حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قِسْمَةً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي مَلَإٍ فَسَارَرْتُهُ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ:" رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:110
110- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز تقسیم کی، تو ایک شخص بولا: یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے: مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے اس وقت یہ آرزو کی کہ کاش میں اس دن مسلمان ہوا ہوتا۔ س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:110]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر اعتراض معتبر نہیں ہوتا، بلکہ بعض اعتراضات فضول اور ردی ہوتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ انسان کو بے جا اعتراض سے پریشانی لازم آتی ہے اور سننے والے لوگ بھی پریشان ہوتے ہیں، اس لیے کسی کو بے جا پریشان کرنا درست نہیں ہے علم عمل دور دور تک نہیں ملتا ہے، جبکہ شکوک و شبہات اور بدگمانیاں عام ہیں۔ علم و عمل کے بغیر معاشرہ اسلامی نہیں بن سکتا۔ کوئی تکلیف دے تو اس پر صبر کرنا چاہیے، انبیاء کرام علیہم السلام کے ورثاء علمائے کرام کو اکثر تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو انھیں ان پر صبر سے کام لینا چاہیے۔ جب انبیائے کرام علیہم السلام تکالیف سے نہیں بچ سکے تو علمائے کرام کیسے بچ سکیں گے؟
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 110
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2448
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک دفعہ مال تقسیم کیا تو ایک آدمی نے کہا یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کو راضی کرنے کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا، اور چپکے سے آپﷺ کو بتا دیا، لہٰذا آپﷺ انتہائی غصہ میں آ گئے اور آپﷺ کا چہرہ سرخ ہو گیا حتی کہ میں نے خواہش کی کاش میں آپ کو یہ بات نہ بتاتا پھر آپﷺ نے فرمایا: ”موسیٰ علیہ السلام کو اس سے بھی زیادہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2448]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
یہ اعتراض کرنے والا معتب بن قشیر نامی منافق تھا۔
اور اگلے باب میں اعتراض کرنے والا خارجیوں کا لیڈر اور سرغنہ اوران کا پیش رو حرقوص بن زہیر السعدی ہے یہ دونوں فرد الگ الگ ہیں۔
2۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے آپﷺ مال غنیمت کی تقسیم اللہ تعالیٰ کی منشا اور مرضی کے مطابق فرماتے تھے۔
اس لیے آپﷺ نے فرمایا:
”اگر اللہ اور اس کا رسول ہی عادلانہ تقیسم نہیں کریں گے تو پھر دنیا میں منصفانہ تقسیم کون کر سکتا ہے۔
“3۔
آپﷺ بشری تقاضا کے تحت ایک انتہائی نامعقول بات سن کر متاثر ہو گئے اور آپﷺ پر شدید غضب طاری ہو گیا۔
لیکن آپﷺ نے پیغمبرانہ تحمل وبرداشت سے کام لیا اور بتایا پیغمبروں کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ باتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔
لیکن وہ صبر وتحمل کا دامن نہیں چھوڑتے۔
لیکن چونکہ وہ نام نہاد مسلمان تھا۔
اس لیے آپﷺ نے اسے اس گستاخی اور بے ادبی پر سزا نہیں دی۔
4۔
کسی کو کوئی بات اس مقصد کے تحت بتانا کہ وہ اپنی عزت کا دفاع کر سکے یا بد فہمی اورغلط فہمی دور کر سکے۔
یہ غیبت اور چغلی نہیں ہے۔
ہاں بگاڑ اور فساد کے لیے لگائی بجھائی کرنا جائز نہیں ہے۔
5۔
بعض انسان رسول کے فیصلہ اورحکم کی حکمت اور مصلحت کو نہیں سمجھ سکتا۔
تو ایسے انسان کو رسول کے حکم پر مطمئن ہونا چاہیے۔
اس کے بارے میں کسی بدگمانی یا بدظنی کا شکار ہو کر اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2448
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3405
3405. حضرت عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے مال تقسیم کیا تو ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں ہے۔ میں یہ سن کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ کو بتایا تو آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ میں نے چہرہ انور پر غصے کے آثار دیکھے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحمت کرے! انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی، تاہم انھوں نے صبر سے کام لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3405]
