أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، وَالْمُسْتَضْعَفِينَ بِمَكَّةَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1074
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں دوسری رکعت سے اپنا سر اٹھایا تو آپ نے دعا کی: ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور لوگوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان کے اوپر یوسف علیہ السلام (کی قوم) جیسا سا قحط مسلط کر دے۔“ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1074]
1074۔ اردو حاشیہ:
➊ الفاظ سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ یہ قنوت نازلہ ہے جو آپ ہمیشہ نہیں فرماتے تھے۔
➋ یوسف علیہ السلام کے قحط سے تشبیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کئی سال جاری رہا اور ایسا ہی ہوا، ان کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی، ان پر قحط سالی آئی اور مضر والے کئی برس تک قحط کی بلا میں گرفتار رہے یہاں تک کہ وہ ہڈیاں، چمڑے اور مردار تک کھانے لگے۔ پھر جب قریش اس قحط سے عاجز آگئے تو ان کا نمائندہ اور سردار ابوسفیان مدینہ منورہ حاضر ہوا اور قحط کے خاتمے کے لیے دعا کی اپیل کی تو نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پر قحط کے خاتمے کی دعا فرما دی اور قحط دور ہو گیا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1007]
➌ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ جائز ہے۔
➍ قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہو گی۔
➎ کسی کا نام لے کے دعا یا بددعا کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ احناف کا موقف ہے۔
➏ قنوت نازلہ بلند آواز سے کرنا مستحب ہے۔ صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ آپ بلند آواز سے قنوت کراتے تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4560] نیز سنن أبي داود کی روایت میں ہے: «يُؤَمِّنُ مَن خَلفَه» ”آپ کے پیچھے والے آمین کہتے تھے۔“ [سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1443]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1074
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1244
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے: «اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين بمكة اللهم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم سنين كسني يوسف» ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور حال مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ! تو اپنی پکڑ قبیلہ مضر پر سخت کر دے، اور یوسف علیہ السلام کے عہد کے قحط کے سالوں کی طرح ان پر بھی قحط مسلط کر دے) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1244]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قنوت نازلہ آخری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
(2)
اس میں امام بلند آواز سے مناسب دعایئں کرتا ہے۔
(3)
قنوت نازلہ میں مظلوم مسلمانوں کا نام لے کر ان کے حق میں اور کافروں کا نام لے کر ان کے خلاف دعا کی جا سکتی ہے۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، التفسیر، باب ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْئٌ﴾ حدیث: 4560 وصحیح المسلم، المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات۔
۔
۔
، حدیث: 675)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1244
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1540
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت صبح کی نماز کی قرأت سے فارغ ہوکر اللّٰہ اکبر کہتے اور (رکوع سے) سر اٹھاتے تو فرماتے: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ پھر کھڑے کھڑے دعا کرتے: اے اللّٰہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور سمجھے جانے والے مومنوں کو نجات دے۔ اے اللّٰہ! مضریوں کو سخت طریقہ سے روند ڈال اور یہ پکڑ یوسف عَلیہِ السَّلام کے دور کی خشک سالی کی صورت میں ہو۔ اے اللّٰہ! الحیان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1540]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب مسلمان کسی مصیبت کا شکار ہوں مثلاً دشمن کا خوف ہو خشک سالی ہو کوئی وباء پھیل جائے تو تمام نمازوں میں قنوت نازلہ کرنا بہتر ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین کے نزدیک قنوت نازلہ نمازوں میں منسوخ ہے علامہ ابن ہمام نے قنوت نازلہ کو شریعت مستمرہ قراردیا ہے کیونکہ یہ خلفائے راشدین سے ثابت ہے اور بئرمعونہ میں شہید ہونے والے ستر قاریوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک دعا فرمائی اور پھر چھوڑ دی کیونکہ مقصد پورا ہو گیا تھا اس لیے قنوت نازلہ کا تعلق ضرورت سے ہے اگر مسلمان خوف زدہ ہوں مصیبت سے دوچار ہوں تو دعا کی جائے گی ورنہ نہیں۔
نوٹ:
۔
(لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ)
سےثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختار کل یا مختار مطلق نہیں ہیں علامہ سعیدی نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن جواب کی بجائے غیر شعوری طور پر اس بات کو تسلیم کر لیا ہے علامہ آلوسی حنفی کی عبارت نقل کر کے ترجمہ لکھتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو توبہ کے لیے مجبور کرنے پر قادر نہیں نہ توبہ سے روکنے پر عذاب دینے پر قادر ہیں نہ معاف کرنے پر یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔
علامہ اسماعیل حقی کی عبارت نقل کر کے ترجمہ لکھتے ہیں۔
آیت کا معنی یہ ہے کہ کفار کے معاملات کا اللہ تعالیٰ علی الاطلاق مالک ہے خواہ انہیں ہلاک کردے یا سزادے اسلام لانے پر ان کی توبہ قبول کرے یا اسلام نہ لانے پر ان کو عذاب اخروی دے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کے مالک نہیں ہیں(شرح صحیح مسلم2/329)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1540
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1542
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں رکوع کے بعد ایک ماہ تک قنوت کیا جب آپﷺ سَمِعَ اللہُ لِمَن حَمِدَہُ کہہ لیتے تو یہ دعائے قنوت پڑھتے۔ ”اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے، اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! کمزور مسلمانوں کو نجات دے، اے اللہ! مضریوں کو بڑی شدت سے روند ڈال۔ اے اللہ! ان پر یوسف عَلیہِ السَّلام کے دور کا قحط مسلط کر دے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1542]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وَطْأَتَكَ:
وَطْأً پامالی کرنا،
روندنا،
مقصد یہ ہے ان کا مؤاخذہ فرما۔
(2)
سِنِين:
سنة کی جمع ہے یہ لفظ قحط سالی کے لیے استعمال ہوتا ہے،
مقصد یہ ہے کہ ان کو قحط سالی سے دوچار فرما۔
(3)
قَدِمُوا:
وہ آ چکے ہیں،
بعض حضرات نے اس کا ترجمہ مَاتُوا کیا ہے،
جو درست نہیں ہے کیونکہ سلمہ بن ہشام 14 ہجری میں فوت ہوئے ہیں اور عیاش بن ابی ربیعہ 15 ہجری میں،
صرف ولید بن ولید آپﷺ کی خدمت میں پہنچتے ہی وفات پا گئے تھے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مسلمان قیدیوں کی خلاصی اور نجات کے لیے نماز میں دعا کی جا سکتی ہے۔
ولید بن ولید،
خالد بن ولید کے بھائی ہیں۔
سلمہ بن ہشام ابوجہل کا بھائی ہے اور عیاش بن ابی ربیعہ بھی ابوجہل کا ماں کی طرف سے بھائی ہے۔
یہ تینوں مشرکین مکہ کی قید میں تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجے میں مشرکوں کی قید سے چھوٹ کر بھاگ آئے اور ان کی آمد کے بعد آپﷺ نے دعا چھوڑ دی اس لیے دعا چھوڑنے سے اس کا منسوخ ہونا کیسے ثابت ہوا یہ تو مقصد پورا ہونے کی بنا پر ترک کر دی گئی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1542
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4560
4560. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی پر بددعا کرن چاہتے یا کسی کے لیے دعا کرنا چاہتے تو بعد از رکوع قنوت کیا کرتے۔ متعدد مرتبہ آپ نے سمع الله لمن حمده کے بعد یہ دعا کی: ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابوربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی گرفت سخت کر دے اور انہیں ایسی قحط سالی سے دوچار کر دے جیسی زمانہ یوسف ؑ میں ہوئی تھی۔“ آپ یہ بددعا بآواز بلند کیا کرتے تھے۔ نماز فجر کی بعض رکعات میں آپ اس طرح بددعا کرتے تھے: ”اے اللہ! فلاں اور فلاں پر لعنت کر۔“ عرب کے چند قبائل کا نام لیا کرتے تھے حتی کہ اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ﴾ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4560]
حدیث حاشیہ:
بعد میں وہ قبائل مسلمان ہو گئے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر بد دعا کرنے سے آپ ﷺ کو منع فرمایا تھا، بڑوں کے اشارے بھی بڑی گہرائیاں رکھتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4560
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4598
4598. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ نماز عشاء پڑھ رہے تھے کہ آپ نے سمع الله لمن حمده کہا، پھر سجدہ کرنے سے پہلے یوں دعا کی: ”اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ! کمزور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کو سخت سزا دے۔ اے اللہ! انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر دے جس طرح حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4598]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی دعا کمزور مسلمانوں کے لیے تھی جو مکہ میں پھنسے رہ گئے تھے۔
مضر قبیلہ کے لیے بد دعا اس واسطے کی کہ انہوں نے مسلمانوں کو خاص طور پر سخت نقصان پہنچایا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو کافر مسلمانوں کو ستائیں ان پر قحط اور بیماری کی بد دعا کرنا درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4598
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6393
