Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
12. بَابُ زِنَا الْجَوَارِحِ دُونَ الْفَرْجِ:
باب: شرمگاہ کے علاوہ دوسرے اعضاء کے زنا کا بیان۔
حدیث نمبر: 6243
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمْ أَرَ شَيْئًا أَشْبَهَ بِاللَّمَمِ مِنْ قَوْلِ أَبِي هُرَيْرَةَ. ح حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَشْبَهَ بِاللَّمَمِ مِمَّا قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ، فَزِنَا الْعَيْنِ: النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ: الْمَنْطِقُ، وَالنَّفْسُ: تَمَنَّى وَتَشْتَهِي، وَالْفَرْجُ: يُصَدِّقُ ذَلِكَ كُلَّهُ وَيُكَذِّبُهُ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے زیادہ صغیرہ گناہوں سے مشابہ میں نے اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو باتیں بیان کی ہیں وہ مراد ہیں)۔ مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ابن طاؤس نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے کوئی چیز صغیرہ گناہوں سے مشابہ اس حدیث کے مقابلہ میں نہیں دیکھی جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے معاملہ میں زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے جس سے وہ لامحالہ دوچار ہو گا پس آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، دل کا زنا یہ ہے کہ وہ خواہش اور آرزو کرتا ہے پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کرتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6243 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6243  
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ نفس میں زنا کی خواہش پیدا ہوتی ہے اب اگر شرمگاہ سے زنا کیا تو زنا کا گناہ لکھا گیا اور اگر خدا کے ڈر سے زنا سے باز رہا تو خواہش غلط اور جھوٹ ہوگئی اس صورت میں معافی ہو جائے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6243   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6243  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ''اللَّمَمَ'' کے متعلق سوال ہوا جو قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں آیا ہے:
وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں سوائے ان گناہوں کے جو صغیرہ ہیں۔
(النجم53: 32)
انہوں نے اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کر دی جس میں زنا جیسے بڑے گناہ کی مبادیات (ابتدائی باتوں)
کا ذکر ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ''لَّمَمَ'' نظر بازی، بات کرنا اور بدکاری کی خواہش کا پیدا ہونا ہے۔
یہ بدکاری کی مبادیات ہیں۔
آخرکار شرمگاہ اس کے ارتکاب کرنے یا چھوڑ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے ازل میں انسان کے لیے جو گناہ لکھ دیا ہے وہ اس سے خلاصی نہیں پا سکتا، البتہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے مبادیاتِ زنا کو ''لَّمَمَ'' اور صغیرہ گناہ بنا دیا ہے۔
جب تک شرمگاہ اس کی تصدیق نہ کرے انسان سے اس کے متعلق باز پرس نہ ہو گی اور جب شرمگاہ اس کی تصدیق کر دے تو تمام صغیرہ گناہ اور مبادیات کبیرہ گناہ کی شکل اختیار کر لیں گے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے جس کی بنا پر گھروں میں اجازت کے بغیر تاک جھانک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اس سے گزشتہ عنوان کے ساتھ مناسبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 32/11)
واللہ أعلم۔
(3)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دل میں زنا کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