حدیث حاشیہ:
کہنےوالا منافق تھا۔
آنحضرت ﷺ نےاس منافق کی بکواس پرصبر کیا اور اس بارے میں حضرت موسیٰ کا ذکر فرمایا۔
یہی باب سےوجہ مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3405
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4335
4335. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ حنین سے ملنے والے مال غنیمت کی تقسیم کر رہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے کہا: اس تقسیم میں رضائے الہٰی کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی اطلاع دی تو آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی حضرت موسٰی ؑ پر رحم فرمائے، انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف فی گئی، لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4335]
حدیث حاشیہ:
حضرت موسی ؑ کے مزاج میں شرم اور حیاتھی۔
وہ چھپ کر تنہا ئی میں نہایا کرتے تھے۔
بنی اسرائیل کو یہ شگوفہ ہاتھ آیا۔
کسی نے کہا کہ ان کے خصیے بڑھ گئے ہیں۔
کسی نے کہا، ان کو بر ص ہو گیا ہے۔
اس قسم کے بہتان لگانے شروع کئے۔
آخر اللہ تعالی نے ان کی پاکی اور بے عیبی ظاہر کردی۔
یہ قصہ قرآن شریف میں مذکور ہے ﴿یاَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُو الَاتَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوا مُوسی﴾ (الاحزاب: 69)
آخر تک۔
روایت میں جس منافق کا ذکر مذکور ہے۔
اس کم بخت نے اتنا غور نہیں کیا کہ دنیا کا مال ودولت اسباب سب پروردگار کی ملک ہیں جس پیغمبر کو اللہ تعالی نے اپنا رسول بنا کر دنیا میں بھیج دیا اس کو پورا اختیار ہے کہ جیسی مصلحت ہو اسی طرح دنیا کا مال تقسیم کرے۔
اللہ کی رضا مندی کا خیال جتنا اس کے پیغمبر کو ہوگا، اس کا عشر عشیر بھی اوروں کو نہیں ہو سکتا۔
بد باطن قسم کے لوگوں کا شیوہ ہی یہ رہاہے کہ خواہ مخواہ دوسروں پر الزام بازی کرتے رہتے ہیں اور اپنے عیوب پر کبھی نظر نہیں جاتی۔
سند میں حضرت سفیان ثوری کا نام آیا ہے۔
یہ کوفی ہیں اپنے زمانہ میں فقہ اور اجتہاد کے جامع تھے۔
خصوصاً علم حدیث میں مرجع تھے۔
ان کاثقہ، زاہد اور عابد ہونا مسلم ہے۔
ان کو اسلام کا قطب کہا گیا ہے۔
ائمہ مجتہدین میں ان کا شما ر ہے۔
سنہ 99 ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ 161 ھ میں بصرہ میں وفات پائی، حشرنا اللہ معهم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4335
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4336
4336. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے رویت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ حنین کے موقع پر کچھ لوگوں کو بہت جانور عطا فرمائے، چنانچہ اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے، عیینہ بن حصن فزاری کو بھی اتنے ہی دیے، دوسرے اشراف عرب کو بھی آپ نے اسی حساب سے دیا۔ اس پر ایک شخص نے کہا: اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں اس امر کی اطلاع نبی ﷺ کو ضرور دوں گا۔ جب آپ ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا: ”اللہ تعالٰی حضرت موسٰی ؑ پر رحم فرمائے انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ پہنچایا گیا لیکن انہوں نے صبر کیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4336]
حدیث حاشیہ:
صبر عجیب نعمت ہے پیغمبروں کی خصلت ہے۔
جس نے صبر کیا وہ کامیاب ہوا، آخر میں اس کا دشمن ذلیل وخوار ہوا۔
اللہ کا لاکھ بار شکر ہے کہ مجھ ناچیز کو بھی اپنی زندگی میں بہت سے خبیث النفس دشمنوں سے پالا پڑا۔
مگر صبر سے کام لیا، آخر وہ دشمن ہی ذلیل وخوار ہوئے۔
خد مت بخاری کے دوران بھی بہت سے حاسدین کی ہفوات پر صبر کیا۔
آخر اللہ کا لاکھوں لاکھ شکر جس نے اس خدمت کے لیے مجھ کو ہمت عطا فرمائی، والحمد للہ علی ذلك۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4336
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6059