6393. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب عشاء کی آخری رکعت میں سمِعَ اللہُ لمن حمدہ کہتے تو دعا کرتے: ”اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! کمزور ناتواں اہل ایمان کو نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کردے۔ اے اللہ! انہیں ایسے قحط سے دوچار کر دے جیسا کہ یوسف کے زمانے میں ہوا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6393]
حدیث حاشیہ:
ہجرت نبوی کے بعد کچھ کمزور مساکین مسلمان مکہ میں رہ کر کفار کے ہاتھوں تکلیف اٹھا رہے تھے ان ہی کے لئے آپ نے یہ دعا فرمائی جوقبول ہوئی اور مظلوم اور ضعفاء مسلمانوں کو ان کے شر سے نجات ملی۔
مشرکین مکہ آخر میں مسلمان ہوئے اور بہت سے تباہ ہو گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6393
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6940
6940. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نمار میں (ان الفاظ کے ساتھ) دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید ؓ کو نجات دے۔ اے اللہ! تو بے بس اور مجبور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! مضر قبیلے پر اپنی گرفت سخت کر اور ان پر ایسا قحط مسلط کر جیسا یوسف ؑ کے زمانے میں آیا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6940]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ کمزور مسلمان مکہ کے کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار تھے۔
ان کو زورزبردستی سے ان کے کفر کے کاموں میں شریک رہتے ہوں گے لیکن آپ نے دعا میں ان کو مومن فرمایا کہ اکراہ کی حالت میں مجبوری عنداللہ قبول ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6940
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 804
804. ان دونوں (ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد کہتے اور کچھ لوگوں کے لیے ان کا نام لے کر دعا کرتے ہوئے فرماتے: ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاس بن ابو ربیعہ اور ناتواں مسلمانوں کو (کفار کے ظلم سے) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی گرفت سخت کر دے اور انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے عہد میں قحط پڑا تھا۔“ اس وقت اہل مشرق سے قبیلہ مضر کے لوگ آپ کے دشمن تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:804]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں بددعا کسی مستحق حقیقی کا نام لے کر بھی کی جاسکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 804
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:804
804. ان دونوں (ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد کہتے اور کچھ لوگوں کے لیے ان کا نام لے کر دعا کرتے ہوئے فرماتے: ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاس بن ابو ربیعہ اور ناتواں مسلمانوں کو (کفار کے ظلم سے) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی گرفت سخت کر دے اور انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے عہد میں قحط پڑا تھا۔“ اس وقت اہل مشرق سے قبیلہ مضر کے لوگ آپ کے دشمن تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:804]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس طریقۂ نماز کو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا طریقہ قرار دیا ہے بلکہ قبل ازیں ایک حدیث میں بعینہٖ اس کیفیت کو رسول اللہ ﷺ کی طرف صراحت کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے کہ خود آپ نے اس انداز سے نماز ادا کی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 789)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
يهوي بالتكبير حين مسجد جبکہ روایت کے الفاظ اس کے برعکس ہیں، یعنی يكبر حين يهوي ساجدا، چونکہ یہاں سے سجدے کا بیان شروع ہوتا ہے اور امام بخاری ؒ نے اللہ أکبر کہنے اور سجدے کے لیے جھکنے کو لازم ملزوم قرار دیا ہے، یعنی اللہ أکبر کو سجدے کے لیے جھکتے ہی شروع کر دیا جائے، پھر اسے پوری حرکت انتقال پر پھیلا دیا جائے جیسا کہ فقہاء نے کہا ہے:
اللہ أکبر جھکنے کے ساتھ اور جھکنا اللہ أکبر کے ساتھ ہو، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اللہ أکبر جھکنے کے ساتھ ساتھ ہو۔
اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اکمال و تکمیل کے پیش نظر دوسری حدیث ذکر کی ہے۔
باب کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قنوت کا محل رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے، نیز نماز میں کسی کا نام لے کر دعا یا بددعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی جیسا کہ بعض فقہاء نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔
(فتح الباري: 377/2)
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث ہم آئندہ حدیث:
(4560)
میں بیان کریں گے۔
إن شاءاللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 804
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1006
