صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ
کتاب: دعاؤں کے بیان میں
10. بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا انْتَبَهَ بِاللَّيْلِ:
باب: اگر رات میں آدمی کی آنکھ کھل جائے تو کیا دعا پڑھنی چاہئے۔
حدیث نمبر: 6316
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ مَيْمُونَةَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى حَاجَتَهُ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ فَأَتَى الْقِرْبَةَ، فَأَطْلَقَ شِنَاقَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا بَيْنَ وُضُوءَيْنِ لَمْ يُكْثِرْ وَقَدْ أَبْلَغَ فَصَلَّى، فَقُمْتُ فَتَمَطَّيْتُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَرَى أَنِّي كُنْتُ أَتَّقِيهِ فَتَوَضَّأْتُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ بِأُذُنِي فَأَدَارَنِي عَنْ يَمِينِهِ فَتَتَامَّتْ صَلَاتُهُ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ فَآذَنَهُ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، وَكَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ:" اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَاجْعَلْ لِي نُورًا"، قَالَ كُرَيْبٌ: وَسَبْعٌ فِي التَّابُوتِ، فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ وَلَدِ الْعَبَّاسِ، فَحَدَّثَنِي بِهِنَّ فَذَكَرَ: عَصَبِي، وَلَحْمِي، وَدَمِي، وَشَعَرِي، وَبَشَرِي، وَذَكَرَ خَصْلَتَيْنِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن ابن مہدی نے، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے سلمہ بن کہیل نے، ان سے کریب نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں میمونہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں ایک رات سویا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آپ نے اپنی حوائج ضرورت پوری کرنے کے بعد اپنا چہرہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور پھر سو گئے اس کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور مشکیزہ کے پاس گئے اور آپ نے اس کا منہ کھولا پھر درمیانہ وضو کیا (نہ مبالغہ کے ساتھ نہ معمولی اور ہلکے قسم کا، تین تین مرتبہ سے) کم دھویا۔ البتہ پانی ہر جگہ پہنچا دیا۔ پھر آپ نے نماز پڑھی۔ میں بھی کھڑا ہوا اور آپ کے پیچھے ہی رہا کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھیں کہ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے بھی وضو کر لیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا کان پکڑ کر دائیں طرف کر دیا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کی اقتداء میں) تیرہ رکعت نماز مکمل کی۔ اس کے بعد آپ سو گئے اور آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگتی تھی۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز کی اطلاع دی چنانچہ آپ نے (نیا وضو) کئے بغیر نماز پڑھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں یہ کہتے تھے «اللهم اجعل في قلبي نورا، وفي بصري نورا، وفي سمعي نورا، وعن يميني نورا، وعن يساري نورا، وفوقي نورا، وتحتي نورا، وأمامي نورا، وخلفي نورا، واجعل لي نورا» ”اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا کر، میری نظر میں نور پیدا کر، میرے کان میں نور پیدا کر، میرے دائیں طرف نور پیدا کر، میرے بائیں طرف نور پیدا کر، میرے اوپر نور پیدا کر، میرے نیچے نور پیدا کر میرے آگے نور پیدا کر، میرے پیچھے نور پیدا کر اور مجھے نور عطا فرما۔“ کریب (راوی حدیث) نے بیان کیا کہ میرے پاس مزید سات لفظ محفوظ ہیں۔ پھر میں نے عباس رضی اللہ عنہما کے ایک صاحب زادے سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے ان کے متعلق بیان کیا کہ «عصبي ولحمي ودمي وشعري وبشري، وذكر خصلتين.» ”میرے پٹھے، میرا گوشت، میرا خون، میرے بال اور میرا چمڑا ان سب میں نور بھر دے۔“ اور دو چیزوں کا اور بھی ذکر کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6316 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6316
