صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
13. بَابُ الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ:
باب: صبح صادق سے پہلے اذان دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 621
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَوْ أَحَدًا مِنْكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ أَوْ يُنَادِي بِلَيْلٍ لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَلِيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ، وَلَيْسَ أَنْ يَقُولَ الْفَجْرُ أَوِ الصُّبْحُ، وَقَالَ: بأَصَابِعِهِ وَرَفَعَهَا إِلَى فَوْقُ وَطَأْطَأَ إِلَى أَسْفَلُ حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا"، وَقَالَ زُهَيْرٌ: بِسَبَّابَتَيْهِ إِحْدَاهُمَا فَوْقَ الْأُخْرَى ثُمَّ مَدَّهَا عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ جعفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن طرخان تیمی نے بیان کیا ابوعثمان عبدالرحمٰن نہدی سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روک دے کیونکہ وہ رات رہے سے اذان دیتے ہیں یا (یہ کہا کہ) پکارتے ہیں۔ تاکہ جو لوگ عبادت کے لیے جاگے ہیں وہ آرام کرنے کے لیے لوٹ جائیں اور جو ابھی سوئے ہوئے ہیں وہ ہوشیار ہو جائیں۔ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ فجر یا صبح صادق ہو گئی اور آپ نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے (طلوع صبح کی کیفیت) بتائی۔ انگلیوں کو اوپر کی طرف اٹھایا اور پھر آہستہ سے انہیں نیچے لائے اور پھر فرمایا کہ اس طرح (فجر ہوتی ہے) زہیر راوی نے بھی شہادت کی انگلی ایک دوسری پر رکھی، پھر انہیں دائیں بائیں جانب پھیلا دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 621 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 621
حدیث حاشیہ:
یعنی بتلادیاکہ فجر کی روشنی اس طرح پھیل جاتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 621
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 621
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلی اذان صبح کاذب کے وقت ہوتی ہے، جب رات کی تاریکی میں مشرق کی طرف سے ایک روشنی نمودار ہوتی ہے جو بھیڑیے کی دم کی طرح نیچے سے اوپر کی طرف پھیلتی ہے۔ یہ رات ہی کا حصہ ہوتی ہے، پھر کچھ دیر کے بعد صبح صادق یعنی اصل صبح نمودار ہوتی ہے، جس کی روشنی دائیں سے بائیں طرف پھیلتی ہے، اس کے ساتھ صبح کی اذان اور نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور روزہ دار کا کھانا پینا بند ہو جاتا ہے۔ امام صاحب کے اس باب کا مقصد یہ ہے کہ فجر سے پہلے بھی اذان ہوتی ہے مگر وہ صبح کی نماز کی اذان نہیں بلکہ سونے والے کو جگانے اور قیام والے کو آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 621
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:621
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اذان طلوع فجر سے پہلے جائز ہے، حالانکہ حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبل از فجر اذان نماز فجر کے لیے ہوتی تھی، بلکہ اس اذان کے مقاصد ہی الگ ہیں، یعنی نماز تہجد سے فارغ ہوکر اذان فجر سے پہلے پہلے سحری کھانا اور نماز کےلیے بیدار ہوکر ضروریات سے فارغ ہونا تاکہ نماز فجر کی تیاری کی جاسکے، جبکہ اذان فجر کا مقصد انتہائے سحری کا اعلان اور نماز فجر کےلیے وقت کی اطلاع دینا ہے، اس لیے مناسب تھا کہ یہ عنوان بایں الفاظ ہوتا:
”فجر سے قبل سحری کی اذان دینا۔