6059. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا تو انصار میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! محمد ﷺ نے اس تقسیم سے اللہ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس شخص کی بات سے مطلع کیا تو آپ کا چہرہ انور متغیر ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی موسیٰ ؑ پر رحم کرے انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی تھی لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6059]
حدیث حاشیہ:
یہ اعتراض کرنے والا منافق تھا اور اس کا نام معتب بن قشیر تھا، ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت امانت پر حملہ کیا حالانکہ آپ سے بڑھ کر امین دیانت دار انسان دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا جس کی امانت کے کفار مکہ بھی قائل تھے جو آپ کو صادق اور امین کے نام سے پکارا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6059
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3150
3150. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حنین کے دن کچھ لوگوں کو تقسیم میں زیادہ دیا تھا، چنانچہ اقرع بن حابس ؓ کو سو اونٹ، عیینہ ؓ کو بھی سو اونٹ دیے۔ ان کے علاوہ شرفائے عرب میں سے چند لوگوں کو اس طرح تقسیم میں کچھ زیادہ دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایسی تقسیم ہے کہ اس میں انصاف پیش نظر نہیں رکھا گیا یا اس میں اللہ کی رضا مقصود نہ تھی۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نبی کریم ﷺ کو اس بات سے ضرور آگاہ کروں گا، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور آپ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر اللہ اور اس کا رسول ﷺ انصاف نہیں کریں گے تو پھر انصاف کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی مگر انھوں نے صبر کیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3150]
حدیث حاشیہ:
آپ نے اس منافق کو سزا نہیں دلوائی، کیوں کہ وہ اپنے قول سے انکاری ہوگیا ہوگا یا صرف ایک شخص عبداللہ بن مسعود ؓ کی گواہی تھی اور ایک کی گواہی پر جرم ثابت نہیں ہو سکتا، یا آپ ﷺ نے اس کو سزا دینا مصلحت نہ سمجھا ہو۔
قال القسطلاني لم ینقل أنه صلی اللہ علیه وسلم عاقبه وفي المقاصد قال قاضي عیاض حکم الشرع أن من سب النبي صلی اللہ علیه وسلم کفر و یقتل ولکنه لم یقتل تألیفا لغیرهم ولئلا یشتهر في الناس أنه صلی اللہ علیه وسلم یقتل أصحابه فینفروا یعنی آنحضرت ﷺ کو گالی دینے والا کافر ہوجاتا ہے۔
جس کی سزا شرعاً قتل ہے مگر آپ نے مصلحتاً اس کو نہیں مارا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3150
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6100
6100. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا جیسا کہ آپ پہلے بھی کیا کرتے تھے۔ ایک انصاری آدمی نے کہا: اس تقسیم میں اللہ تعالٰی کی رضا کا خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا یہ بات میں نبی ﷺ سے ضرور ذکر کروں گا،چناں چہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ دیگر صحابہ کرام ؓ بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے چپکے سے یہ بات آپ کے گوش گزار کر دی۔ نبی ﷺ کو یہ بات بہت ناگوار گزری، چہرہ انور متغیر ہو گیا اور آپ بہت غضب ناک ہوئے یہاں تک کہ میں نے خواہش کی: کاش! میں آپ کو یہ خبر نہ دیتا اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”موسیٰ ؑ کو اس سے بھی ذیادہ اذیت پہنچائی گئی تھی لیکن انہوں نے صبر کام لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6100]
حدیث حاشیہ:
پس میں بھی صبر کروں گا۔
اعتراض کرنے والا معتب بن قشیر نامی منافق تھا یہ نہایت ہی خراب بات اسی نے کہی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کیا اور اس کی بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا، اسی سے بات کا مطلب ثابت ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6100
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6336
6336. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے کوئی چیز تقسیم فرمائی تو ایک شخص بولا: اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں۔ میں نے نبی ﷺ کو اس کی خبر دی تو آپ بہت ناراض ہوئے حتیٰ کہ میں نے خفگی کے اثرات آپ کے چہرہ انور پر دیکھے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6336]
