صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
68. بَابُ التَّبَسُّمِ وَالضَّحِكِ:
باب: مسکرانا اور ہنسنا۔
حدیث نمبر: 6088
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ، فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَبَذَ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيدَةً، قَالَ أَنَسٌ: فَنَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَثَّرَتْ بِهَا حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ ابن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا۔ آپ کے جسم پر ایک نجرانی چادر تھی، جس کا حاشیہ موٹا تھا۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ کی چادر بڑے زور سے کھینچی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شانے کو دیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے، اس پر نشان پڑ گئے۔ پھر اس نے کہا: اے محمد! اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے دیئے جانے کا حکم فرمایئے۔ اس وقت میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مڑ کر دیکھا تو آپ مسکرا دیئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیئے جانے کا حکم فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6088 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6088
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ قربان اس خلق کے کیا کوئی بادشاہ ایسا کر سکتا ہے۔
یہ حدیث صاف آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6088
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5809
5809. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا جبکہ آپ پر موٹے حاشیے والی نجرانی چادر تھی آپ کو ایک اعرابی ملا اور رسول اللہ ﷺ کی چادر سے آپ کو زور سے کھینچا حتیٰ کہ میں نے آپ کے کندھے پر زور سے کھنچنے کی وجہ سے ایک نشان دیکھا۔ پھر اس نے کہا: اے محمد! مجھے اللہ تعالٰی کے اس مال سے دینے کا حکم دیں جو آپ کے پاس ہے رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے پھر ہنس دیے اس کے بعد آپ نے اسے عطیہ دینے کا حکم دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5809]
حدیث حاشیہ:
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ ایسے تھے کہ اس گنوار کی اس حرکت کا آپ نے کوئی خیال نہیں فرمایا بلکہ ہنس کر ٹال دیا اور اسے خیرات بھی مرحمت فرما دی۔
فداہ روحي صلی اللہ علیه وسلم۔
جسم مبارک پر چادر تھی۔
باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5809
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5809
5809. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا جبکہ آپ پر موٹے حاشیے والی نجرانی چادر تھی آپ کو ایک اعرابی ملا اور رسول اللہ ﷺ کی چادر سے آپ کو زور سے کھینچا حتیٰ کہ میں نے آپ کے کندھے پر زور سے کھنچنے کی وجہ سے ایک نشان دیکھا۔ پھر اس نے کہا: اے محمد! مجھے اللہ تعالٰی کے اس مال سے دینے کا حکم دیں جو آپ کے پاس ہے رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے پھر ہنس دیے اس کے بعد آپ نے اسے عطیہ دینے کا حکم دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5809]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق فاضلہ سے متصف تھے۔
آپ نے اس گنوار کی حرکت کا کوئی نوٹس نہ لیا بلکہ مسکرا کر اسے ٹال دیا اور اسے خیرات بھی دی۔
اس وقت آپ کے جسم مبارک پر ایک چادر تھی اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب ثابت کیا ہے۔
(2)
دراصل آپ جس سے اسلام لانے کی امید کرتے، اس پر سختی نہ فرماتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کی قرآن کریم نے بھی شہادت دی۔
فداه أبي و أمي و روحي۔
صلی الله عليه وسلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5809