“ (2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فجر دوطرح کی ہوتی ہے:
ایک فجر کا ذب اور دوسری فجر صادق، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ فجر کی دواقسام ہیں:
ایک وہ جس میں کھانا حرام اور نماز پڑھنا جائز ہوتا ہے اور دوسری وہ جس میں نماز پڑھنا حرام اور کھانا تناول کرنا حلال ہوتاہے۔
ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ ایک وہ صبح ہے جو بھیڑیے کی دم کی طرح بالکل سیدھی آسمان میں اوپر چڑھتی معلوم ہوتی ہے۔
اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا، البتہ کھانا تناول کرنے کو حرام نہیں کرتی۔
اور دوسری وہ جو آسمان کے کناروں میں دائیں بائیں پھیل جاتی ہے، یہ روزے دار کے لیےکھانے کو حرام کردیتی ہے اور اس میں نماز فجر ادا کرنا جائز اور حلال ہوتا ہے۔
(المستدرك للحاکم: 1919/1، حدیث: 687، 688)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 621
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 642
´نماز کا وقت ہوئے بغیر اذان دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رات رہتی ہے تبھی اذان دے دیتے ہیں تاکہ سونے والوں کو جگا دیں، اور تہجد پڑھنے والوں کو (سحری کھانے کے لیے) گھر لوٹا دیں، اور وہ اس طرح نہیں کرتے یعنی صبح ہونے پر اذان نہیں دیتے ہیں بلکہ پہلے ہی دیتے ہیں“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 642]
642 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر طلوع ہونے سے قبل اذان کہتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ فجر کاذب کا وقت ہوتا تھا جیسا کہ اس حدیث میں اشارہ ہے۔ یہ اذان دراصل صبح کی نماز کی تیاری کے لیے ہوتی تھی تاکہ لوگ اپنی مصروفیات (قضائے حاجت، غسل وغیرہ) سے دوسری اذان تک فارغ ہو جائیں، دوسری اذان کے بعد مسجد میں پہنچ جائیں اور نماز اول وقت پر پڑھی جا سکے۔
➋ پہلی اذان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو تہجد وغیرہ پڑھ رہے ہیں، وہ نماز کو مختصر کر دیں اور وتر وغیرہ پڑھ لیں کیونکہ فجر کا وقت ہونے والا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 642
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2172
´فجر کیسے ہوتی ہے؟`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں، تاکہ وہ تم میں سونے والوں کو ہوشیار کر دیں، (تہجد پڑھنے یا سحری کھانے کے لیے) اور تہجد پڑھنے والوں کو (گھر) لوٹا دیں، اور فجر اس طرح ظاہر نہیں ہوتی“، انہوں اپنی ہتھیلی سے اشارہ کیا، ”بلکہ فجر اس طرح ظاہر ہوتی ہے“ انہوں نے اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں سے اشارہ کیا۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2172]
اردو حاشہ:
(1) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان، فجر سے کچھ پہلے ہوتی تھی تاکہ لوگ جلدی اٹھ کھڑے ہوں اور بروقت مصروفیات سے فارغ ہو کر جماعت میں مل سکیں کیونکہ یہ قضائے حاجت اور غسل وغیرہ کا وقت ہوتا ہے۔ اگر عین طلوع فجر پر اٹھیں تو جماعت سے رہ جائیں گے۔ دوسری اذان میں عین طلوع فجر کے بعد ہوتی تھی۔ (بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے غالباً اسی پر قیاس کرتے ہوئے جمعۃ المبارک کی بھی دو اذانیں جاری فرمائیں)۔
(2) ”جاگے ہوؤں کو لوٹائیں۔“ یعنی وہ نماز تہجد کو مختصر کر کے کچھ آرام کر لیں تاکہ فجر کی نماز میں سستی لاحق نہ ہو۔
(3) ”فجر ایسے نہیں ہوتی۔“ یعنی جب صرف چند شعاعیں نیچے سے اوپر کو اٹھتی ہوئی محسوس ہوں تو وہ فجر نہیں ہے۔ اسے فجر کاذب کہا جاتا ہے۔