اس خواہش کی تکمیل کے لیے انسان نظر بازی اور محبت بھری گفتگو بھی کرتا ہے، اب اگر شرمگاہ نے عملاً زنا کر لیا تو بدکاری کا گناہ لکھا جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے ارتکاب سے باز رہا تو خواہش غلط اور جھوٹ ہو گئی، اس صورت میں گناہ نہیں لکھا جائے گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6243   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 86  
´قسمت میں لکھا پورا ہو کر رہتا ہے`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي وَالْفَرْجُ يصدق ذَلِك كُله ويكذبه» ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ قَالَ: «كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا محَالة فالعينان زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ» ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انسان کی قسمت میں زنا کا جو حصہ لکھ رکھا ہے تو وہ اس کو ضرور پہنچے گا، آنکھ کا زنا حرام چیزوں کی طرف دیکھنا ہے اور زبان کا بولنا یعنی نامحرم عورتوں سے شہوت انگیز کلام کرنا اور نفس اس کی آرزو اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس آرزو خواہش کو سچا کرتی یا جھوٹا بتاتی ہے۔ یہ روایت بخاری و مسلم نے کی ہے اور مسلم کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان پر اس کے زنا و بدکاری کا حصہ ضرور لکھا جا چکا ہے جسے وہ ضرور پانے والا ہے۔ دونوں آنکھوں کا زنا نامحرم عورت کو بری نگاہ سے دیکھنا ہے، اور دونوں کانوں کا زنا نامحرم شہوت انگیز باتوں کا سننا ہے، اور زبان کا زنا شہوت انگیز باتیں کرنا، اور ہاتھ کا زنا اس کا پکڑ دھکڑ کرنا یعنی نا محرم کو بری نیت سے چھونا، اور پاؤں کا زنا بدکاری اور گناہ کے کاموں کی طرف جانا اور چلنا ہے، اور دل اس کی خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق و تکذیب کرتی ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 86]
تخریج:
[صحيح بخاري 6243]،
[صحيح مسلم 6753]

فقہ الحدیث:
➊ جس چیز کا دیکھنا حرام ہے اس پر (دانستہ یا نادانستہ) نظر کا جانا زنا قرار دیا گیا ہے۔ جو نظر نادانستہ پڑ جائے اسے شریعت میں معاف کر دیا گیا ہے، مگر جو شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے حرام چیز کو دیکھے تو وہ زنا کار اور مجرم ہے۔ اہل ایمان کا یہ طرز عمل ہوتا ہے کہ اگر ان کی نظر اچانک کسی ناپسندیدہ چیز پر پڑ جائے تو فوراً وہاں سے نظر ہٹا لیتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔
➋ جو اعمال گناہ اور نافرمانی کی طرف لے جاتے ہیں ان سے کلی اجتناب کرنا ضروری ہے۔
➌ فحش کلامی اور حرام چیزوں کا تذکرہ کرنا بھی حرام ہے۔ اسی طرح بےحیائی اور ٹی وی وغیرہ پر فحش پروگرام دیکھنا اور موسیقی، گندے اور شرکیہ گانے سننا حرام ہے۔ کتاب و سنت کے مخالف جتنی چیزیں ہیں ان سے اپنے آپ کو بچانا فرض ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا»
اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ۔ [التحريم: 6]
➍ انسان کو ہر وقت اسی کوشش میں مگن رہنا چاہئیے کہ کتاب و سنت پر دن رات عمل کرتا رہے اور تمام حرام و مکروہ امور سے ہمیشہ اجتناب کرتا رہے۔ اگر نادانستہ کسی حرام و مکروہ امر پر نظر پڑ جائے تو فوراً اپنے آپ کو بچائے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ غفور و رحیم ہے، اپنے فضل و کرم سے سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ ان شاء اللہ
بدنصیب ہیں وہ لوگ جو دن رات کتاب و سنت کی مخالفت اور حرام امور میں مگن رہتے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 86   

  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 26  
´ایمان سایہ کی مثل ہے، ایمان کن چیزوں اعمال زائل ہو جاتا ہے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آنکھیں (دیکھنے کا) زنا کرتی ہیں، ٹانگیں، پاؤں زنا کرتے ہیں اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 26]
فوائد:
ایک دوسری حدیث میں مذکوہ حدیث کی وضاحت ملتی ہے:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر آدم زاد کے لیے زنا سے اس کا حصہ (لکھا گیا) ہے اور مذکورہ قصہ بیان کیا، کہا: ہاتھ زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کو پکڑنا ہے، پاؤں زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کی طرف چلنا ہے۔ منہ زنا کرتا ہے اور اس کا بدکاری کا بوسہ لینا ہے۔ [سنن ابي داؤد، رقم: 2153]
ایک اور روایت میں ہے کہ:
کان زنا کرتے ہیں اور ان کا بدکاری سننا ہے۔ [سنن ابوداؤدرقم: 2153]
امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں:
مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ابن آدم پر اس کے زنا کا ایک حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ بعض ان میں حقیقی زنا کرتے ہیں، یعنی اپنی شرمگاہ کو دوسرے کی شرمگاہ میں داخل کرتے ہیں (جو حرام ہے)۔
اور بعض مجازی زنا کرتے ہیں یعنی غیر محرم اشیا ء کو دیکھتے ہیں یا لمس کرتے ہیں یا پھر انہیں سنتے ہیں، مثال کے طور پر کسی ناواقف (غیر محرم) عورت کو چھونا، یا اسے بوسہ دینا، چومنا یا اس کے پاس زنا کی غرض سے چل کر جانا، یا اسے دیکھنا اور (اسی طرح) دل میں کوئی (برا عزم) خیال سوچنا وغیرہ یہ سب مجازی زنا کی اقسام ہیں۔ [شرح مسلم للنووي: ص188]
گناہ کی دو اقسام ہیں کبیرہ اور صغیرہ۔
صغیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی،
اور کبیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد تعزیر مقرر کر دی ہے۔
صغیرہ گناہ عام نیکی سے معاف ہو جاتے ہیں تاہم شریعت نے صغیری گناہ کرنے بھی روگا ہے، بعض اوقات یہ صغیرہ گناہ، کبیرہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس وقت جب ان گناہوں کو گناہ نہ سمجھا جائے اور عادت بنا لی جائے۔
مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہنا چاہئے۔
اعضائے جسم کو زنا سے تعبیر کرنا، اس سے زنا کے قبیح ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ایسے لوگوں کا انجام انتہائی برا ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے «وَلَا تقرَبُوا الزِّنٰي اِنَّه’ فَاحِشَةً وَّسَا َٔ سَبِيلَاً» ‏‏‏‏ [الاسراء: 32]
اور تم زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بے حیائی کا کام اور بُرا راستہ ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 26   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6753  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے "لم " کی سب سے زیادہ صحیح وضاحت،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان کردہ قول میں دیکھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک اللہ تعالیٰ نے ابن آدم ؑ کے بارے میں زنا میں اس کا حصہ مقرر کر دیا ہے، جس کو وہ لامحالہ حاصل کر کے رہے گا چنانچہ آنکھوں کا زنا نظر بد ہے اور زبان کا زنا (شہوت ا نگیز) گفتگو ہے اور دل تمنا (آرزو) اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6753]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد سورہ نجم کی آیت (الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ) (سورۃ نجم،
آیت نمبر 32)

وہ لوگ جو کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے روکتے ہیں،
مگر چھوٹے گناہ" کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں،
میں لفظ "لَّمَمَ" کی تفسیر بیان کرنا ہے کہ اس حدیث میں جن گناہوں کو فرج کے گناہ کے سوا بیان کیا ہے،
وہ "لَّمَمَ" ہیں،
اس حدیث سے معلوم ہوا،
نظربد،
شہوت انگیز گفتگو اور بوس و کنار،
کسی اجنبی عورت کو ہاتھ لگانا اور غلط کاری کی نیت سے اس کی طرف چل کر جانا،
یہ تمام گناہ "لَّمَمَ" میں داخل ہیں،
ان سے گناہ کی طرف میلان کا اظہار ہوتا ہے اور اس کی تصدیق یا تکذیب شرم گاہ کرتی ہے،
یعنی ان کاموں سے شرم گاہ میں حرکت اور داعیہ پیدا ہوتا ہے تو پھر یہ زنا ہو گا،