حدیث حاشیہ:
یہی دعا ہے جو سنت فجر کے بعد لیٹنے پر پڑھی جاتی ہے بڑی ہی بابرکت دعا ہے اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر ایک کے سینے میں روشنی عنایت فرما ئے آمین۔
(اس دعا کا صحیح محل یہ ہے کہ جب آدمی سنت فجر پڑھ لے تو مسجد کو جاتے ہوئے راستے میں یہ دعا پڑھے آج کل چونکہ سنتیں مساجد میں ادا کرنے کا عام رواج بن چکا ہے تو پھر سنتوں کے بعد لیٹ کر جب اٹھ بیٹھے تو پھر اس دعا کو پڑھے۔
لیٹے لیٹے اس دعا کو پڑھنے کے متعلق مجھے کوئی روایت نہیں مل سکی واللہ أعلم بالصواب، عبد الرشید تونسوی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6316
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6316
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دو مزید چیزیں زبان اور ذات ہیں۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1797 (763)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بابرکت دعا سنت فجر کے بعد مسجد کو جاتے ہوئے راستے میں پڑھی تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1799 (763) (2)
اس سے مراد ظاہری اور حقیقی نور کے حصول کی دعا ہے جس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکار قیامت کے اندھیروں میں روشنی حاصل کریں گے یا علم و ہدایت کا نور اور اعمال طاعت کی توفیق اور ان پر ثابت قدمی مراد ہے یا یہ دونوں ہی مراد ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6316
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1122
´سجدہ کی دعا کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے پاس رات گزاری، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس رات کو ان ہی کے پاس رہے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی حاجت کے لیے اٹھے، مشک کے پاس آئے، اور اس کا بندھن کھولا، پھر وضو کیا جو دو وضوؤں کے درمیان تھا، (یعنی شرعی وضو نہیں تھا)، پھر آپ اپنے بستر پہ آئے، اور سو گئے، پھر دوسری بار اٹھے، مشک کے پاس آئے، اور اس کا بندھن کھولا، پھر وضو کیا یہ (شرعی) وضو تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر نماز پڑھنے لگے، آپ اپنے سجدے میں یہ دعا پڑھ رہے تھے: «اللہم اجعل في قلبي نورا واجعل في سمعي نورا واجعل في بصري نورا واجعل من تحتي نورا واجعل من فوقي نورا وعن يميني نورا وعن يساري نورا واجعل أمامي نورا واجعل خلفي نورا وأعظم لي نورا» ”اے اللہ! میرے دل کو منور کر دے، میرے کانوں کو نور (روشنی) سے بھر دے، میری آنکھوں کو روشن کر دے، میرے نیچے نور کر دے، میرے اوپر نور کر دے، میرے دائیں نور کر دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے، اور میرے لیے نور کو عظیم کر دے“، پھر آپ سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے، پھر بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے جگایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1122]
1122۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھنے کے لیے قصداً یہ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرۂ مبارکہ میں گزاری تھی اور اس کے لیے باقاعدہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما اور ان کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تھی۔
➋ درمیانہ وضو سونے کے لیے تھا۔ نماز کے لیے ہوتا تو آپ مکمل وضو فرماتے جیسا کہ بعد میں کیا۔