(4) ”فجر ایسے ہوتی ہے۔“ یعنی جب شعاعیں زیادہ ہو جائیں اور افق پر پھیل جائیں اور افق واضح طور پر روشن نظر آنے لگے۔ اسے صبح صادق کہتے ہیں۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان کہتے تھے اور اسی اذان سے نماز فجر اور روزے کا آغاز ہوتا تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2172
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1696
´سحری دیر سے کھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے نہ روکے، وہ اذان اس لیے دیتے ہیں کہ تم میں سونے والا (سحری کھانے کے لیے) جاگ جائے، اور قیام (یعنی تہجد پڑھنے) والا اپنے گھر چلا جائے، اور فجر اس طرح سے نہیں ہے، بلکہ اس طرح سے ہے کہ وہ آسمان کے کنارے عرض (چوڑان) میں ظاہر ہوتی ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1696]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
فجر کے وقت دو اذانیں مسنون ہیں ایک اذا ن صبح صا دق سے پہلے دی جا ئے جیسے عرف عام میں سحری کی اذ ان کہا جا تا ہے اور دوسری اذان صبح صادق ہونے پر نما ز فجر کے لئے دی جا ئے
(2)
بہتر ہے کہ دونو ں اذانو ں کے لئے دو الگ الگ مئوذن مقرر کیے جا ئیں تا کہ لو گو ں کو آواز سن کر معلو م ہو جا ئے کہ اب کون سی اذان ہو رہی ہے مسجد نبوی میں دوسری اذان یعنی نما ز فجر کی اذان کے لئے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقرر تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الأذان، باب أذان الأعمیٰ إذا کان له من یخبرہ، حدیث: 617)
(3)
پہلی اذان کے یہ فوائد ذکر کیے گے ہیں کہ جو شخص سو رہا ہے وہ جا گ اٹھے اگر سحری کھانی ہو تو سحری کھا لے ورنہ نماز فجر کی تیاری کرے اور جو شخص تہجد پڑھ رہا ہے وہ اس سے فا رغ ہو کر مذکورہ کامو ں کے لئے تیا ری کرے اور دیگر لو گ قضا ئے حا جت وغیرہ فارغ ہو کر وضو کر کے بر وقت مسجد میں پہنچ جائیں تا کہ نماز با جماعت میں شریک ہو سکیں۔
(4)
عہد رسا لت میں دو اذانوں کا یہ سلسلہ مستقل معمول تھا صرف رمضان ہی کے مہینے میں ایسا نہیں ہو تا جیسا کے عا م طو ر پر سمجھا جا تا ہے اس لئے صرف رمضا ن میں اس کا اہتمام کر نا صحیح نہیں ہے
(5)
نبی ﷺ نے صبح کاذب اور صبح صادق کا فرق اشارے سے واضح فر مایا پہلے اس طرح کا مطلب یہ ہے کہ روشنی کا رخ اوپر کی طرف زیا دہ ہو اسے صبح کاذب کہتے ہیں دوسرے اس طرح کا مطلب یہ ہے کہ روشنی اطراف میں پھیلے یہ صبح صادق ہو تی ہے۔
(6)
با ت سمجھانے کے لئے اشارہ کرنا درست ہے تاہم خطبے میں دونوں ہا تھ ہلانا اور نعرے وغیرہ لگوانا مناسب نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1696
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7247
7247. سیدنا ابن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں کسی کو بلال ؓ کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے کیونکہ وہ اس لیے اذان دیتا ہے تاکہ جو تہجد کے قیام میں مصروف ہیں وہ واپس آجائیں اور جو سوئے ہوئے ہیں وہ بیدار ہوجائیں اور فجر وہ نہیں جو اس طرح(لمبی دھاری) ہوتی ہے۔“ (راؤی حدیث) یحیٰی نے اس کے اظہار کے لیے اپنے دونوں ہاتھ ملائے کہ آپ نےفرمایا: ”فجر وہ ہے جو پھیل جائے۔“ (راوی حدیث) یحیٰی نے اس کے اظہار کے لیے اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں کو پھیلا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7247]
حدیث حاشیہ:
یعنی چوڑے آسمان کے کنارے کنارے پھیلی ہوئی صبح صادق ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7247