حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ".
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 619
فائدہ:
اس حدیث سے تو باب کا مطلب نہیں نکلتا، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جو آگے حدیث (626) میں آئے گا۔ اس میں صاف وضاحت ہے کہ صبح کی نماز کے لیے اذان فجر واضح ہونے کے بعد کہی جاتی تھی۔ [فتح الباري] بعضوں نے کہا: اذان اور تکبیر کے بیچ میں یہ رکعتیں پڑھنے سے باب کا مطلب نکل آیا، کیونکہ اگر رات سے اذان ہو گی تو یہ رکعتیں بیچ میں نہ ہوں گی بلکہ تکبیر سے قریب ہوں گی۔ [تيسير الباري]
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 619
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:619
حدیث حاشیہ:
ظاہر کے اعتبار سے اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا کیونکہ عنوان طلوع فجر کے بعد اذان دینے سے متعلق ہے جبکہ حدیث اقامت اور اذان کے درمیان دورکعت پڑھنے کے بارے میں ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ کا اپنی صحیح میں یہ اسلوب ہے کہ بعض اوقات ایک حدیث کے ذریعے سے کسی دوسری حدیث کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے، چنانچہ اس مقام پر بھی آپ نے یہی انداز اختیار کیا ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسی سے عنوان ثابت ہوتا ہے، چنانچہ ان سے روایت ہے کہ جب مؤذن نماز صبح کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوتے اور نماز فجر ادا کرنے سے پہلے ہلکی پھلکی دورکعت ادا کرتے۔
سنتوں کی یہ ادائیگی فجر کے روشن ہونے کے بعد ہوتی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 626)
اس روایت میں وضاحت ہے کہ صبح کی نماز کےلیے طلوع فجر کے بعد اذان دی جاتی تھی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 619
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 947
´فجر کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی سنتیں پڑھتے دیکھتی، آپ انہیں اتنی ہلکی پڑھتے کہ میں (اپنے جی میں) کہتی تھی: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی ہے (یا نہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 947]
947 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ مبالغہ ہے جس سے مقصود تخفیف ہے، نہ کہ انہیں شک تھا۔ خصوصاً رات کی نماز (تہجد) کے مقابلے میں تو یہ بہت ہی خفیف معلوم ہوتی ہوں گی، چنانچہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ فجر کی دو سنتیں ہلکی پڑھنا مستحب ہے۔
➋ مذکورہ قرأت سورۂ فاتحہ کے علاوہ ہے۔ یہ نہیں کہ صرف یہ آیات یا یہ سورتیں ہی پڑھتے تھے۔ سورۂ فاتحہ کے بارے میں تو آپ کا صریح فرمان ہے کہ جو فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 874]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 947
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1763
´فجر کی دو رکعت کے بعد داہنی کروٹ لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب مؤذن فجر کی پہلی اذان کہہ کر خاموش ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے، اور فجر نمودار ہونے کے بعد فجر کی نماز سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1763]
1763۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی سنتیں پڑھ کر لیٹنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ اسے بڑھاپے کی وجہ سے محض آرام کرلینا، قرار نہیں دیا جا سکتا جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں۔ اس کی تفصیل حدیث: 1727 کے فوائد میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1763
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1781
´فجر کی دو رکعت (سنت) کا وقت اور نافع کی روایت میں رواۃ کے اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1781]
1781۔ اردو حاشیہ: تہجد کی لمبی لمبی رکعتوں کے بعد تو یہ رکعتیں واقعتاً ہلکی ہی معلوم ہوتی ہیں۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بھی سکون و اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھتے تھے مگر آپ قرأت ہلکی کرتے تھے، مثلاً: (قل یایھا الکفرون) اور (قل ھواللہ احد)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1781
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1262
