Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
5. بَابُ تَسْلِيمِ الرَّاكِبِ عَلَى الْمَاشِي:
باب: سوار پہلے پیدل کو سلام کرے۔
حدیث نمبر: 6232
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، أَنَّهُ سَمِعَ ثَابِتًا مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ".
ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مخلد نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زیاد نے خبر دی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید کے غلام ثابت سے سنا، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6232 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6232  
حدیث حاشیہ:
جو شخص کسی سواری پر جا رہا ہو وہ پہل کر کے پیدل چلنے والوں کو سلام کرے۔
اس ہدایت میں یہ حکمت ہے کہ سوار کو بظاہر ایک دنیوی بلندی اور بڑائی حاصل ہے، لہذا اسے حکم دیا گیا کہ وہ پیدل چلنے والوں کو سلام کر کے اپنی بڑائی کی نفی کرے، نیز اس انداز میں اس کی تواضع اور خاکساری کا اظہار بھی ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6232   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1242  
´سلام کے آداب`
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏ليسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير ‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية لمسلم: ‏‏‏‏والراكب على الماشي .»
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کہے، گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے زیادہ کو۔ مسلم کی ایک روایت میں ہے اور سوار پیدل چلنے والے کو۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1242]
تخریج:
[بخاري:6231، 6232، 6234]،
[مسلم، السلام: 5646]،
[بلوغ المرام: 1242]
[تحفة الاشراف: 275/10، 394]

مفردات:
«ليسلم الصغير على الكبير» یہ جملہ صحیح مسلم میں نہیں ہے اس لئے پوری حدیث کو متفق علیہ کہنا مشکل ہے۔
«والراكب على الماشي» یہ جملہ مسلم کے علاوہ صحیح بخاری میں بھی ہے۔ [الاستيذان: 25]

فوائد:
➊ سلام میں ابتداء کی اس ترتیب میں جو حکمتیں ہیں اہل علم نے اپنی اپنی دانست کے مطابق بیان فرمائی ہیں اصل حکمت اللہ ہی کے پاس ہے اور اسی کا علم کامل ہے۔
➋ چھوٹے کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لئے ہے کہ بڑے کا حق چھوٹے پر زیادہ ہے کیونکہ چھوٹے کو حکم ہے کہ بڑے کی توقیر کرے اور اس کے ساتھ با ادب رہے۔
➌ تھوڑے لوگوں کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لئے ہے کہ زیادہ لوگوں کا تھوڑے لوگوں پر زیادہ حق ہے اور اس لئے بھی کہ زیادہ لوگ تھوڑے لوگوں کو یا اکیلے کو پہلے سلام کہیں تو اس میں خود بینی اور کبر نہ پیدا ہو جائے۔
➍ گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو اس لئے پہلے سلام کہے کہ وہ داخل ہونے والے کی طرح ہے جسے سلام کرنے کا حکم ہے۔ اور اس لئے بھی کہ بیٹھے ہوئے شخص کا ہر گزرنے والے کی طرف بار بار از خود متوجہ ہو کر سلام کہنا مشکل ہے۔ جب کہ گزرنے والے کو ایسی کوئی مشکل نہیں۔
➎ سوار پیدل چلنے والے کو اس لئے پہلے سلام کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسے سواری کی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ تواضع اختیار کرے۔ اگر پیدل کو حکم ہوتا کہ سوار کو پہلے سلام کہے تو خطرہ تھا کہ سوار میں تکبر نہ پیدا ہو جائے۔
➏ جب دونوں ملنے والے برابر ہوں تو دونوں کو ابتداء کا حکم ہے «أفشوا السلام» سلام عام کرو ان میں سے جو پہل کرے گا وہ افضل ہے۔ جیسا کہ دو قطع تعلق کرنے والوں کے متعلق فرمایا: «وخيرهما الذي يبدأ بالسلام» ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ [متفق عليه]
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«والماشيان أيهما يبدأ بالسلام فهو أفضل»
دو پیدل چلنے والوں میں سے جو پہلے سلام کہے وہ افضل ہے۔ [صحيح الادب المفرد 983/754]
