صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
80. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ آسانی کرو، سختی نہ کرو۔
حدیث نمبر: 6125
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا وَسَكِّنُوا وَلَا تُنَفِّرُوا".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آسانی پیدا کرو، تنگی نہ پیدا کرو، لوگوں کو تسلی اور تشفی دو نفرت نہ دلاؤ۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6125 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6125
حدیث حاشیہ:
(1)
دین اسلام کی بنیاد آسانی پر رکھی گئی ہے جیسا کہ درج ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے:
٭ ”اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے وہ تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔
'' (البقرة: 2: 185)
٭ ”اللہ چاہتا ہے کہ تم سے تخفیف کرے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
“ (النساء4: 28)
٭ ”اس نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔
“ (الحج22: 78)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اسلام قبول کرے تو ابتدائے اسلام میں اس کی تالیف کرو اور اس قدر سختی نہ کرو کہ وہ اس سے نفرت کرتے ہوئے بھاگ جائے۔
(2)
ابتدا میں جس انسان کے لیے آسانی ہو وہ بعد کی سختی کو بخوشی قبول کر لیتا ہے اور شروع میں اس پر سختی کی جائے تو نتیجہ برعکس نکلتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6125
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 69
´روایت حدیث `
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 69]
� تشریح:
معلّمین و اساتذہ و واعظین و خطباء اور مفتی حضرات سب ہی کے لیے یہ ارشاد واجب العمل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 69
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:69
69. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”(دین میں) آسانی کرو، سختی نہ کرو اور لوگوں کو خوشخبری سناؤ، انہیں (ڈرا ڈرا کر) متنفر نہ کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:69]
حدیث حاشیہ:
1۔
اصول تعلیم یہ ہے کہ تعلیم کے لیے نشاط اور دلچسپی کا خیال رکھا جائے اس میں زیادہ شدت صحیح نہیں کہ طلباء کے دماغ تھک جائیں اور بالآخر وہ اپنے اندر بے دلی اور کم ہمتی محسوس کرنے لگیں۔
حدیث بالا میں اسی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر ڈرانے دھمکانے کا عمل نفرت کا باعث ہوتا ہے، اس لیے خوشخبری کے مقابلے میں نفرت کو بیان کیا گیا ہے حالانکہ خوشخبری کے مقابلے میں ڈرانا ہوتا ہے اس لیے ایک مبلغ اور معلم کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کا معاملہ کرے ڈرانے دھمکانے سے نفرت پیدا ہوگی نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ گھبرا کر ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہوں گے۔
(فتح الباري: 215/1)
2۔
واعظین کو چاہیے کہ وہ وعظ کرتے وقت ایسا پرکشش اور جاذب نظر اسلوب اختیار کریں جس سے لوگوں کے دلوں میں رغبت و محبت پیدا ہو صرف قرآن و حدیث میں آمدہ وعیدوں ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ قرآن کریم کے طرز پر بشارت و انذار کو ساتھ ساتھ رکھا جائے۔
اگر ہمیشہ بشارت ہی دی جائے گی تو لوگ رحمت پر بھروسہ کر کے بے خوف ہو جائیں گے اور اگر وعید ہی وعید پر زور ہوگا۔
تو لوگ رحمت سے مایوس ہو جائیں گے اور یہ دونوں چیزیں ایک متلاشی حق کے لیے بہت خطرناک ہیں مذکورہ حدیث میں تعلیم و تبلیغ کے لیے ایک درمیانی راہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 69