´فجر کی سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری رات میں اپنی نماز پوری کر چکتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے گفتگو کرتے اور اگر سو رہی ہوتی تو مجھے جگا دیتے، اور دو رکعتیں پڑھتے پھر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی خبر دیتا تو آپ دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکل جاتے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1262]
1262۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتے تھے، کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعد لیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہوا ہے، جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کا ذکر سنتوں کے بعد ہی کیا ہے۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: [فتح الباري، باب من تحدث بعد الركعتين ولم يضطجع: 3/56]
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو ”شاذ“ قرار دیا ہے۔ [ضعيف ابوداؤد]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کے بعد دو رکعتیں نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ ”تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ۔“ تو یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں، استحباب کے طور پر ہے۔ [مرعاة المفاتيح]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1262
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 287
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے پہلے دو رکعت ہلکی پڑھتے تھے۔ میں خیال کرتی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف «ام الكتاب» (سورۃ الفاتحہ) ہی پڑھی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 287»
تخریج: «أخرجه البخاري، التهجد، باب ما يقرأ في ركعتي الفجر، حديث:1171، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صبح کی دو سنتیں مختصر اور ہلکی پڑھتے تھے۔
امام شافعی اور جمہور علماء رحمہما اللہ نے اسی بنا پر کہا ہے کہ ان دو رکعتوں میں مختصر قیام افضل ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان میں بھی لمبا قیام افضل قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہ صحیح نہیں۔
ان کے دونوں شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے بھی ان کی مخالفت کی ہے۔
سورۂ فاتحہ کے علاوہ آپ چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 287
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 289
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کی دو رکعت سنت پڑھ کر فارغ ہوتے تو اپنے دائیں پہلو کے بل لیٹ جاتے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 289»
تخریج: «أخرجه البخاري، التهجد، باب الضجعة علي الشق لأيمن بعد ركعتي الفجر، حديث:1160.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کو ادا کر کے آپ اپنے دائیں پہلو پر تھوڑا سا لیٹ کر استراحت فرمایا کرتے تھے بلکہ ایک روایت میں آپ نے اس کا حکم بھی فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں آرہاہے۔
اس کی شرعی حیثیت کے متعلق آراء مختلف ہیں مگر صحیح موقف کے مطابق یہ مسنون اور مستحب ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 289
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1198
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعت سنت پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1198]
اردو حاشہ:
فائده:
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا سنت ہے۔
لیکن نبی اکرمﷺ سے بعض اوقات نہ لیٹنا بھی ثابت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ہے۔
انھوں نے فرمایا نبی اکرمﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے بات چیت كرتے ورنہ لیٹ جائے حتیٰ کہ آپ کو نماز (کی اقامت ہوجانے)
کی اطلاع دی جاتی۔ (صحیح البخاري، التهجد، باب من تحدث بعدالرکعتین ولم یضطع، حدیث: 1161)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1198
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:181
فائدہ:
نماز فجر کی دو سنتیں بلکی پڑھنی چاہئیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قطعاً مقصد نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھی ہی نہیں، بلکہ ان رکعتوں کے خفیف ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں، فافھم۔ دیگر احادیث نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 181
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1684
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی دو رکعت سنت اس قدر ہلکی پڑھتے تھے کہ میں دل میں کہتی تھی کیا آپ ﷺ نے ان میں فاتحہ پڑھی ہے؟ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1684]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی سنتوں کو اختصار و تخفیف (ہلکی)