اگر ان کاموں سے شرم گاہ متاثر نہیں ہوتی تو یہ زنا نہیں ہو گا،
اگرچہ غلط کام ہو گا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا تصدیق اور تکذیب محض دل اور زبان کا کام نہیں ہے،
اعضاء اور جوارح کا عمل بھی تصدیق اور تکذیب پر دلالت کرتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6753   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6612  
6612. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں تو لمم کے مشابہ اس بات سے زیادہ کوئی اور بات نہیں جانتا جو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے: اللہ تعالٰی نے انسان کے زنا کا کوئی نہ کوئی حصہ لکھ دیا ہے جس سے لا محالہ اسے دو چار ہونا پڑے گا۔ آنکھ کا زنا نظر بازی ہے۔ زبان کا گناہ لوچ دار گفتگو کرنا ہے۔ اور دل کا زنا خواہشات اور شہوات ہیں، پھر شرمگاہ اس کی تصدیق کر دیتی ہے اور اسے جھٹلا دیتی ہے۔ شبابہ نے کہا: ہم سے ورقاء نے بیان کیا: ابن طاؤس سے انہوں نے اپنے باپ طاؤس سے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6612]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے بیان کرنے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ طاؤس نے یہ حدیث خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی سنی ہے جیسے اگلی روایت سے یہ نکلتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے کہا۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ زنا کرنے والا بھی تقدیر کے تحت زنا کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6612   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6612  
6612. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں تو لمم کے مشابہ اس بات سے زیادہ کوئی اور بات نہیں جانتا جو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے: اللہ تعالٰی نے انسان کے زنا کا کوئی نہ کوئی حصہ لکھ دیا ہے جس سے لا محالہ اسے دو چار ہونا پڑے گا۔ آنکھ کا زنا نظر بازی ہے۔ زبان کا گناہ لوچ دار گفتگو کرنا ہے۔ اور دل کا زنا خواہشات اور شہوات ہیں، پھر شرمگاہ اس کی تصدیق کر دیتی ہے اور اسے جھٹلا دیتی ہے۔ شبابہ نے کہا: ہم سے ورقاء نے بیان کیا: ابن طاؤس سے انہوں نے اپنے باپ طاؤس سے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6612]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حقیقت کو بیان کرنا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ قضا و قدر کے فولادی شکنجے میں کسا ہوا ہے۔
جو کچھ تقدیر میں لکھا ہوا ہے وہ بہر صورت ہو کر رہے گا، چنانچہ آیت کریمہ میں ہے:
جب کسی قوم کے اعمال و کردار کے پیش نظر یقین ہو جاتا ہے اور ان پر لازم ہو جاتا ہے کہ اب وہ رجوع نہیں کریں گے تب اللہ تعالیٰ ان پر اپنے عذاب کا کوڑا برساتا ہے۔
(الأنبیاء: 95/21)
اسی طرح قوم نوح کے متعلق بھی تقدیر کا لکھا ہوا غالب آیا۔
مہلت کے باوجود وہ ایمان لانے والے نہیں تھے، اس لیے انہیں بھی تباہی سے دوچار ہونا پڑا۔
(2)
حدیث سے بھی تقدیر کے دائرے کی وسعت کا پتا چلتا ہے کہ اس میں صرف حسنات اور سیئات ہی نہیں بلکہ ان کے مقدمات بھی لکھ دیے گئے ہیں۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ جب اس نے عملی طور پر زنا نہیں کیا تو شاید اس سے پہلے جو خرافات اس سے سرزد ہوئی ہوئی ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے وہ شاید محاسبۂ تقدیر میں داخل نہ ہوں لیکن اس مشت خاک کو یقین رکھنا چاہیے کہ وہ بھی مقدرات میں شامل ہیں پھر تقدیر کی گرفت بھی کتنی زبردست ہے کہ جو حصہ زنا ہوتا بھی انسان کے اختیار و ارادے سے۔
(3)
چونکہ زانی کا سارا جسم اس جرم میں شریک ہوتا ہے، اس لیے اس کی سزا بھی ہر ہر عضو کو بھگتنا پڑتی ہے، شاید جنابت میں تمام جسم کا غسل بھی اسی لیے فرض قرار دیا گیا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6612