے گی۔
اس بارے میں حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں:
فقال بعض أهل العلم إذا أذن المؤذن باللیل أجزاہ ولایعید وهوقول مالك وابن المبارك والشافعي وأحمد وإسحاق وقال بعض أهل العلم إذا أذن باللیل أعاد وبه یقول سفیان الثوري یعنی بعض أہل علم کا قول ہے کہ اگرمؤذن رات میں فجر کی اذان کہہ دے تو وہ کافی ہوگی اور دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
یہ امام مالک اور عبداللہ بن مبارک وامام شافعی واحمد واسحاق وغیرہ کا فتویٰ ہے۔
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اذان لوٹائی جائے گی، امام سفیان ثوری کا یہی فتویٰ ہے۔
محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں:
قلت لم أقف علی حدیث صحیح صریح یدل علی الاکتفاء فالظاهر عندي قول من قال بعدم الاکتفاء واللہ تعالیٰ أعلم۔
(تحفة الأحوذي، ج: 1، ص: 180)
یعنی میں کہتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسی صریح حدیث نہیں ملی جس سے رات میں کہی ہوئی اذان فجر کی نماز کے لیے کافی ثابت ہو۔
پس میرے نزدیک ظاہر میں ان ہی کا قول صحیح ہے جو اسی اذان کے کافی نہ ہونے کا مسلک رکھتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 623
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح بخاری623
صبح کی دو اذانیں
تنبیہ: صبح کی دو اذانیں ہوتی ہیں:
ایک صبح صادق کے بعد اذانِ فجر،
دوسری اقامت۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بين كل أذانين» کی حدیث میں اقامت کو بھی اذان قرار دیا ہے۔ حدیث کے لئے دیکھئے: [صحيح بخاري: 624، صحيح مسلم: 838,1940]
ان دونوں اذانوں (اذانِ فجر اور اقامت) میں سے صرف پہلی اذان میں «الصلوٰة خير من النوم» کے الفاظ ثابت ہیں اور دوسری میں ثابت نہیں۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کو اس مسئلے میں بڑی عجیب غلطی لگی اور وہ رات (سحری یا تہجد) کی اذان کو صبح کی اذان سمجھ بیٹھے اور یہ دعویٰ کر دیا کہ اذانِ فجر میں «الصلوٰة خير من النوم» نہیں پڑھنا چاہیے اور رات کی اذان میں یہ الفاظ پڑھنے چاہئیں، حالانکہ رات کی اذان کو صبح کی اذان کہنا غلط ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن بلالاً يؤذن بليل“» بے شک بلال رات کو اذان دیتے ہیں۔ [صحيح بخاري: 622۔ 623 باب الاذان قبل الفجر، صحيح مسلم: 1092، 2536]
اس حدیث میں تہجد یا ر مضان میں سحری کی اذان کے بارے میں یہ صراحت ہے کہ یہ رات کی اذان ہے، لہٰذا البانی رحمہ اللہ کا اسے فجر کی اذان قرار دینا بہت بڑی غلطی ہے اور اس غلطی کا بنیا دی سبب یہ ہے کہ انہوں نے اس حد یث کا فہم سلف صا لحین سے نہیں لیا بلکہ یمن کے ایک بہت متاخر عالم سے لے لیا ہے۔ حافظ ابن خزیمہ، حافظ بیہقی اور علامہ طحاوی وغیرہم نے جو فقہ الحدیث پیش کیا، اُس سے آنکھیں بند کر کے خیر القرون اور زمانہ تدوینِ حدیث کے بعد کے متاخرین کا فہم قبول کر لینا ہرگز صحیح نہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ شیخ امین اللہ پشاور ی حفظہ اللہ نے لکھا ہے: «وإن قول الشيخ الباني حفظه الله (رحمه الله) ضعيف فى هذه المسئلة“» اور اس مسئلے میں شیخ البانی حفظہ اللہ (رحمہ اللہ) کا قول ضعیف (کمزور) ہے۔ [فتاويٰ الدين الخالص ج 3 ص 225]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں جس روایت میں آیا ہے کہ انہوں نے «الصلوٰة خير من النوم» کے بارے میں فرمایا: ان الفاظ کو صبح کی اذان میں شامل کر لو۔ [موطا امام مالك ج 1 ص 72 ح 151، مشكوٰة المصابيح بتحقيقي: 652]
یہ روایت موطا میں بلاغات سے بے سند ہے اور بے سند روایت مردود ہوتی ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ (1/ 208 ح 21159) میں ایک روایت اس مفہوم کی مروی ہے جس کا راوی اسماعیل (؟؟) مجہول ہے۔
اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 104 ص 14 تا 16)
ماہنامہ الحدیث حضرو، حدیث/صفحہ نمبر: 14
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:623
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان کا مقصد صبح کے وقت اذان اول کی مشروعیت بیان کرنا ہے جیسا کہ جمہور علماء کا موقف ہے، لیکن اس کے بعد اذان ثانی کہنا ضروری ہے یا اذان اول پر اکتفا کیا جاسکتا ہے؟ اس کے متعلق امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ؒ کا موقف ہے کہ اذان اول پر اکتفا کرنا جائز ہے، جبکہ محدث ابن خزیمہ، امام ابن منذر اور کچھ اہل علم حضرات کہتے ہیں کہ نماز فجر کے لیے اذان اول کافی نہیں ہوگی، بلکہ اس کے لیے اذان ثانی کہنا ضروری ہے، چنانچہ حضرت امام بخاری ؒ کا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث لانے کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ اذان اول کافی نہیں ہوگی۔
بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ قبل از فجر اذان کے الفاظ عام اذان جیسے نہ تھے لیکن یہ دعویٰ بلا دلیل ہے بلکہ احادیث میں اسے بھی اذان ہی سے تعبیر کیا گیا ہے، نیز اگر اس کے الفاظ دوسری اذان سے مختلف ہوتے تو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ بلال رات کو اذان دیتا ہے، لہٰذا اس کی اذان سے روزے دارکے لیےکھانا پینا حرام نہیں ہوتا۔
اس وضاحت کی ضرورت ہی اس لیے پیش آئی کہ الفاظ کے اعتبار سے دونوں اذانیں ایک جیسی تھیں۔
(فتح الباري: 137/2) (2)
ہمارے ہاں اذان اول کے متعلق عام عادت یہ ہے کہ اسے اذان تہجد کا نام دیا جاتا ہے، پھر اسے اذان فجر سے کم از کم ایک گھنٹا پہلے کہا جاتا ہے، حالانکہ یہ اذان قطعی طور پر تہجد کےلیے نہیں بلکہ تہجد پڑھنے والوں کو واپس گھر لوٹانے کےلیے دی جاتی ہے تاکہ وہ آرام کرلیں اور اگرروزہ رکھنا ہے تو سحری وغیرہ تناول کرلیں۔
اور اس کا دوسرا مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ یہ سوئے ہوؤں کو بیدار کرنے کے لیے ہے تاکہ وہ اٹھیں اور اپنی حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر نماز فجر کےلیے تیاری کریں۔
اس کام کےلیے پندرہ بیس منٹ ہی کافی ہیں، کیونکہ احادیث میں وضاحت ہے کہ دونوں حضرات کے اذان دینے کے درمیان صرف اتنا وقت ہوتا کہ پہلی اذان سے فراغت کے بعد وہ نیچے اتر رہا ہوتا اور دوسرااذان دینے کے لیے اوپر جارہا ہوتا۔
(صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1919)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں بھی یہ وضاحت موجود ہے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 2538(1092)
اگرچہ اذان اول اور اذان ثانی کے درمیان وقت کی قلت کو بیان کرنے کے لیے یہ الفاظ بطور مبالغہ ہیں کیونکہ اذان اول کے جو مقاصد احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔
ان سے مذکورہ الفاظ کے معنی متعین ہوسکتے ہیں کہ اذان اول اور اذان ثانی کے درمیان کم از کم اتنا وقت ہونا چاہیے کہ ایک تہجد گزار اپنے گھر آکر سحری وغیرہ کھا سکے، اتنا کم وقت نہ ہو کہ اس اذان کا مقصد ہی فوت ہوجائے۔
بہر حال اذان اول، اذان تہجد نہیں، بلکہ سحری کی اذان ہے اور اس کے اور دوسری اذان کے درمیان گھنٹے یا دو گھنٹے کا وقفہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 623
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2538
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو (2) مؤذن تھے۔ بلال اور نابینا ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہما، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رات کو اذان دیتا ہے اس لیے ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان تک کھاتے پیتے رہو“ انھوں نے بتایا ان دونوں میں صرف اتنا فرق تھا کہ ایک اترتا تو دوسرا چڑھتا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2538]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
صبح کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مستقل مؤذن تھے،
ایک رات کو صبح سے پہلے اذان دیتے تھے تاکہ لوگ صبح کی نماز کے لیے اہتمام اور تیاری کریں اور جو کافی وقت سے تہجد پڑھ رہے ہیں وہ کچھ آرام کر لیں،
یا سستا لیں اور جنھوں نے روزہ رکھنا ہے وہ روزہ کا اہتمام کر لیں لیکن یہ اذان صبح کی نماز کے لیے نہیں ہوتی تھی،
پھر صبح کی نماز کے لیے ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان دیتے تھے۔
2۔
دونوں اذانوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کا مقصد زیادہ وقت کا متقاضی نہ تھا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان دینے کے بعد کچھ دیر صبح صادق کا انتظار کرتے کچھ دعا واستغفار کرتے اور جب صبح صادق کےطلوع کا وقت قریب ہوتا تو بلند جگہ سے اتر کر،
ابن ام مکتوم کو آگاہ کرتے تاکہ وہ صبح کی اذان دینے کے لیے تیار ہو جائیں تو وہ تیار ہوکر بلند جگہ پر اذان دینے کے لیے چڑھ جاتے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2538