کے ساتھ ادا کرتے تھے اور ان میں تلاوت زیادہ نہیں فرماتے تھے تاکہ صبح کی فرض نماز میں قرآءت طویل کی جا سکے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1684
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 626
626. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو فوراً رسول اللہ ﷺ فجر کے ظاہر ہونے کے بعد نماز فجر سے پہلے ہلکی پھلکی دو رکعتیں ادا فرماتے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تاآنکہ مؤذن تکبیر کے لیے آپ کے ہاں حاضر خدمت ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:626]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گھر میں سنت پڑھ کر جماعت کھڑی ہونے کا انتظار کرتے ہوئے بیٹھے رہنا جائز ہے۔
آج کل گھڑی گھنٹوں کا زمانہ ہے۔
ہرنمازی مسلمان اپنے ہاں کی جماعتوں کے اوقات کو جانتا ہے پس، اگر کوئی شخص عین جماعت کھڑی ہونے کے وقت پر گھر سے نکل کر شامل جماعت ہوتو یہ بھی درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 626
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1160
1160. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب صبح کی دو سنتیں پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1160]
حدیث حاشیہ:
فجر کی سنت پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹنا مسنون ہے، اس بارے میں کئی جگہ لکھا جا چکا ہے۔
یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق یہ باب منعقد فرمایا ہے اور حدیث عائشہ ؓ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔
علامہ شوکانی نے اس بارے میں علماءکے چھ قول نقل کئے ہیں۔
المحدث الکبیر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں:
الْأَوَّلُ أَنَّهُ مَشْرُوعٌ عَلَى سَبِيلِ الِاسْتِحْبَابِ كَمَا حَكَاهُ التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ الْحَافِظُ بن الْقَيِّمِ فِي زَادِ الْمَعَادِ قَدْ ذَكَرَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِي الْمُصَنَّفِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَيُّوبَ عن بن سِيرِينَ أَنَّ أَبَا مُوسَى وَرَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ وَأَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ كَانُوا يَضْطَجِعُونَ بَعْدَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ وَيَأْمُرُونَ بِذَلِكَ وَقَالَ الْعِرَاقِيُّ مِمَّنْ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ أَوْ يُفْتِي بِهِ عَنِ الصَّحَابَةِ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ وَرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَأَبُو هُرَيْرَةَ انْتَهَى وَمَنْ قَالَ بِهِ مِنَ التَّابِعِينَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ كَمَا فِي شَرْحِ الْمُنْتَقَى وَقَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ عَلِيُّ بْنُ حَزْمٍ فِي الْمُحَلَّى وَذَكَرَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدٍ فِي كِتَابِ السَّبْعَةِ أَنَّهُمْ يَعْنِي سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ وَالْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَعُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ وَأَبَا بَكْرٍ هُوَ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَخَارِجَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَعُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ كَانُوا يَضْطَجِعُونَ عَلَى أَيْمَانِهِمْ بَيْنَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ انْتَهَى وَمِمَّنْ قَالَ بِهِ مِنَ الْأَئِمَّةِ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُقَالَ الْعَيْنِيُّ فِي عمدة القارىء ذَهَبَ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ إِلَى أَنَّهُ سُنَّةٌ انْتَهَى۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی اس لیٹنے کے بارے میں پہلا قول یہ ہے کہ یہ مستحب ہے جیسا کہ امام ترمذی نے بعض اہل علم کا مسلک یہی نقل فرمایا ہے اور ابوموسی اشعری اور رافع بن خدیج اور انس بن مالک اور ابوہریرہ ؓ کا یہی عمل تھا، یہ سب سنت فجر کے بعد لیٹا کرتے اورلوگوں کو بھی اس کاحکم فرمایاکرتے تھے جیسا کہ علامہ ابن قیم ؒ نے زاد المعاد میں نقل فرمایا ہے اور علامہ عراقی نے ان جملہ مذکورہ صحابہ کے نام لکھے ہیں کہ یہ اس کے لیے فتوی دیاکرتے تھے، تابعین میں سے محمد بن سیرین اور عروہ بن زبیر کا بھی یہی عمل تھا۔
