صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
99. بَابُ مَا يُدْعَى النَّاسُ بِآبَائِهِمْ:
باب: لوگوں کو ان کے باپ کا نام لے کر قیامت کے دن بلایا جانا۔
حدیث نمبر: 6178
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ الْغَادِرَ يُنْصَبُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”عہد توڑنے والے کے لیے قیامت میں ایک جھنڈا اٹھایا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6178 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6178
حدیث حاشیہ:
یہ بہت ہی ذلت ورسوائی کا موجب ہوگا کہ اس طرح اس کی دغا بازی کو میدان محشر میں مشتہر کیا جائے گا اور جملہ نیک لوگ اس پر تھو تھو کریں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6178
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6178
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر کوئی عہد شکنی کرتا تو اسے ذلیل و خوار کرنے کے لیے بھرے مجمع میں اس کے پاس ایک جھنڈا گاڑا جاتا تھا تاکہ لوگوں کے ہاں اس کی پہچان ہو جائے اور وہ اس قسم کی غداری اور عہد شکنی سے احتراز کریں۔
(2)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے لفظ ''فلاں بن فلاں'' سے ثابت کیا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا، اس لیے اس سلسلے میں ایک واضح حدیث بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''قیامت کے دن تمہیں تمہارے ناموں اور تمہارے باپ کے ناموں سے بلایا جائے گا، لہذا تم اچھے نام رکھا کرو۔
'' (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4849)
چونکہ یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انہوں نے اسے نظرانداز کر دیا ہے۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
آباء سے مراد وہ ہیں جن کی طرف وہ دنیا میں منسوب ہوتے تھے، حقیقی باپ مراد نہیں ہے۔
(فتح الباري: 10/691)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6178
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2756
´عہد و پیمان کو نبھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2756]
فوائد ومسائل:
یعنی ایسے شخص کو رسوا کیا جائے گا۔
اوراعلان کیا جائے گا۔
کہ یہ اس دھوکے باز کا انجام ہے۔
عہد وپیمان دو افراد کے درمیان ہو۔
یا دو قوموں کے درمیان مسلمانوں کے ساتھ ہو یا کافروں کے ساتھ بد عہدی دنیا اور آخرت میں رسوائی کا باعث ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2756
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4529
امام صاحب مختلف اساتذہ کی سندوں سے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کو پہلے، پچھلے تمام انسانوں کو جمع کرے گا تو ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا، یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4529]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
غَادِر:
عہد شکن،
بے وفا۔
(2)
راية:
بڑا جھنڈا،
جو سپہ سالار کے پاس ہوتا ہے۔
فوائد ومسائل:
عربوں کا یہ دستور تھا کہ وہ عہد شکنی کی تشہیر کے لیے،
بازاروں میں سیاہ جھنڈے گاڑتے تھے تاکہ تمام لوگ اس کی مذمت اور برائی بیان کریں،
اس لیے ان کی عادت و عرف کو ملحوظ رکھتے ہوئے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عہد شکن کے ساتھ قیامت کے دن بھی یہی سلوک ہو گا کہ تمام انسانوں میں اس کی عہد شکنی کی تشہیر کی جائے گی،
خصوصا امیر لشکر یا امیر المؤمنین،
حکمران کی عہد شکنی کی حرمت زیادہ شدید ہے،
کیونکہ اس کی عہد شکنی کا نقصان،
سب سے زیادہ ہوتا ہے اور اسے عہد شکنی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی،
بلکہ وہ ایفائے عہد پر زیادہ قادر ہوتا ہے،
اس لیے اس کو اپنے عہدہ اور منصب یا ذمہ داری کو پوری دیانت و امانت کے ساتھ پورا کرنا چاہیے اور رعایا کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے،
اس طرح عوام اور رعایا کو بھی،
امیر کے ساتھ وفا کرنا چاہیے اور بلاوجہ اس کے خلاف شورش برپا کرنے اور بغاوت و سرکشی اختیار کرنے سے باز رہنا چاہیے،
کیونکہ دونوں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریوں کے پورا کرنے کے سلسلہ میں اللہ کے ہاں جواب دہ ہیں،
اس لیے اس حدیث کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو انہوں نے اپنی اولاد اور خدم و حشم کو جمع کر کے فرمایا تھا کہ تم میں سے جو بھی ان لوگوں کے ساتھ تھا،
اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے،