حدیث حاشیہ:
میں بھی ایسے بے جا الزامات پر صبر کرونگا۔
یہ اعتراض کرنے والا منافق تھا اور اعتراض بھی بالکل باطل تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مصالح ملی کو سب سے زیادہ سمجھنے والے اور مستحقین کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔
پھر آپ کی تقسیم پر اعتراض کرنا کسی مومن مسلمان کا کام نہیں ہو سکتا۔
سوائے اس شخص کے جس کا دل نور ایمان سے محروم ہو۔
جملہ احکام اسلام کے لئے یہی قانون ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6336
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3150
3150. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حنین کے دن کچھ لوگوں کو تقسیم میں زیادہ دیا تھا، چنانچہ اقرع بن حابس ؓ کو سو اونٹ، عیینہ ؓ کو بھی سو اونٹ دیے۔ ان کے علاوہ شرفائے عرب میں سے چند لوگوں کو اس طرح تقسیم میں کچھ زیادہ دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایسی تقسیم ہے کہ اس میں انصاف پیش نظر نہیں رکھا گیا یا اس میں اللہ کی رضا مقصود نہ تھی۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نبی کریم ﷺ کو اس بات سے ضرور آگاہ کروں گا، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور آپ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر اللہ اور اس کا رسول ﷺ انصاف نہیں کریں گے تو پھر انصاف کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی مگر انھوں نے صبر کیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3150]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے۔
عبد اللہ بن مسعود ؓنے جب راز داری کے طور پرآپ سے یہ بات کی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا حتی کہ میں نے کہا:
کاش! اس بات کا تذکرہ آپ سے نہ کرتا۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2448)
2۔
قاضی عیاض اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے والا کافر ہے اور اسے فوراً قتل کردیا جائے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس گستاخ کوکوئی سزا نہ دی کیونکہ جرم ثابت ہونے کے لیے اقرار ہو یا کم ازکم دو گواہوں لیکن اس مقام پر صرف ایک گواہی تھی اور گستاخ نے صحت جرم سے بھی انکار کردیا ہو گا۔
(عمدة القاري: 495/10)
2۔
اس روایت سے امام بخاری ىنے ثابت کیا ہے کہ امام وقت کو یہ حق ہے کہ تالیف قلب کے لیے کسی کو دوسروں سے زیادہ حصہ دے دے یہی وجہ ہے کہ گستاخ کو اعتراض کرنے کا موقع ملا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3150
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3405
3405. حضرت عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے مال تقسیم کیا تو ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں ہے۔ میں یہ سن کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ کو بتایا تو آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ میں نے چہرہ انور پر غصے کے آثار دیکھے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحمت کرے! انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی، تاہم انھوں نے صبر سے کام لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3405]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں ھذا کا اشارہ اس کلام کی طرف قراردیا تھا۔
ایسا قطعاً نہیں کہ موسیٰ ؑ نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ تکلیفیں اور دکھ درد برداشت کیے کیونکہ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”مجھے اللہ تعالیٰ کی خاطر اس قدر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا کہ اس قدر کسی دوسرے کو تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
“ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 2222)
2۔
واضح رہے کہ ایذائے موسیٰ سے مراد حدیث غسل کی طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے بعض شارحین نے قارون کی شرارت کو ایذائے موسیٰ قراردیا ہے کہ اس نے ایک عورت کو تیار کیا جو لوگوں کے سامنے اس بات کا اقرار کرتی تھی حضرت موسیٰ ؑ نے مجھ سے بدکاری کی ہے۔