جیسا کہ شرح منتقیٰ میں ہے اور علامہ ابن حزم نے محلّی میں نقل فرمایا ہے کہ سعید بن مسیب، قاسم بن محمد بن ابی بکر، عروہ بن زبیر، ابو بکر بن عبدالرحمن، خارجہ بن زید بن ثابت اور عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن سلیمان بن یسار، ان جملہ اجلہ تابعین کا یہی مسلک تھا کہ یہ فجر کی سنتیں پڑھ کر دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔
امام شافعی اوران کے شاگردوں کا بھی یہی مسلک ہے کہ یہ لیٹنا سنت ہے۔
اس بارے میں دوسرا قول علامہ ابن حزم کا ہے جو اس لیٹنے کو واجب کہتے ہیں۔
اس بارے میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں:
قُلْتُ قَدْ عَرَفْتَ أَنَّ الْأَمْرَ الْوَارِدَ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَحْمُولٌ عَلَى الِاسْتِحْبَابِ لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يُدَاوِمُ عَلَى الِاضْطِجَاعِ فَلَا يَكُونُ وَاجِبًا فَضْلًا عَنْ أَنْ يَكُونَ شَرْطًا لِصِحَّةِ صَلَاةِ الصُّبْحِ۔
یعنی حدیث ابوہریرہ ؓ میں اس بارے میں جو بصیغہ امر وارد ہوا ہے کہ جوشخص فجر کی سنتوں کو پڑھے اس کو چاہیے کہ اپنی دائیں کروٹ پر لیٹے۔
(رواہ الترمذي)
یہ امر استحباب کے لیے ہے۔
اس لیے کہ آنحضرت ﷺ سے اس پر مداومت منقول نہیں ہے بلکہ ترک بھی منقول ہے۔
پس یہ بایں طور واجب نہ ہوگا کہ نماز صبح کی صحت کے لیے یہ شرط ہو۔
بعض بزرگوں سے اس کا انکار بھی ثابت ہے مگر صحیح حدیثوں کے مقابلے پر ایسے بزرگوں کا قول قابل حجت نہیں ہے۔
اتباع رسول کریم ﷺ بہر حال مقدم اور موجب اجر وثواب ہے۔
پچھلے صفحات میں علامہ انورشاہ دیوبندی مرحوم کا قول بھی اس بارے میں نقل کیا جا چکاہے۔
بحث کے خاتمہ پر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں۔
والقول الراجح المعمول علیه ھو أن الاضطجاع بعد سنة الفجر مشروع علی طریق الاستحباب واللہ تعالی أعلم۔
یعنی قول راجح یہی ہے کہ یہ لیٹنا بطور استحباب مشروع ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1160
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1161
1161. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز فجر کی سنتیں پڑھ لیتے اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے، بصورت دیگر آپ لیٹ جاتے حتی کہ نماز فجر کے لیے اقامت کہی جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1161]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اگر لیٹنے کا موقع نہ ملے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
مگر اس لیٹنے کو برا جاننا فعل رسول کی تنقیص کرناہے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1161
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1171
1171. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نماز فجر سے پہلے ہلکی پھلکی سی دو رکعتیں پڑھتے تھے حتی کہ میں سوچتی، شاید رسول اللہ ﷺ نے ان میں فاتحہ پڑھی ہے یا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1171]
حدیث حاشیہ:
یہ مبالغہ ہے یعنی بہت ہلکی پھلکی پڑھتے تھے۔
ابن ماجہ میں ہے کہ آپ ﷺ ان میں سورۃ کافرون اور سورۃ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1171
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:626
626. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو فوراً رسول اللہ ﷺ فجر کے ظاہر ہونے کے بعد نماز فجر سے پہلے ہلکی پھلکی دو رکعتیں ادا فرماتے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تاآنکہ مؤذن تکبیر کے لیے آپ کے ہاں حاضر خدمت ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:626]
حدیث حاشیہ:
(1)
متعدد روایات میں اذان سننے کے بعد فورا جماعت کےلیے مسجد میں آنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ مسجد میں جماعت کا انتظار کرنے والے کے مترادف شمار کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا گھر مسجد کے قریب ہے اور وہ اذان سننے کے فوراً بعد مسجد میں آنے کے بجائے اپنے گھر میں اقامت کا انتظار کرتا ہے تو اسے نماز کےلیے جلدی چلے آنے ہی کا ثواب ملے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ گھر میں نماز کے لیے اقامت کا انتظار فرماتے تھے۔
بعض علماء کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ چونکہ امام تھے اور امام اذان سننے کے بعد فوراً مسجد میں چلے آنے کا پابند نہیں ہے، اس لیے گھر میں تکبیر کا انتظار کرنا امام کے ساتھ خاص ہے، کوئی دوسرا اس خصوصیت میں اس کا شریک نہیں۔
