Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
85. بَابُ إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَخِدْمَتِهِ إِيَّاهُ بِنَفْسِهِ:
باب: مہمان کی عزت اور خود اس کی خدمت کرنا۔
حدیث نمبر: 6137
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلَا يَقْرُونَنَا، فَمَا تَرَى؟ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں (تبلیغ وغیرہ کے لیے) بھیجتے ہیں اور راستے میں ہم بعض قبیلوں کے گاؤں میں قیام کرتے ہیں لیکن وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کیا ارشاد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہم سے فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کے پاس جا کر اترو اور وہ جیسا دستور ہے مہمانی کے طور پر تم کو کچھ دیں تو اسے منظور کر لو اگر نہ دیں تو مہمانی کا حق قاعدے کے موافق ان سے وصول کر لو۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6137 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6137  
حدیث حاشیہ:
اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں عرب کے مروجہ دستور کے تحت تھا جب مسافروں کے لئے دوران سفر میں جہاں مسافر قیام کرتا وہاں والوں کو ان کے کھلانے پلانے کا انتظام کرنا ضروری تھا۔
آج ہوٹلوں کا دور ہے مگرحدیث کا منشاء آج بھی واجب العمل ہے کہ مہمانوں کی خبر گیری کرنا ضروری ہے۔
مولوی عبدالحق بن فضل اللہ غزنوی جو امام شوکانی کے بلاواسطہ شاگرد تھے اور مترجم (وحیدالزماں)
نے صغر سنی میں ان سے تلمذ کیا ہے، بڑے ہی متبع سنت اورحق پرست تھے۔
مولانا موصوف کا قاعدہ تھا کہ کسی کے ہاں جاتے تو تین دن سے زیادہ ہر گز نہ کھاتے بلکہ تین دن کے بعد اپنا انتظام خود کرتے۔
(رحمۃ اللہ علیہ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6137   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3676  
´مہمان کے حق کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ ہم کو لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں، اور ہم ان کے پاس اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، ایسی صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جب تم کسی قوم کے پاس اترو اور وہ تمہارے لیے ان چیزوں کے لینے کا حکم دیں جو مہمان کو درکار ہوتی ہیں، تو انہیں لے لو، اور اگر نہ دیں تو اپنی مہمان نوازی کا حق جو ان کے لیے مناسب ہو ان سے وصول کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3676]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سرکاری امور کی انجام کی دہی کےلیے آنے والے سرکاری ملازم کی کھانے پینے اور رہائش کی ضرورت پوری کرنا بستی والوں کے لیے ضروری ہے۔

(2)
آج کل بڑے شہروں میں ایسے ملازمین کے لیے ٹھہرنے کا انتظام سرکاری طور پر ہوتا ہے، افسروں کو وہاں ٹھہرنا چاہیے اور کسی ماتحت پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔

(3)
جب سرکاری ملازم کو حکومت کی طرف سے سفر خرچ وغیرہ (ٹی اے۔
ڈی اے)