کیونکہ ہم یزید کی بیعت کر چکے ہیں اور اس سے بڑھ کر کوئی عہد شکنی نہیں ہے کہ جس کی بیعت کی ہے اس کے خلاف جنگ لڑی جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4529
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3188
3188. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہر غدار کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جو اس کی دغا بازی کے سبب گاڑا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3188]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کتاب الجہاد کو ختم کرتے ہوئے ان احادیث کو لا کر یہ بتلا رہے ہیں کہ اسلام میں ناحق قتل و غارت، فساد و دغا بازی ہرگز ہرگز جائز نہیں ہے۔
اگرکوئی مسلمان ان حرکتوں کا مرتکب ہوگا تو ان کا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔
اسلام کو اس سے کوئی ضرر نہ پہنچ سکے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3188
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7111
7111. سیدنا نافع سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنے خادموں اور بیٹوں کو جمع کیا اور کہا: بے شک میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن ہر غدار کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائےگا۔“ ہم نے اس شخص کی بیعت اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے۔ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی غداری نہیں کہ ایک شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے، پھر اس کے خلاف لڑائی کھڑی کر دی جائے۔ دیکھو! تم میں سے جو کوئی اس کی بیعت توڑے گا اور کسی دوسرے کی بیعت کرے گا تو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7111]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ پہلے مدینہ والوں نے یزید کو اچھا سمجھا تو اس سے بیعت کرلی تھی پھر لوگوںکو اس کے دریافت حال کرنے کے بعد یزید کے نائب بن محمد ابن ابی سفیان کو مدینہ سے نکال دیا اور یزید کی بیعت توڑ دی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7111
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6966
6966. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر دھوکہ دینے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے سے وہ پہچانا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6966]
حدیث حاشیہ:
جس سے لوگ پہچان لیں گے کہ یہ دنیا میں دغا بازی کیا کرتا تھا (خود آگے فرماتے ہیں کہ میں تم میں کا ایک بشر ہوں تم میں کوئی زبان دراز ہوتا ہے میں اگر اس کے بیان پر اس کے بھائی کا حق اس کو دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں۔
جب آپ کے فیصلے سے دوسرے کا مال حلال نہ ہو تو کسی قاضی کا فیصلہ موجب حلت کیوں کر ہو سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6966
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3188
3188. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہر غدار کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جو اس کی دغا بازی کے سبب گاڑا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3188]
حدیث حاشیہ:
1۔
زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ رائج تھا کہ جو شخص غداری کرتا تو حج کے ایام میں اس کے لیے جھنڈا بلند کیا جاتا تاکہ لوگ اسے پہچان کر اس کی مذمت کریں اور اس سے بچ جائیں ایک دوسری روایت میں ہے۔
”یہ جھنڈا غدار کی مقعد پر لگایا جائے گا۔
“ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4537(1738)
تاکہ اہل محشر اس کی غداری سے مطلع ہوں اور اس پر نفرین و لعنت کریں۔
(فتح الباري: 341/8)
2۔
مقصد یہ ہے کہ غدار انسان کو قیامت کے دن بہت ذلیل کیا جائے گا اور اس کی بری صفت کی وجہ سے اس کی خوب شہرت کی جائے گی۔
3۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غداری حرام ہے۔
خاص طور پر اگر وقت کا حکمران ملک و ملت سے غداری کرتا ہے تو اس کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہےکیونکہ اس کے غدر کی وجہ سے ملک کا نقصان اور قوم کی اذیت بڑھ جاتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3188
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6966
6966. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر دھوکہ دینے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے سے وہ پہچانا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6966]
حدیث حاشیہ:
1۔
صورت مسئلہ اس طرح ہے کہ ایک شخص کے پاس خوبصورت لونڈی ہے جو کسی دوسرے شخص کو پسند آ گئی۔
وہ شخص مالک سے فروخت کرنے کا مطالبہ کرتا ہے لیکن مالک اس پر آمادہ نہ ہوا تو دوسرے شخص نے زبردستی چھین کر عدالت میں ثابت کر دیا کہ وہ مر گئی ہے۔
عدالت نے اس کی قیمت کا فیصلہ کر دیا اور مالک نے وہ قیمت وصول کر لی۔
اب اس لونڈی کے متعلق دو مؤقف ہیں:
جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ مذکورہ صورت غدر کی ایک قسم ہے کیونکہ غاصب کا یہ دعویٰ کہ وہ مر گئی، اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے حق میں ایک طرح کی خیانت اور دغا بازی ہے، لہذا اگر وہ زندہ مل گئی تو اصل مالک وصول کی ہوئی قیمت واپس کر کے وہ لونڈی لینے کا مجاز ہوگا اور وصول کی ہوئی قیمت اس لونڈی کی ثمن اور عوض بیع نہیں بنے گی کیونکہ ان دونوں میں باقاعدہ عقد بیع جاری ہی نہیں ہوا بلکہ مالک نے لونڈی کی قیمت تو محض اس کی ہلاکت کے گمان پر لی تھی، جب یہ سبب زائل ہو گیا تو اصل کی طرف رجوع واجب ہو گیا کہ وہ لونڈی اصل مالک ہی کی ہے۔
دوسراموقف "بعض لوگوں" کا ہے کہ جب غاصب نے اس کی قیمت ادا کر دی اور مالک نے اسے وصول کر لیا تو وہ لونڈی غاصب کی ملکیت میں آجائے گی اور اس کے لیے اسے اپنے کام میں لانا جائز ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ فعل جائز نہیں تاہم اگر کسی نے حماقت میں آکر کر لیا ہے تو اسے نافذ کر دیا جائے گا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث میں ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا ہے اور ان کی حیلہ سازی سے پردہ اٹھایا ہے، پھر ان کی تقسیم جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کے تار پود بکھیرے ہیں کہ یہ تقسیم باطل اور دھوکا دہی کی ایک قسم ہے، چنانچہ پیش کردہ حدیث ”دوسروں کے مال تم پر حرام ہیں“ جس طرح جواز حیلہ کی نفی کرتی ہے، نفاذحیلہ کی بھی نفی کرتی ہے۔
جب باطل طریقے سے کسی دوسرے کا مال کھانا حرام ہے تو اس کا نفاذ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔
اسی طرح اس میں باہمی رضا مندی کی شرط بھی مفقود ہے کیونکہ مالک نے مشروط طور پر لونڈی کی قیمت وصول کی ہے لیکن جب وہ مری نہیں تورضا مندی کی شرط ہونے سے رضا مندی بھی ختم ہو گئی۔
اس حیلے سے تو فساق وفجار کے لیے فسق وفجور میں مبتلا رہنے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔
ایک مسلمان کی شان نہیں کہ وہ ایسے حرکات کرے جس سے عیاش لوگوں کو فائدہ ہوا اور انھیں کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6966
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7111
7111. سیدنا نافع سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنے خادموں اور بیٹوں کو جمع کیا اور کہا: بے شک میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن ہر غدار کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائےگا۔“ ہم نے اس شخص کی بیعت اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے۔ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی غداری نہیں کہ ایک شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے، پھر اس کے خلاف لڑائی کھڑی کر دی جائے۔ دیکھو! تم میں سے جو کوئی اس کی بیعت توڑے گا اور کسی دوسرے کی بیعت کرے گا تو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7111]
حدیث حاشیہ:
1۔
واقعہ حرہ کا پس منظر بھی یہی بیان کیا جاتا ہے کہ اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ کر حکومت وقت سے بغاوت کر دی تھی، اس لیے ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کے متعلق کچھ گزارشات پیش کریں:
الف۔
حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میری امت کا وہ لشکر جو قیصر کے دارالحکومت پر پہلے حملہ آور ہوگا وہ اللہ کے ہاں مغفرت یافتہ ہے۔
“ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر۔
حدیث: 2924)
تاریخی طور پریہ بات ثابت ہے کہ 49 ہجری میں رومی پایہ سلطنت قسطنطنیہ پر پہلی مرتبہ چڑھائی کرنے والا مسلمانوں کا وہ لشکر تھا جس کا سربراہ یزید بن معاویہ تھا۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1186)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
قسطنطنیہ پر پہلی چڑھائی کرنے والے لشکر کے سپہ سالار یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
چونکہ معین تعداد کو لشکر کہا جاتا ہے، اس لیے اس فوج کا ہر ہرفرد بشارت مغفرت میں شریک ہے۔
“ (منھاج السنة: 252/2)