بہر حال مسلمانوں کو ہر اس کام سے بچنا چاہیے جو رسول اللہ ﷺ کی ایذارسانی کا باعث ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3405
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4336
4336. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے رویت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ حنین کے موقع پر کچھ لوگوں کو بہت جانور عطا فرمائے، چنانچہ اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے، عیینہ بن حصن فزاری کو بھی اتنے ہی دیے، دوسرے اشراف عرب کو بھی آپ نے اسی حساب سے دیا۔ اس پر ایک شخص نے کہا: اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں اس امر کی اطلاع نبی ﷺ کو ضرور دوں گا۔ جب آپ ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا: ”اللہ تعالٰی حضرت موسٰی ؑ پر رحم فرمائے انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ پہنچایا گیا لیکن انہوں نے صبر کیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4336]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کرنے والا قبیلہ عمرو بن عوف سے ایک منافق تھا جس کا نام معتب بن قشیر ہے، جبکہ بعض نے اس کا نام حرقوص بن زہیر بتایا ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ حرقوص کا واقعہ ابوسعید خدری ؓ کی بیان کردہ حدیث میں آگے آرہا ہے۔
(فتح الباري: 69/8)
2۔
اعتراض کرنے والے بدبخت نے اتنا بھی غور نہ کیا کہ دنیا کا مال ومتاع سب اللہ کی ملکیت ہے جس پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی رہنمائی کے لیے منتخب کیا ہے اسے پورا پورا اختیار دیا ہے کہ مصلحت کے مطابق جس طرح چاہے اللہ کا مال تقسیم کرے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا جتنا خیال اس کے رسول کو ہوتا ہے، دوسروں کو دسواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔
بد باطن قسم کے لوگوں کا یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ خواہ مخواہ دوسروں پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں اور اپنے عیوب پر ان کی نظر نہیں جاتی۔
3۔
واضح رہے کہ حضر ت موسیٰ ؑ بہت ہی شرمیلے تھے، وہ پردے میں رہ کر غسل کرتے تھے جبکہ بنی اسرائیل میں حیاداری کا مادہ نہیں تھا۔
انھوں نے موسیٰ ؑ پر تہمت لگائی کہ ان کے جسم پر برص ہے یا کسی دوسری موذی مرض میں مبتلا ہیں اورایسی باتوں سے حضرت موسیٰ ؑ کو تکلیف پہنچاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی باتوں سے بری قراردیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ ؑ کو اذیت پہنچائی، اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی باتوں سے بری قراردیا۔
" (الأحزاب: 69/33)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4336
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6059
6059. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا تو انصار میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! محمد ﷺ نے اس تقسیم سے اللہ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس شخص کی بات سے مطلع کیا تو آپ کا چہرہ انور متغیر ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی موسیٰ ؑ پر رحم کرے انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی تھی لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6059]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ودیانت پر حملہ کرنے والا یہ شخص منافق تھا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر امین اور دیانت دار کوئی انسان آج تک دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا۔
آپ کی امانت ودیانت کے قائل تو کفار مکہ بھی تھے۔
بہر حال نیک طینت لوگوں کے حق میں اگر کوئی نازیبا بات کہی جائے تو ان پر گراں گزرتی ہے لیکن وہ اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہل فضل کی اقتدا کرتے ہوئے صبر کرتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب وآلام پر صبر کرنے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اقتدا کی۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان اور حدیث سے مقصود یہ ہے کہ کسی کی بات نقل کرنے سے اگر اصلاح واخلاص کی نیت ہو تو ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات نقل کرنے پر خاموش رہے بلکہ جس نے بات کہی تھی اس پر اظہار ناراضی فرمایا اور اگر اس کا مقصد فساد ڈالنا اور خرابی پیدا کرنا ہوتو ایسا کرنا جائز نہیں۔