مہیا کیا جائے تو ملازم کو چاہیے کہ اس سے مناسب حد تک اپنی ضروریات پوری کرے۔
فضول خرچی کر کے یا غلط بیانی کر کے جائز حد سے زیادہ رقم وصول نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3676   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4516  
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور ہم ایسے لوگوں میں جا کر ٹھہرتے ہیں، جو ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے تو آپﷺ کا کیا خیال ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: اگر تم کسی قوم میں ٹھہرو اور وہ تمہارے لیے وہ چیز مہیا کریں جو مہمان کو ملنی چاہیے تو اس کو قبول کر لو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا مناسب حق، جو انہیں دینا چاہیے تھا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4516]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر اسلامی حکومت کوئی دستہ یا پارٹی کہیں بھیجتی ہے تو اس علاقہ کے لوگوں کو ان کی مہمان نوازی کرنی چاہیے،
لیکن امام احمد نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ جس علاقہ میں مہمان کو قیمتاً کھانا نہ مل سکتا ہو،
کیونکہ وہاں کوئی ہوٹل نہیں ہے تو وہاں لوگوں پر مہمان نوازی فرض ہے اور امام لیث کے نزدیک ہر جگہ کے لوگوں پر فرض ہے،
لیکن جمہور کے نزدیک مہمان نوازی سنت مؤکدہ ہے،
فرض نہیں ہے،
اس لیے اس کو جبراً وصول نہیں کیا جا سکتا،
الا یہ کہ مہمان لاچار ہو اور بھوک ستا رہی ہو،
صحیح بات تو یہ ہے اس کا تعلق،
اسلامی حکومت کے کارندوں سے تھا کیونکہ وقت وسائل اتنے عام نہیں تھے،
حکومت ہر جگہ ان کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام کر سکتی،
لیکن اب حکومت اس کا انتظام کرتی ہے،
انہیں اس کے لیے رقم مہیا کرتی ہے،
اس لیے اب جائز نہیں،
وگرنہ ایک دو مہمان کسی سے اپنا حق زبردستی وصول کرنے کی استطاعت کہاں رکھتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4516   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2461  
2461. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں کسی مہم پر بھیجتے ہیں تو کبھی ہم ایسے لوگوں کے پاس جاتے ہیں جو ہماری ضیافت تک نہیں کرتے تو اس کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ مہمان کی شایان شان میزبانی کا اہتمام کریں تو اسے قبول کر لو اور اگر وہ (مہمانی نوازی) نہ کریں تو زبردستی ان سے اپنی مہمانی کا حق وصول کر سکتے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2461]
حدیث حاشیہ:
مہمانی کا حق میزبان کی مرضی کے خلاف وصول کرنے کے لیے جو اس حدیث میں ہدایت ہے اس کے متعلق محدثین نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہ حکم مخمصہ کی حالت کا ہے۔
بادیہ اور گاؤں کے دور دراز علاقوں میں اگر کوئی مسافر خصوصاً عرب کے ماحول میں پہنچتا تو اس کے لیے کھانے پینے کا ذریعہ اہل بادیہ کی میزبانی کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
تو مطلب یہ ہوا کہ اگر ایسا موقع ہو اور قبیلہ والے ضیافت سے انکار کردیں، ادھر مجاہد مسافروں کے پاس کوئی سامان نہ ہو تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے ان سے اپنا کھانا پینا ان کی مرضی کے خلاف بھی وصول کرسکتے ہیں۔
اس طرح کی رخصتیں اسلام میں مخمصہ کے اوقات میں ہیں۔
دوسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ ضیافت اہل عرب میں ایک عام عرف و عادت کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس لیے اس عرف کی روشنی میں مجاہدین کو آپ نے ہدایت دی تھی۔
ایک توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عرب کے بہت سے قبائل سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر مسلمانوں کا لشکر ان کے قبیلہ سے گزرے اور ایک دو دن کے لیے ان کے یہاں قیام کرے تو وہ لشکر کی ضیافت کریں۔
یہ معاہدہ حضور اکرم ﷺ کے ان مکاتیب میں موجو دہے جو آپ نے قبائل عرب کے سرداروں کے نام بھیجے تھے۔
اور جن کی تخریج زیلعی نے بھی کی ہے۔
بہرحال مختلف توجیہات اس کی کی گئی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2461   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2461  
2461. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں کسی مہم پر بھیجتے ہیں تو کبھی ہم ایسے لوگوں کے پاس جاتے ہیں جو ہماری ضیافت تک نہیں کرتے تو اس کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ مہمان کی شایان شان میزبانی کا اہتمام کریں تو اسے قبول کر لو اور اگر وہ (مہمانی نوازی) نہ کریں تو زبردستی ان سے اپنی مہمانی کا حق وصول کر سکتے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2461]
حدیث حاشیہ:
(1)
مالی معاملات میں یہ گنجائش ہے کہ زبردستی چھینا ہوا اپنا مال کسی بھی طریقے سے واپس لیا جا سکتا ہے، البتہ بدنی عقوبات میں یہ حکم نہیں بلکہ ایسے حالات میں حاکم وقت، یعنی عدالت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
(2)
اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مہمانی واجب ہے۔
اگر کوئی میزبانی نہ کرے تو مہمان زبردستی اپنا حق لے سکتا ہے۔
لیکن جمہور محدثین کے نزدیک ضیافت سنت مؤکدہ ہے اور مذکورہ حدیث ایسے مجبور لوگوں سے متعلق ہے جن کے پاس زادراہ ختم ہو جائے اور ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہ ہو۔
ہمارے رجحان کے مطابق اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں میں کسی مقصد کے لیے جاتے تو اس زمانے میں سرکاری طور پر میزبانی کا اہتمام نہیں ہوتا تھا تو وہاں کے باشندے میزبانی کرتے تھے، آج کل چونکہ سرکاری انتظام ہوتا ہے یا عملہ تنخواہ دار ہے، اس لیے اب واجب تو نہیں، البتہ اخلاقی فرض ضرور ہے کہ وہ لوگ ضیافت کا اہتمام کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2461