Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
13. بَابُ التَّسْلِيمِ وَالاِسْتِئْذَانِ ثَلاَثًا:
باب: سلام اور اجازت تین مرتبہ ہونی چاہئے۔
حدیث نمبر: 6244
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا سَلَّمَ سَلَّمَ ثَلَاثًا، وَإِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا".
ہم سے اسحٰق نے بیان کیا کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن مثنی نے خبر دی ان سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو سلام کرتے (اور جواب نہ ملتا) تو تین مرتبہ سلام کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرماتے تو (زیادہ سے زیادہ) تین مرتبہ اسے دہراتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6244 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6244  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام و کلام میں تکرار فرماتے تھے لیکن اس سے مراد اکثر اوقات ہیں، یعنی افہام و تفہیم کے لیے اکثر ایسا کرتے تھے تاکہ سلام عام ہو اور بات دلوں میں راسخ ہو جائے۔
(عمدة القاري: 361/15) (2)
تین دفعہ سلام کرنے کی حسب ذیل توجیہات ممکن ہیں:
٭ جب مجمع زیادہ ہوتا اور لوگ منتشر ہوتے تو تمام حاضرین کو سلام پہنچانے کے لیے تین مرتبہ سلام کرتے۔
ایک سامنے، دوسرا دائیں جانب اور تیسرا بائیں طرف کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کے تمام حاضرین مشتاق ہوتے تھے۔
٭ اگر کہیں جم غفیر ہوتا تو ایک سلام داخل ہوتے ہی کرتے، دوسرا درمیان میں پہنچ کر اور تیسرا سلام آخر میں پہنچ کر فرماتے۔
٭ یہ سلام، سلام اجازت ہے جو زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ کہا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مقصد معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے جو سلام اجازت سے متعلق ہے۔
(3)
یہ بھی ممکن ہے کہ پہلا سلام اجازت کے لیے، دوسرا جب ان کے پاس جاتے اور تیسرا جب ان سے رخصت ہوتے کیونکہ عام حالات میں تین مرتبہ سلام کرنا آپ کے معمولات سے ثابت نہیں۔
پہلا سلام اجازت، دوسرا سلام ملاقات اور تیسرا سلام وداع۔
(شرح الکرماني: 86/2)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6244   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 208  
´روزانہ وعظ و نصیحت سے گریز`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا ". رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گفتگو فرماتے تھے تو تین دفعہ فرماتے اور جب کسی قوم اور جماعت کے پاس تشریف لاتے تو تین دفعہ سلام کرتے۔ ا س حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 208]

تخريج الحدیث:
[صحيح بخاري 95]

فقہ الحدیث:
➊ تقریر، تبلیغ اور نصیحت وغیرہ کے دوران میں اہم بات دو تین دفعہ دہرانی چاہئیے تاکہ مخاطب اسے سمجھ کر یاد کر لے۔
➋ تین دفعہ سلام کہنے سے مراد کسی گھر یا جگہ میں داخل ہونے کے لئے سلام کہنا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری کی کتاب الاستئذان میں تبویب سے ظاہر ہے اور علمائے کرام نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے۔
➌ منصب کے لحاظ سے کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو، دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 208   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2723  
´بات چیت کی ابتداء «علیک السلام» سے کہہ کر مکروہ ہے۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی بات کہتے تو اسے تین بار دھراتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2723]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2723   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:94  
94. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی بات فرماتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے (تاآنکہ اسے خوب سمجھ لیا جاتا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:94]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص اوقات میں تین دفعہ سلام کرنے کا معمول تھا مثلاً کسی کے گھر آنے کی اجازت طلب کرتے تو ایسا ہوتا تھا۔
یا ایک مرتبہ اجازت کے لیے، دوسرا جب ان کے پاس جاتے اور تیسرا جب ان سے رخصت ہوتے۔
عام حالات میں تین مرتبہ سلام کرنا آپ کے معمولات سے ثابت نہیں۔
(شرح الکرماني: 86/2)
آگاہ رہو اور جھوٹ بولنا پوری حدیث اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں تمھیں بڑے بڑے گناہوں کی خبرنہ دوں؟ ہم نے کہا:
کیوں نہیں! آپ نے فرمایا:
اللہ کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نا فرمانی کرنا۔
(اس کے بعد)
آپ سنبھل کر بیٹھ گئے جب کہ پہلے آپ نے ٹیک لگائی ہوئی تھی (اور فرمایا:
)

آگاہ رہو اور جھوٹ بولنا اس پر آپ نے اس قدر زور دیا کہ باربار تکرار کرتے رہے حتی کہ ہم نے کہا:
کاش!آپ خاموشی اختیار فرما لیں۔
(صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2654)
اس مخصوص طرز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تکرار کی یہ صورت ہر موقع پر نہ ہوتی تھی بلکہ کسی چیز کی اہمیت کے پیش نظر بار بار اعادہ ہوتا تھا غالباً اسی لیے آگے روایت میں(ثلاثاً)
کی قید لگی ہوئی ہے یعنی جب آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ضروری نصیحتیں فرمائیں تو آخر میں تین مرتبہ فرمایا:
کیا میں نے فریضہ تبلیغ ادا کردیا۔
؟
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 94   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:95  
95. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب کوئی اہم بات فرماتے تو اسے تین بار دہراتے تاکہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اور جب کسی قوم کے پاس تشریف لاتے تو انہیں تین مرتبہ سلام کہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:95]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو حدیث کے دہرانے اور دہرا دینے کی طلب کو معیوب خیال کرتے ہیں۔
بات کو دہرانا طلبہ کی طبا ئع کے اختلاف کے پیش نظر ہوتا ہے، بعض طلباء ایک ہی مرتبہ سمجھ لیتے ہیں اور بعض حضرات کو کئی کئی بار دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر طالب علم کندذہن ہوتو اس کے لیے زیادہ سے زیادہ تین دفعہ دہرایا جا سکتا ہے اور تین بار دہرانے کے باوجود سمجھنے سے قاصر رہے اس کا کوئی علاج نہیں۔
(فتح الباري: 249/1)

تین دفعہ سلام کرنے کی ایک توجیہ تو سابق حدیث میں بیان ہو چکی ہے کچھ توجیہات حسب ذیل ہیں:
(1)
۔
یہ سلام، سلام اجازت ہے جو زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ کیا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مقصد ہو، کیونکہ آپ نے کتاب الاستئذان میں اس حدیث کو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعے کے ساتھ بیان کیا ہے جو سلام اجازت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔
(صحیح البخاري، الإستئذان، حدیث: 6245)
(2)
۔
جب مجمع کثیر ہوتا اور لوگ منتشر ہوتے تو سب کو سلام پہنچانے کے لیے تین مرتبہ سلام کرتے ایک سامنے، دوسرا دائیں جانب اور تیسرا بائیں طرف، کیونکہ آپ کے سلام کے تمام حاضرین مشاق ہوتے تھے۔
(3)
۔
جب آپ بڑے مجمع میں شریک ہوتے تو ایک سلام داخل ہوتے ہی کرتے، دوسرا وسط میں پہنچ کر اور تیسرا سلام مجلس کے آخر میں پہنچ کرکرتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 95