➌ یہاں نور سے مراد علم، ہدایت اور ایمان ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں متعدد مقامات پر لفظ نور ان معانی میں استعمال ہوا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1122
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1788
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گزاری، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی (بول و براز) حاجت پوری کی، پھر اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے، پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس آ کر اس کا بندھن کھولا، پھر درمیانہ وضو کیا پانی زیادہ استعمال نہیں کیا اور وضو اچھی طرح کیا، پھر اٹھے اور نماز شروع کی تو میں اٹھا اور میں نے انگڑائی لی، اس ڈر سے کہ آپﷺ یہ نہ سمجھیں کہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1788]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شِنَاقْ:
اس رسی کو کہتے ہیں،
جس سے مشکیزہ کو کھونٹی کے ساتھ باندھا جاتا ہے اور اس تسمہ کو بھی کہتے ہیں جس سے مشکیزہ کا منہ باندھا جاتا ہے۔
(2)
تَمَطَّيْتُ:
میں نے انگڑائی لی۔
(3)
سَبْعاً فِيْ التَّابُوْتِ:
اس کے معنی میں اختلاف ہے،
بعض نے اس کا معنی صدر (سینہ)
کیا ہے،
بعض دل کے ارد گرد پسلیاں وغیرہ،
بعض نے صندوق کیا ہے،
سات باتیں میرے صندوق میں لکھی پڑی ہیں لیکن صحیح معنی یہ ہے کہ سات چیزیں جن کا انسانی جسم سے تعلق ہے لیکن میں ان کو بھول گیا ہوں،
اس لیے ان کے شاگرد سلمہ بن کہیل نے حضرت عباس رضی الله تعالیٰ عنہما کے کسی لڑ کے سے پوچھا،
اس نے وہ سات چیزیں بتائیں،
لیکن سلمہ لسان اور نفس بھول گئے،
باقی پانچ بیان کر دیں۔
فوائد ومسائل:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحت جماعت اور امامت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ امام کسی کو نماز پڑھانے کی نیت کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پڑھ رہے تھے اور بعد میں پیشگی اطلاع کے بغیر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپﷺ کے ساتھ شریک ہو گئے،
جس سے معلوم ہوا نابالغ بچہ کی نماز اور اس کا مقتدی بننا صحیح ہے۔
2۔
اگر مقتدی صرف ایک ہو تو وہ دائیں طرف کھڑا ہو گا اگر وہ ناواقفیت کی بنا پر بائیں طرف کھڑا ہو جائے تو اس کو گھما کر پیچھے سےدائیں طرف کیا جائےگا۔
3۔
کسی بزرگ یا نیک شخصیت کے حالات کا تجسس اس لیے کرنا تاکہ ان کو اپنایا جا سکے درست ہے۔
4۔
آپﷺ رات کو دعائے نوری کرتے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ اے اللہ میرے دل،
میرے قالب،
میری روح،
میرے جسم اور جسم کے ہرحصہ میں اور میری رگ رگ اور ریشہ میں نور بھر دے صرف مجھے ہی ازسر تا پیر نور نہ بنا بلکہ میرے گردو پیش میرے آگے پیچھے اور اوپر نیچے ہر طرف نور ہی نور کر دے،
تاکہ میں لوگوں کے لیے ہر اعتبار اور ہر حیثیت سے مشعل راہ بنوں اور میرے ہر قول وفعل اور حرکت میں نور ہی نور ہو۔
5۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپﷺ کو عالم الغیب نہیں سمجھتے تھے اس لیے کہتے ہیں کہ میں انگڑائی لے کر اٹھے تاکہ آپﷺ یہ نہ سمجھیں کہ میں آپﷺ کے حالات جاننے کے لیے جاگ رہا تھا۔
6۔
بقول امام قسطلانی عبداللہ بن عباس کا لڑکا علی بن عبداللہ تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1788
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1794
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں رات گزاری، میں نے (وہاں رہ کر) مشاہدہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے ہیں۔ کہا: آپﷺ اٹھے، پیشاب کیا، پھر اپنا چہرہ اور ہتھیلیاں دھوئیں۔ پھر سو گئے۔ آپﷺ (کچھ دیر بعد) پھر اٹھے، مشکیزے کے پاس گئے اور اس کا بندھن کھولا، پھر لگن یا پیالے میں پانی انڈیلا اور اس کو اپنے ہاتھ سے جھکایا، پھر دو وضووں کے درمیان کا خوبصورت وضو کیا (وضو نہ بہت ہلکا کیا اور نہ اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1794]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لَقِيْتُ:
میں نے انتظار کیا،
دھیان رکھا۔
جَفْنَةٌ:
(بڑا برتن)
۔
قَصْعَةٌ:
پیالہ۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے آپﷺ نے دعائے نوری اپنی نماز اور اپنے سجدہ میں بھی مانگی ہے،
جب کہ بعض آگے آنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے یہ دعا نماز کے لیے جاتے وقت راستہ میں کی ہے معلوم ہوتا ہے آپﷺ نے اس رات یہ دعا تینوں موقعوں پر کی ہے اور آپﷺ نے اپنے ہرعضو کے منور ہونے یا سراپا نور ہونے کی دعا کی ہے تاکہ آپﷺ کا ہر عضو وہی کام کرے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔
اورآپﷺ کا کوئی عضو علم وہدایت کی روشنی سےمحروم نہ ہو بلکہ آپﷺ کی جہات ستہ (چھ سمتیں)
نور اور روشنی سے ہی منور ہوں اور آپﷺ کے ہر سو علم وہدایت کی روشنی پھیلے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1794
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1799
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ وہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سوئے پس (تہجد کے وفت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، اور آپﷺ نے مسواک کی اور وضو فرمایا اور آپﷺ یہ آیت مبارکہ پڑھ رہے تھے: ”یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور دن رات کی آمد ورفت میں خالص عقل رکھنے والوں کے لئے اسباق ہیں۔“ سورت ال عمران کے ختم تک یہ آیات تلاوت فرمائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دو ر کعتیں پڑھیں، ان قیام رکوع... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1799]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے آپﷺ نے آغاز میں دو خفیف رکعتیں پڑھیں جن کو راوی نے یہاں نظر انداز کر دیا ہے۔
لیکن دوسری روایات کی رو سے دو پڑھی ہیں۔
پھر آپﷺ نے تین مرتبہ الگ دو رکعت طویل قیام،
رکوع اورسجود کے ساتھ پڑھی ہیں اورہر مرتبہ آپﷺ درمیان میں سوئے ہیں۔
اور پھر نیند کےاثر کو زائل کرنے کے لیے مسواک اور وضو فرمایا ہے اور آیات آل عمران کی تلاوت فرمائی ہیں۔
اس طرح چھ رکعات پڑھی ہیں۔
اس کے بعد آپﷺ نے پانچ رکعات پڑھی ہیں اور ان میں بھی چار دو،
دو کر کے پڑھی ہیں اور آخر میں ایک وتر پڑھا ہے۔
راوی نے آخری دوگانہ کے بعد الگ پڑھے جانےوالے وتر کو اس کا حصہ بنا کر تین وتر بنا دئیے ہیں،
حالانکہ تفصیلی روایات میں یہ بات موجود ہے کہ آپﷺ نے اس رات تیرہ رکعات پڑھی ہیں۔
اور ہر دوگانہ پر سلام پھیرا ہے اورآخر میں ایک وتر پڑھا ہے اس لیے مجمل اورمختصر روایات کا مفہوم،
مفصل روایات کی روشنی میں ہی متعین ہو گا وگرنہ تعارض ہو گا کیونکہ اس روایت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے کل 9 رکعات پڑھی ہیں،
لیکن پچھلی روایات میں تیرہ رکعات پڑھنے کی صراحت گزر چکی ہے۔
2۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے،
آپﷺ ہر دو رکعت پڑھنے کے بعد سو جاتے تھے اور اٹھ کر دوبارہ نماز پڑھنے سے پہلے پورے اہتمام سے وضو فرماتے تھے،
اس لیے اگر انسان نیند سے اٹھ کر دوبارہ وضو کرے تو انسان کے لیے چستی اور نشاط کا باعث ہو گا۔
آپﷺ کی نیند ناقضِ وضو نہیں۔
اس کے باجود آپﷺ نے وضو فرمایا لیکن معلوم ہوتا ہے آپﷺ نے اس رات عام معمول سے ہٹ کر کام کیا۔
ہر دو رکعت کے بعد سونا آپﷺ کا معمول نہ تھا اور نہ ہی اٹھ کر دوبارہ وضو کرنا آپﷺ کی عادت مبارکہ تھی،
اور آپﷺ رکعات بھی عام طور پر گیارہ ہی پڑھتےتھے اوردعائے نوری مسجد کو جاتے ہوئے پڑھتے تھے جب کہ اس رات آپﷺ نے یہ دعا نماز اور سجدہ میں بھی پڑھی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1799