(2)
اس حدیث میں تکبیر کے اعتبار سے اذان فجر کو پہلی اذان کہا گیا ہے۔
گویا اس اذان کی دو حیثیتیں ہیں:
سحری کی اذان کے مقابلے میں اسے اذان ثانی کہا جاتا ہے اور جماعت کے لیے اقامت کے اعتبار سے اسے اذان اولیٰ کہا گیا ہے، نیز بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اذان کے بعد مسجد میں تشریف لے جاتے، اگر مسجد میں نمازی کم ہوتے تو وہیں بیٹھ کر انتظار فرماتے، جب نمازی جمع ہوجاتے تو نماز پڑھاتے۔
یہ حدیث درج بالا حدیث کے مخالف نہیں، کیونکہ بیہقی کی روایت کا تعلق نماز صبح کے علاوہ دوسری نمازوں سے ہے اور حدیث بالا کا تعلق نماز صبح سے ہے۔
اور ممکن ہے آپ مؤذن کی اطلاع کے بعد مسجد میں تشریف لے جاتے ہوں اور وہاں جا کر نمازیوں کا انتظار فرماتے ہوں۔
(فتح الباري: 144/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 626
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1160
1160. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب صبح کی دو سنتیں پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1160]
حدیث حاشیہ:
(1)
صبح کی دو سنت کے بعد لیٹنے کے متعلق افراط و تفریط پایا جاتا ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ دائیں کروٹ پر لیٹنا ضروری ہے اور صحت نماز کی شرط ہے۔
جیسا کہ امام ابن حزم ؒ نے محلیٰ میں لکھا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں امر نبوی وارد ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم میں سے جو کوئی صبح کی دو سنت پڑھے تو اسے چاہیے کہ دائیں کروٹ لیٹے۔
“ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1281)
ابراہیم نخعی ؒ نے اسے شیطان کا لیٹنا قرار دیا ہے۔
جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔
(فتح الباري: 57/3)
امام بخاری ؒ نے اس کی مشروعیت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل مبارک ہے اور اس سلسلے میں جو امر وارد ہے وہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے کیونکہ بعض اوقات آپ نے اس پر عمل نہیں بھی کیا۔
جیسا کہ آئندہ حدیث سے واضح ہو گا۔
(2)
لیٹنے کے دوران میں جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1160
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1161
1161. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز فجر کی سنتیں پڑھ لیتے اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے، بصورت دیگر آپ لیٹ جاتے حتی کہ نماز فجر کے لیے اقامت کہی جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1161]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا ضروری نہیں، سنتوں اور فرضوں کے درمیان گفتگو سے بھی فصل کیا جا سکتا ہے۔
امام شافعی ؒ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ سنتوں کے بعد لیٹنے کا مقصد صرف فرض اور سنت میں فصل کرنا ہے، وہ لیٹنے کے علاوہ کسی چیز سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن امام نووی ؒ نے حدیث ابو ہریرہ کے پیش نظر اسے سنت قرار دیا ہے کیونکہ راوئ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ نے سنتوں کی ادائیگی کے بعد مسجد کی طرف چل کر آنے کو کافی نہیں سمجھا جیسا کہ مروان نے کہا تھا بلکہ لیٹنے کی تلقین کی ہے۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1281) (2)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر گھر میں سنت پڑھی جائیں تو لیٹنا چاہیے، مسجد میں لیٹنا درست نہیں۔
حضرت ابن عمر ؓ مسجد میں لیٹنے والے کو کنکریاں مارتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شیبة)
امام بخاری ؒ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر سنت سے فراغت کے بعد لیٹتے تو گفتگو نہ فرماتے اور اگر گفتگو کرتے تو لیٹتے نہیں تھے اور امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اپنی صحیح میں اسی قسم کا عنوان قائم کیا ہے، لیکن امام احمد ؒ نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد پڑھتے، فراغت کے بعد لیٹ جاتے، اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے اور اگر میں نیند میں ہوتی تو آپ بھی سو جاتے حتی کہ آپ کے پاس صبح کی نماز کے لیے مؤذن آتا۔
(مسند أحمد: 35/6)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لیٹنے کے دوران میں گفتگو کرتے تھے۔
بہرحال صبح کی دو سنت پڑھنے کے بعد لیٹنا مشروع ہے، اسے خلاف سنت قرار دینا درست نہیں۔