اس لشکرمیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، میزبان رسول حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ و دیگر اساطین صحابہ شریک تھے۔
2۔
جب ایک بدبخت عبدالرحمٰن بن ملجم کے ہاتھوں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کر دیے گئے تو 41 ہجری میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کی شرط پر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرلی۔
تاریخ میں یہ سال "عام الجماعة" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
چونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساڑھے چار سالہ دورحکومت، اندرونی خلفشار اور باہمی کشت وخون کی نذر ہوا تھا اس دور میں نہ تو کفار سے جہاد ہوا اور نہ اسلامی فتوحات اور خدمات ہی میں اضافہ ہوا بلکہ دو مرتبہ ہلاکت خیز خانہ جنگی کی صورت میں خون مسلم کی ارزانی ہوئی، اس لیے پیش بندی کے طور پر 50 ہجری میں کوفے کے گورنر، تجربہ کار اور عمررسیدہ صحابی جلیل سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دمشق آ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ تجویز دی کہ آپ اپنی زندگی میں ہی کسی شخص کو ولی عہد مقرر کر دیں تاکہ حصول اقتدار کی خاطر ممکنہ رسہ کشی کا سد باب ہوسکے اور انتشار پسند عناصر کو شرانگیزی کا بھی موقع نہ مل سکے۔
جانشین کے لیے انھوں نے آپ کے بیٹے یزید کا نام پیش کیا۔
لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی رائے سے فوری طور پر اتفاق نہ کیا بلکہ انھوں نے تمام صوبوں کے نمائندہ اجلاس پر موقوف رکھا چنانچہ اسی سال دمشق میں اجلاس ہوا جس میں اسلامی مملکت کے تمام معززین نمائندگان نے شرکت کی، اس میں یزید کی ولی عہدی پرغور ہوا، بالآخر اس تحریک کو اکثریت کی حمایت حاصل رہی لیکن کسی طرح آپ کو معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ کے کچھ لوگ یزید کی ولی عہدی سے خوش نہیں ہیں، اس لیے آپ نے گورنر مدینہ مروان بن حکم کو خط لکھا کہ وہ اکابرمدینہ کو جمع کریں اور ان کی رائے معلوم کر کے ہمیں مطلع کریں، چنانچہ مروان بن حکم نے مدینہ طیبہ میں ایک اجلاس کیا جس میں اکابر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ نے شرکت کی بلکہ اس اجلاس میں اس اہم قومی معاملے میں مشاورت کے لیے امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین بھی تشریف فرما تھیں۔
اس اجلاس میں حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی بھی قابل ذکر شخصیت نے یزید کی ولی عہدی کے متعلق کوئی اختلاف نہیں کیا۔
اس کی تفصیل صحیح البخاری حدیث 4827 میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بہرحال یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولی عہدی کا فیصلہ ہوگیا اور تمام علاقہ کے لوگوں نے ان کی ولی عہدی کے متعلق بیعت کی۔
(البدایة والنھایة: 79/7)
ولی عہدی کی بیعت مکمل ہونے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعاکی:
”اے اللہ! اگر میں نے یزید کو اس کے فضل وکمال کی وجہ سے اپنا ولی عہد بنایا ہے تو اسے بلند مقام پر پہنچا جس کی مجھے اس سے اُمید ہے اور اگر اس بات پر مجھے اس محبت نے آمادہ کیا جو ایک باپ کو اپنے بیٹے سے ہوتی ہے اور وہ اس منصب کا اہل نہیں ہے تو اسے منصب تک پہنچنے سے پہلے ہی موت دے دے۔
“ (تاریخ الإسلام للذھبي: 267/2)
3۔
امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنانے کے دس سال بعد تک زندہ رہے، آخر 22 رجب 60 ہجری بروز جمعرات دمشق میں فوت ہوئے اور ان کی نماز جنازہ یزید نے پڑھائی۔
دس سالہ ولی عہدی کے دوران میں آپ تین سال متواتر امارت حج کے عہدے پر فائز رہے۔
ان کی زیر امارت حج کے دوران میں بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ نے حج کیا اور آپ کی امامت ہی میں نماز پنجگانہ ادا کیں۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
یزید بن معاویہ نے 51۔
52۔
53۔
ہجری میں لوگوں کو حج کرایا۔
(البدایة والنھایة: 229/8)
امارت حج کے علاوہ اس دوران میں انھوں نے متعدد ملکی وملی خدمات سرانجام دیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد باضابطہ طورپر نئے سرے سے پوری اسلامی ریاست میں آپ کی بیعت امارت ہوئی جس کا آغاز وفاقی دارالحکومت شام کے مرکزی شہر دمشق میں ایک اجتماع عام سے ہوا، پھر ہر علاقے میں تعینات گورنروں کے ہاتھ ان کے لیے بیعت امارت کا انعقاد کیا گیا۔
تاریخ میں صرف سعد بن حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام ملتے ہیں جنھوں نےاس بیعت امارت میں شمولیت نہیں کی۔
