صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
35. بَابُ مَنِ اتَّكَأَ بَيْنَ يَدَيْ أَصْحَابِهِ:
باب: اپنے ساتھیوں کے سامنے ٹیک لگا کر بیٹھنا۔
حدیث نمبر: 6274
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، مِثْلَهُ، وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ:" أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ"، فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا: لَيْتَهُ سَكَتَ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے اسی طرح مثال بیان کیا، (اور یہ بھی بیان کیا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ”ہاں اور جھوٹی بات بھی۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اتنی مرتبہ باربار دہراتے رہے کہ ہم نے کہا، کاش آپ خاموش ہو جاتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6274 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6274
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الادب میں گزرچکی ہے اور دوسری احادیث میں بھی آپ کا تکیہ لگا کر بیٹھنا منقول ہے جیسے ضمام بن ثعلبہ اور سمرہ کی احادیث میں ہے۔
جھوٹی بات کے لئے آپ کا یہ باربار فرمانا اس کی برائی کو واضح کرنے کے لئے تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6274
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6274
حدیث حاشیہ:
(1)
جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی کی سنگینی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اس لیے دہرایا تاکہ اس کی برائی اور قباحت واضح ہو جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹیک لگا کر بیٹھنا دیگر احادیث میں بھی بیان ہوا ہے جیسا کہ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تکیے پر ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا تھا۔
(جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2771) (2)
بعض اطباء نے اسے جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید فرماتے ہوئے اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ شرعاً ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 80/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6274