(فتح الباري: 58/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1161
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1171
1171. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نماز فجر سے پہلے ہلکی پھلکی سی دو رکعتیں پڑھتے تھے حتی کہ میں سوچتی، شاید رسول اللہ ﷺ نے ان میں فاتحہ پڑھی ہے یا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1171]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کے معنی یہ نہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کو فجر کی دو سنتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کے متعلق شک تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے علاوہ دیگر نوافل میں بہت لمبی قراءت کرتے تھے اور فجر کی دو سنتوں میں تخفیف فرماتے۔
اگر ان میں قراءت کا موازنہ دوسرے نوافل کی قراءت سے کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قراءت ہی نہیں کی۔
(2)
اس روایت کے پیش نظر بعض حضرات نے کہا ہے کہ فجر کی دو سنتوں میں سرے سے قراءت نہیں، حالانکہ اس حدیث کا یہ مقصد نہیں، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، نیز حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے فجر کی دو سنتوں میں سورۂ ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ )
اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ )
پڑھیں۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1890(726)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دو سنتوں میں ﴿قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾ ) (البقرة: 136: 2)
اور ﴿فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٥٢﴾ ) (آل عمران52: 3)
پڑھا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1891(727) (3)
فجر کی دو سنتیں چونکہ نماز تہجد کے بعد ادا کی جاتی ہیں، اس لیے مصنف نے مناسب خیال کیا کہ تہجد کے بعد ان کے مسائل و احکام سے آگاہ کر دیا جائے۔
(فتح الباري: 62/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1171
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 626
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب مؤذن صبح کی دوسری اذان دے کر چپ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور فرض سے پہلے دو رکعت (سنت فجر) ہلکی پھلکی ادا کرتے صبح صادق روشن ہو جانے کے بعد پھر داہنی کروٹ پر لیٹ رہتے۔ یہاں تک کہ مؤذن تکبیر کہنے کی اطلاع دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا۔ [صحيح بخاري ح: 626]
«باب من انتظر الإقامة»
باب: اذان سن کر جو شخص (گھر میں بیٹھا) تکبیر کا انتظار کرے۔
فائدہ:
اس باب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اذان کے بعد کوئی شخص اگر اقامت تک گھر میں رہے اور اقامت کا وقت ہونے پر مسجد میں جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف امام کے لیے ہے کہ وہ اقامت کا وقت ہونے تک گھر میں اقامت کا انتظار کرے، کیونکہ مقتدی کو معلوم نہیں امام کب نماز کھڑی کر دے، ہاں! جس کا گھر مسجد کے قریب ہو اور وہ اقامت شروع ہونے پر شامل ہو سکتا ہو اس کے لیے اجازت ہے۔ آج کل گھڑیاں تقریباً سب کے پاس موجود ہیں، اس لیے اس انتظار کی گنجائش ہر ایک کے پاس ہے، البتہ پہلے جا کر نماز کے انتظار میں بیٹھنا افضل ہے، سوائے امام کے کہ اس کا اقامت کے وقت مسجد میں آنا مسنون ہے۔
فوائد:
➊ فجر کی پہلی اذان سے مراد وہ اذان ہے جو فجر طلوع ہونے کے بعد اقامت سے پہلے ہوتی ہے، اسے اقامت کے لحاظ سے پہلی کہا گیا ہے، کیونکہ اقامت بھی اذان کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ «اَلصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ» کے کلمات بھی اسی اذان میں کہے جاتے ہیں۔ اس سے مراد وہ اذان نہیں جو صبح صادق سے پہلے کہی جاتی ہے، کیونکہ صبح کی دو رکعتیں اس اذان کے بعد نہیں ہوتیں بلکہ اقامت سے پہلے والی اذان کے بعد ہوتی ہیں۔
➋ باب کے ساتھ حدیث کا تعلق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذان کے بعد دو رکعتیں پڑھ کر مؤذن کے آنے تک دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، اس سے معلوم ہوا کہ اذان کے بعد اقامت کے انتظار میں گھر کے اندر لیٹ سکتا ہے، خصوصاً امام اور جس کا کھر مسجد کے اتنا قریب ہو کہ وہ اقامت سن کر تکبیر تحریمہ کے ساتھ مل سکتا ہو۔ دوسرے لوگوں کے لیے افضل یہ ہے کہ مسجد میں آ کر انتظار کریں، تاکہ پہلی صف اور تکبیر تحریمہ کی فضیلت سے محروم نہ رہیں۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 626