یہ حدیث مرفوع بھی صحيح ہے۔ [الصحيحه 1146]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ دو آدمی ملتے ہیں تو پہلے کون سلام کہے گا؟ فرمایا: «أولاهما بالله» جو دونوں سے اللہ کے زیادہ قریب ہے۔ [ترمذي عن ابی امامه و قال حسن]، اور دیکھئے [صحيح الترمذي 2167]
➐ اگر وہ شخص جسے پہلے سلام کرنے کا حکم ہے سلام نہیں کہتا تو دوسرے کو سلام کہہ دینا چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیلانے کی بہت تاکید کی ہے۔ [بخاري 9335]
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 40   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1242  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، راہ چلتا بیٹھے کو اور تھوڑے زیادہ تعداد والوں کو سلام کہا کریں۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ سوار پیدل کو سلام کرے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1242»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستئذان، باب تسليم القليل علي الكثير، حديث:6231، ومسلم، السلام، باب يسلم الراكب علي الماشي...، حديث:2160.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کے آداب کا ذکر ہے۔
2. چنانچہ حکم ہے کہ کم عمر والا بڑی عمر والے کو پہلے سلام کرے۔
اس سے بڑے کی عزت و توقیر مقصود ہے۔
اور آنے والے کو حکم ہے کہ بیٹھے ہوئے کو سلام کرے‘ اس کی حکمت و علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ آنے والے سے ضرر و نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے مگر جب وہ پہلے سلام کرے گا تو اس سے گویا خطرے کا اندیشہ ختم ہوگیا۔
اورسوار پیدل چلنے والوں کو سلام کریں کیونکہ سواری پر بیٹھا ہوا انسان ذرا بڑائی کے زعم اور تکبر میں مبتلا ہو جایا کرتا ہے‘ اس کے ازالے کے لیے حکم فرمایا کہ سوار پہلے سلام کرے اور اپنی تواضع اور محبت کا اظہار کرے۔
اسی طرح کم تعداد‘ زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں‘ اس میں کثرت کی قلت پر فوقیت اور افضلیت کی طرف اشارہ ہے۔
گویا اسلام نے حفظ مراتب کا اہل اسلام کو سبق دیا ہے جس پر ماشاء اللہ یہ امت عمل پیرا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1242   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2703  
´سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو (یعنی چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔‏‏‏‏ اور ابن مثنی نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے: چھوٹا اپنے بڑے کو سلام کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2703]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ سلام کرنے میں حدیث میں جو طریقہ اور صورت مذکور ہے اس کا اعتبار ہو گا نہ کہ رتبے اور درجے کا،
اگر صورت میں اتفاق ہو گا مثلاً دونوں سوار ہیں یا دونوں پیدل ہیں تو ایسی صورت میں سلام کرتے وقت چھوٹے اور بڑے کا لحاظ ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2703   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5646  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار، پیدل کو اور چلنے والا بیٹھے کو اور کم زیادہ کو سلام کریں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5646]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سلام کہنا سنت اور اس کا جواب دینا فرض ہے اور اگر سلام کہنے والے،
ایک سے زائد ہوں تو ان کے لیے سلام کہنا فرض کفایہ ہے،
یعنی ان میں سے ایک بھی سلام کہہ دے تو حق ادا ہو جائے گا،
وگرنہ سب گناہگار ہوں گے اور اگر سب سلام کہیں تو یہ افضل ہے،
اس طرح جواب دینے والے ایک سے زائد ہوں تو سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے،
ایک بھی سلام کا جواب دے دے تو فرض ادا ہو جائے گا،
وگرنہ سب گناہ گار ہوں گے اور سب کا جواب دینا افضل ہے اور کم از کم سلام،
السلام علیکم اور بہتر اور افضل السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے،
اس طرح کم از کم جواب وعلیکم السلام ہے اور بہتر و افضل وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے اور سوار پیدل کو سلام کہے گا،