(فتح الباري: 584/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6059
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6100
6100. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا جیسا کہ آپ پہلے بھی کیا کرتے تھے۔ ایک انصاری آدمی نے کہا: اس تقسیم میں اللہ تعالٰی کی رضا کا خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا یہ بات میں نبی ﷺ سے ضرور ذکر کروں گا،چناں چہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ دیگر صحابہ کرام ؓ بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے چپکے سے یہ بات آپ کے گوش گزار کر دی۔ نبی ﷺ کو یہ بات بہت ناگوار گزری، چہرہ انور متغیر ہو گیا اور آپ بہت غضب ناک ہوئے یہاں تک کہ میں نے خواہش کی: کاش! میں آپ کو یہ خبر نہ دیتا اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”موسیٰ ؑ کو اس سے بھی ذیادہ اذیت پہنچائی گئی تھی لیکن انہوں نے صبر کام لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6100]
حدیث حاشیہ:
(1)
غزوۂ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے نئے مسلمانوں کی تالیف قلبی کے لیے اقرع بن حابس کو سو اونٹ، عیینہ بن حصن کو سو اونٹ اور قریش کے سرداروں کو سو، سو اونٹ دیے تو حاضرین میں سے ایک آدمی نے اعتراض کیا کہ اس تقسیم میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر اللہ اور اس کا رسول عدل و انصاف نہیں کریں گے تو دنیا میں عدل کا علمبردار کون ہو گا۔
“ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3150) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کو دی جانے والی اذیت سے درج ذیل آیت کی طرف اشارہ فرمایا:
”اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام)
کو تکلیف دی تھی تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام)
کو ان کی بتائی ہوئی باتوں سے بری کر دیا کیونکہ وہ اللہ کے ہاں بڑی عزت والے تھے۔
'' (الأحزاب33: 69) (3)
حافظ ابن حجر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اذیت کے متعلق تین قصوں کا ذکر کیا ہے:
ایک یہ کہ موسیٰ علیہ السلام ایک جسمانی نقص کا شکار تھے، دوسرا ہارون علیہ السلام کی موت اور تیسرا قارون کے ساتھ ان کا واقعہ تھا۔
(فتح الباري: 630/10)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صبر سے کام لیا اور بے ہودہ بات کہنے والے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
صلی اللہ علیہ وسلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6100
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6336
6336. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے کوئی چیز تقسیم فرمائی تو ایک شخص بولا: اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں۔ میں نے نبی ﷺ کو اس کی خبر دی تو آپ بہت ناراض ہوئے حتیٰ کہ میں نے خفگی کے اثرات آپ کے چہرہ انور پر دیکھے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6336]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم پر اعتراض کرنے والا ذوالخویصرہ نامی ایک منافق شخص تھا جس کی نسل سے خارجی لوگ پیدا ہوئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں خارجیوں سے جنگ کی۔
(2)
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے دعا فرمائی لیکن خود کو اس میں شریک نہیں کیا۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے یہ حدیث لائے ہیں۔
(3)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کا ذکر کرتے تو اس کے لیے دعا کرتے اور اپنی ذات سے دعا کا آغاز کرتے۔
(جامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3385)
لیکن یہ بات قاعدے کلیے کے طور پر نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت لوط علیہ السلام کے لیے دعا فرمائی، لیکن اپنی ذات کا حوالہ نہیں دیا، اسی طرح قبل ازیں ایک حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے دعا کا ذکر ہے لیکن اپنی ذات کو اس میں شریک نہیں کیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6336