1006. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب آخری رکعت (کے رکوع) سے اپنا سر اٹھاتے تو دعا کرتے: ”اللہ! عیاش بن ربیعہ کو نجات دے۔ اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ! بےبس اور ناتواں اہل ایمان کو نجات دے، اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی گرفت سخت فرما، اللہ! ان پر ایسی قحط سالی ڈال جیسی حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں تھی۔“ اور نبی ﷺ نے فرمایا: ”قبیلہ غفار کو اللہ تعالیٰ نے بخش دیا اور قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے سلامت رکھا۔“ (راوی حدیث) حضرت ابو زناد اپنے باپ سے بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ مذکورہ دعائیں صبح کی نماز میں تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1006]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ حدیث دو حصوں پر مشتمل ہے جس حصے میں کفار کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر ہے۔
یہ حصہ ہجرت سے پہلے کا ہے۔
اور قبیلۂ غفار اور قبیلۂ اسلم کے متعلق حصہ ہجرت کے بعد کا ہے۔
ان دونوں واقعات کو یکجا کر کے بیان کر دیا گیا ہے۔
شاید امام بخاری ؒ نے اسی طرح اپنے شیوخ سے سنا ہو۔
امام بخاری ؒ کا آخری حصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف ان مشرکین کے لیے بددعا کرنی چاہیے جن سے صلح کا معاہدہ نہ ہو۔
ان دونوں کا ذکر اس لیے ہوا کہ قبیلۂ غفار تو مسلمان ہو چکا تھا اور قبیلۂ اسلم نے آپ کے ساتھ صلح کر لی تھی۔
ایک روایت میں قبیلۂ عصیہ کا ذکر ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو کتاب الاستسقاء میں "استدلال بالأضداد" کی غرض سے بیان کیا ہے کہ جب بددعا کرنا جائز ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو دعا کرنا تو بالاولیٰ جائز ہونا چاہیے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے مقصود تنبیہ کرنا ہے کہ جب اہل ایمان کے لیے بارانِ رحمت کی دعا کرنا مشروع ہے تو اہل کفروشرک کے لیے قحط سالی کی بددعا کرنا بھی جائز ہے، تاکہ ان کے دلوں میں کچھ نرمی پیدا ہو جائے۔
(فتح الباري: 636/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1006
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2932
2932. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ قنوت کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: ”اے اللہ!سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ!تمام کمزور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ!قبیلہ مضر پر اپنا سخت عذاب نازل فرما۔ اے اللہ! ایسا قحط نازل فر جیسا حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں پڑا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2932]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کی بددعا کہ اے اللہ! ان پر اپنی پکڑ سخت کردے اور انھیں ایسے قحط میں مبتلا کردے جو حضرت یوسف ؑکے وقت پڑا تھا۔
یہ الفاظ اس قدر جامع ہیں جو کفار کے شکست کھانے اور ان کے پاؤں پھسلنے کو شامل ہیں۔
مقصد یہ ہے کہ دوران جنگ میں بھی اس قسم کی بددعا کی جا سکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2932
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3386
3386. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے بایں الفاظ دعا فرمائی: ”اےاللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو رہائی دلا دے اللہ تمام کمزوراور ناتواں مسلمانوں کو نجات دلا۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی گرفت سخت کردے۔ اے اللہ! انھیں قحط سالی میں مبتلا کردے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کےزمانے میں قحط سالی پڑی تھی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3386]
حدیث حاشیہ:
1۔
جن دنوں حضرت یوسف ؑ جیل میں قید تھے عزیز مصر کو ایک خواب آیا جسے حضرت یوسف ؑ کے سامنے ان الفاظ میں بیان کیا گیا:
”اے راست باز ساتھی جناب حضرت یوسف ؑ! ہمیں اس خواب کی تعبیر بتائیے۔
سات موٹی گائیں ہیں جنھیں سات دبلی گائیں کھائے جا رہی ہیں اور سات ہری بالیاں ہیں اور سات دوسری خشک ہیں۔
حضرت یوسف ؑ نے فرمایا:
"تم سات سال لگاتار کھیتی باڑی کروگے جو کھیتی تم کاٹو۔
اس میں سے کھانے کے لیے تھوڑا بہت اناج چھوڑ کر باقی کو بالیوں ہی میں رہنے دو۔
پھر اس کے بعد سات سال بہت سخت آئیں گے اور جو اناج تم نے ان سالوں کے لیے پہلے سے جمع کیا ہو گا وہ سب کھا لیا جائے گا سوائے اس تھوڑے سے اناج کے جو تم بچا لو گے۔
پھر اس کے بعد ایک ایسا سال آئے گا جس میں باران رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ اس میں رس نچوڑیں گے۔
“ (یوسف: 12۔
47۔
49)
سیدنا یوسف ؑ نے قحط سالی اور اس سے محفوظ رہنے کی تدبیر بھی انھیں بتادی۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی قبیلہ مضر پر اسی طرح کے قحط اور خشک سالی کی بددعا کی جو قبول ہوئی۔
2۔
اس حدیث میں حضرت یوسف ؑ کی سیرت کا ایک پہلو بیان ہوا ہے امام بخاری ؒ نے اسی لیے یہاں اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3386
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4560