تاکہ سوار ہونے کی بنا پر اس میں بڑائی اور تکبر کا احساس پیدا نہ ہو،
بلکہ تواضع اور فروتنی اختیار کرے اور گزرنے والا جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے،
ماشی کی جگہ مار کا لفظ ہے،
پیدل ہو یا سوار چونکہ مجلس میں آنے والے کے حکم میں ہے،
نیز بیٹھنے والا چونکہ اس سے خطرہ اور ڈر محسوس کر سکتا ہے،
خاص کر جبکہ گزرنے والا سوار ہو،
اس لیے اس کے ڈر اور خوف کو ادا کرنے کے لیے انس و پیار کا اظہار کرنے کے لیے گزرنے والا سلام کہے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیٹھنے والا اپنے کام میں مشغول ہے اور آنے جانے والوں کو سلام کہنا،
اس کے لیے مشقت کا باعث ہو گا،
اس لیے آنے جانے والے سلام کہیں اور کم تعداد والوں کا سلام کہنا،
زیادہ تعداد کے مقابلہ میں آسان اور سہل ہے،
نیز کثیر کو قلیل پر ایک قسم کا امتیاز حاصل ہے،
اس لیے قلیل،
کثیر کو سلام کہیں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5646   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6234  
6234. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور تعداد میں کم زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6234]
حدیث حاشیہ:
ابراہیم بن طہمان کے اثر کو حضرت امام بخاری نے ادب المفرد میں وصل کیا ہے اور ابو نعیم اور بیہقی نے وصل کیا ہے اور کرمانی نے غلطی کی جو یہ کہا کہ امام بخاری نے یہ حدیث ابراہیم بن طہمان سے بہ طریق مذکورہ سنی ہوگی اس لئے وقال إبراهيم کہا کیونکہ امام بخاری نے ابراہیم بن طہمان کا زمانہ نہیں پایا تو کرمانی کا یہ کہنا غلط ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6234   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6231  
6231. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کہے اور چھوٹی جماعت بڑی کو سلام کرنے میں پہل کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6231]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر دو جماعتوں کی ملاقات ہو تو جس جماعت میں کم آدمی ہوں وہ زیادہ آدمیوں والی جماعت کو سلام کرنے میں پہل کرے۔
اس کے متعلق ایک مزید ہدایت دوسری حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ اگر گزرنے والی جماعت میں سے ایک آدمی سلام کہہ دے تو پوری جماعت کی طرف سے کافی ہے۔
اسی طرح بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی ایک جواب دے دے تو سب کی طرف سے جواب ہو جائے گا۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5210)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6231   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6234  
6234. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور تعداد میں کم زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6234]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احکام میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ چھوٹے کو بڑوں کے سامنے تواضع اور عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان کی عزت و تعظیم کرنی چاہیے۔
اسی طرح تعداد میں کم لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ لوگوں کا ادب کریں کیونکہ زیادہ تعداد کا حق بھی عظیم تر ہوتا ہے، نیز گزرنے والا، بیٹھنے والوں کو سلام کرے۔
(2)
اس میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ گزرنے والا لوگوں کے پاس آتا ہے اسے جلدی سلام کرنے کا حکم ہے تاکہ انہیں سلامتی سے مطلع کرے اور سلامتی کی دعا کی وجہ سے لوگ اس کے شر سے امن میں رہیں۔
جب چلنے والے زیادہ ہوں اور بیٹھنے والے کم ہوں تو پیدل ہونے کے اعتبار سے سلام کہنا ان کی ذمے داری ہے لیکن تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے ان سے سلام ساقط ہے۔
ایسے حالات میں دو آدمیوں والا حکم ہے جو آپس میں ملاقات کرتے ہیں، ان میں سے جو بھی سلام کہنے میں پہل کرے گا وہ بہتر اور افضل ہے۔
(فتح الباري: 22/11)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6234