Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
67. بَابُ الإِخَاءِ وَالْحِلْفِ:
باب: کسی سے بھائی چارہ اور دوستی کا اقرار کرنا۔
حدیث نمبر: 6083
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَبَلَغَكَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ؟ فَقَالَ:" قَدْ حَالَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ وَالْأَنْصَارِ فِي دَارِي.
ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان احول نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا تم کو یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام میں معاہدہ (حلف) کی کوئی اصل نہیں؟ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قریش اور انصار کے درمیان میرے گھر میں حلف کرائی تھی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6083 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6083  
حدیث حاشیہ:
حلف یہ کہ قول قرار کر کے کسی اور قوم میں شریک ہو جانا جیسا کہ جاہلیت میں دستور تھا اب بھی البتہ ضرورت کے اوقات میں مسلمان اگر دوسری طاقتوں سے معاہدہ کریں تو ظاہر ہے کہ جائز ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6083   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6083  
حدیث حاشیہ:
اسلام میں عقد حلف نہیں ہے کیونکہ اس عقد سے باہمی اتفاق کی صورت مطلوب ہوتی ہے اور اسلام نے تمام مسلمانوں کو جمع اور یکجا کر دیا ہے اور ان کے دل جوڑ دیے ہیں، اب عقد حلف کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عقد حلف کا وجود ہے، بہرحال جس عقد حلف کی نفی ہے اس سے مراد دور جاہلیت کا عہد ہے جس کے ذریعے سے وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنتے تھے، اسلام نے اسے ختم کر دیا ہے، اور جس عقد حلف کا اس حدیث میں ذکر ہے اس سے مراد سلسلۂ مؤاخات ہے اور باہمی تعاون کے لیے عقد حلف کا جواز ہے۔
اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا عقد حلف اب بھی موجود ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اسلام نے غیر شرعی حلف عقد کو ختم کیا ہے اور وہ حلف اور عہد جائز ہے کیونکہ اسلامی اخوت اور مظلوم کی مدد کرنا وغیرہ اسلام میں پسندیدہ امر ہے، لہذا یہ منسوخ نہیں۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 617/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6083   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2926  
´قول و قرار پر قسمیں کھانے اور حلف اٹھانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ کرایا، تو ان (یعنی انس) سے کہا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا ہے کہ اسلام میں حلف (عہد و پیمان) نہیں ہے؟ تو انہوں نے دو یا تین بار زور دے کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ کرایا ہے کہ وہ بھائیوں کی طرح مل کر رہیں گے۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2926]
فوائد ومسائل:
اہل اسلام وایمان (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى) کی بنیاد پر جو عہد معاہدہ کر لیں جائز ہے۔
مگر جاہلیت کی طرح معاہدے جو محض عصبیت پر طے ہوتے تھے، ان کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
نبیﷺ کے فرمان: اسلام میں حلف نہیں کا مطلب بھی یہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2926   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1239  
1239- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں مہاجر ین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد نہیں فرمائی ہے۔ اسلام میں حلف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‏‏‏‏ تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے یہ روایت دوبارہ بیان کی اور بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں مہاجرین اور انصار کے درمیان حلف (ایک دوسرے کا حلیف ہونا) قائم کیا تھا۔ سفیان کہتے ہیں: علماء نے ا س کی وضاحت یہ کی ہے، بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1239]
فائدہ:
زمانہ جاہلیت میں کسی کو بھی حلیف بنا لیا جاتا تھا، ہماری شریعت نے اس سے منع فرما دیا ہے، کیونکہ جب کوئی کسی کا حلیف بن جا تا ہے تو وہ وراثت کا بھی حق دار بن جاتا ہے، جبکہ مواخاۃ میں ایسی چیز نہیں ہوتی، اس کے علاوہ حدیث میں وضاحت ہے کہ زمانہ جاہلیت کے حلف کا اسلام کی حالت میں بھی اعتبار کیا جائے گا، اگر کسی نے زمانہ جاہلیت میں کسی کو اپنی وراثت کا حق دار بنایا تھا، پھر وہ دونوں مسلمان ہو گئے، تو ان کے زمانہ جاہلیت کے حلف کا اعتبار کرتے ہوئے اس کو دی ہوئی وراثت اس کے پاس رہے گی۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1238