4560. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی پر بددعا کرن چاہتے یا کسی کے لیے دعا کرنا چاہتے تو بعد از رکوع قنوت کیا کرتے۔ متعدد مرتبہ آپ نے سمع الله لمن حمده کے بعد یہ دعا کی: ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابوربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی گرفت سخت کر دے اور انہیں ایسی قحط سالی سے دوچار کر دے جیسی زمانہ یوسف ؑ میں ہوئی تھی۔“ آپ یہ بددعا بآواز بلند کیا کرتے تھے۔ نماز فجر کی بعض رکعات میں آپ اس طرح بددعا کرتے تھے: ”اے اللہ! فلاں اور فلاں پر لعنت کر۔“ عرب کے چند قبائل کا نام لیا کرتے تھے حتی کہ اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ﴾ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4560]
حدیث حاشیہ:
1۔
ولید بن ولید، حضرت خالد بن ولید ؓ کے بھائی ہیں، جنگ بدر میں مشرکین کے ساتھ قیدی بن کر مسلمانوں کے پاس آئے۔
فدیہ دے کر رہائی پائی، پھر اسلام قبول کیا اس کی پاداش میں انھیں مکہ میں محبوس کردیا گیا، پھرانھوں نے سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کے ساتھ وہاں سے بھاگ نکلنے کا پروگرام بنایا، چنانچہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔
2۔
ولید بن ولید رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی وفات پاگئے تھے۔
سلمہ بن ہشام ابوجہل کے بھائی اور ولید کے چچا کے بیٹے ہیں۔
عیاش بن ابی ربیعہ بھی ولید کے چچازاد ہیں۔
بہرحال اس آیت کی شان نزول کے متعلق مختلف واقعات کتب احادیث میں مروی ہیں، ممکن ہے کہ ان تمام واقعات کے پیش آنے کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہو کیونکہ ایک آیت کے نازل ہونے کا سبب مختلف واقعات ہوسکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4560
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4598
4598. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ نماز عشاء پڑھ رہے تھے کہ آپ نے سمع الله لمن حمده کہا، پھر سجدہ کرنے سے پہلے یوں دعا کی: ”اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ! کمزور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کو سخت سزا دے۔ اے اللہ! انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر دے جس طرح حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4598]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے چار ہجری میں ان کمزور اور بے بس مسلمانوں کی رہائی کے لیے دعا فرمائی جو مکہ مکرمہ میں کفار قریش کے ظلم وستم کا شکار تھے اور انھیں ہجرت سے بھی روک دیا گیا تھا۔
ان میں حضرت عیاش بن ابوربیعہ ؓ ابوجہل کے مادری بھائی جبکہ سلمان بن ہشام ؓ اس کے حقیقی بھائی تھے اور ولید بن ولید ؓ حضرت خالد بن ولید ؓ کے بھائی تھے۔
2۔
پہلے رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام لے کر رہائی اور خلاصی کے لیے دعا کی، پھرتمام کمزور مسلمانوں کے لیے دعا فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی دعا کی برکت سے انھیں نجات دی اور ہجرت سے بھی مشرف فرمایا۔
3۔
قبیلہ مضر کے لوگ ان دنوں کافر تھے اور مسلمانوں کو سخت تکلیف دیتے تھے، اس لیے آپ نے ان کے خلاف بد دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں قحط میں مبتلا کردیا۔
بعد میں یہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو کافر مسلمانوں کو تنگ کریں اور انھیں ستائیں تو ان پر قحط سالی اور بیماری کی بد دعا کرنا جائز ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4598
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6940
6940. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نمار میں (ان الفاظ کے ساتھ) دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید ؓ کو نجات دے۔ اے اللہ! تو بے بس اور مجبور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! مضر قبیلے پر اپنی گرفت سخت کر اور ان پر ایسا قحط مسلط کر جیسا یوسف ؑ کے زمانے میں آیا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6940]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ اہل مشرق جو مضر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ان دنوں مسلمان نہ تھے بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے مخالف تھے۔
(صحیح البخاري، الأذان حدیث 804)
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ دباؤ کی وجہ سے کفر اختیار کرنا حقیقی کفر نہیں اگرایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان بے بس اور مجبور لوگوں کے لیے دعا نہ فرماتے اور انھیں مومن قرارنہ دیتے،نیز اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جس پر جبر کیا جائے وہ کمزور ہی ہوتا ہے۔
3۔
واضح رہے کہ کمزور مسلمان ان دنوں مکہ مکرمہ میں کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار تھے اور ان کے جبر کرنے سے وہ کفر کے کاموں میں بھی شریک رہتے ہوں گے لیکن اکراہ کی وجہ سے انھوں نے اسے اختیار کیا اور ایسی حالت میں مجبوری اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 394/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6940