ان کے علاوہ کبار صحابہ نے بیعت امارت میں عملاً حصہ لیا، البتہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیاست سے قطعاً کنارہ کش تھے حتی کہ جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کا اعلان کیا تو ان سے بھی بیعت نہیں کی۔
ان کے علاوہ چھوٹے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دوچار دس بیس نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔
۔
۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
۔
۔
4۔
یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری ایام میں واقعہ حرہ پیش آیا۔
اس کا پس منظر اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ دمشق میں یزید کے پاس گئے تاکہ انھیں ان کے کردار کا پتاچلے۔
وہاں ان کی خوب مہمان نوازی ہوئی، خاطر مدارات کی گئی۔
واپس آکر انھوں نے بتایا کہ یزید شراب نوشی اورزناکاری میں مبتلا ہے اور مدینے کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملائے بغیر علم بغاوت بلند کر دیا اور امیر مدینہ عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو وہاں سے نکال دیا گیا۔
بیعت توڑنے والوں میں عبداللہ بن حنظلہ اور عبداللہ بن مطیع پیش پیش تھے، چنانچہ عبداللہ بن مطیع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت محمد بن علی بن ابی طالب جو ابن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں کے پاس گئے اور ان سے بیعت توڑ دینے کی درخواست کی لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
ابن مطیع نے کہا:
یزید شراب پیتا ہے، نماز نہیں پڑھتا اور کتاب اللہ کے احکام کی پروانہیں کرتا۔
محمد بن علی نے جواب دیا:
میں یزید سے خود ملا ہوں، ان کے ساتھ رہا ہوں، میں نے کوئی ایسی بات نہیں دیکھی بلکہ میں نے انھیں ہمیشہ نماز کا پابند، خیر کا متلاشی، فقہ کا مسائل اور سنت کا متبع پایا ہے۔
(البدایة والنھایة: 233/8)
بہرحال بیعت توڑنے والوں نے مدینہ طیبہ کے تین طرف خندق کھودی اور چوتھی طرف انصار کے اسی محلے کو حصار سمجھ لیا جو ان کے ہمنوا نہیں تھا۔
جب یزید کو اس کی اطلاع ملی توانھوں نے مسلم بن عقبہ کی کمان سے ایک فوج بھیجی اور انھیں حکم دیا کہ پہلے ان لوگوں پر امان پیش کریں اگر نہ مانیں تو ان سے جنگ کریں، چنانچہ انھوں نے ان کی ہدایات کے مطابق عمل کیا۔
جب اہل مدینہ نے انکار کیا تو انصار کے بڑے گھرانے بنواشہل کے تعاون سے فوج شہر میں داخل ہوئی اور گنتی کے چند گھنٹوں میں شہر پر قبضہ ہوگیا۔
اس کے بعد مؤرخین نے دیومالائی انداز میں اس واقعے کی تفصیلات خود مرتب کی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
5۔
بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق ایک اسلامی سربراہ کی بیعت توڑنے کے جو شرعی تقاضے ہیں اہل مدینہ نے انھیں ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس سے مراد شاید ان لوگوں کی طرف سے اشارہ ہے جو دمشق میں سربراہ حکومت کے پاس گئے اور وہاں سے واپس آکر خلاف واقعہ باتیں بیان کیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت توڑنے کے متعلق جس قسم کے رد عمل کا اظہار کیا ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات نے بغاوت کے لیے جس چیز کو پیش کیا وہ شریعت کے مطابق نہ تھی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ حکومت میں جب حرہ کا واقعہ پیش آیا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبداللہ بن مطیع کے پاس گئے تو انھوں نے کہا:
ابوعبدالرحمان کے لیے مسند لاؤ۔
آپ نے فرمایا:
میں تمہارے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ حدیث بیان کرنے آیا ہوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے اطاعت کا عہد کرنے کے بعد اسے توڑ دیا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح حاضر ہوگا کہ اس کے پاس کوئی حجت اوردلیل نہیں ہوگی اور اگرایسی حالت میں وہ مرگیا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
“ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4793(1851)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس امام کی حکمرانی پر امت کا اجماع ہو اس کی بیعت لازم اور اس کے خلاف خروج حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ اس بغاوت میں حصہ لینے والوں کو معاف فرمائے اور قیامت کے دن ہم سب کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ عنایت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7111