صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
38. بَابُ قَضَاءِ الصَّلَوَاتِ الأُولَى فَالأُولَى:
باب: اگر کئی نمازیں قضاء ہو جائیں تو ان کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا۔
حدیث نمبر: 598
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى الْقَطَّانُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ، قَالَ:" جَعَلَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ يَسُبُّ كُفَّارَهُمْ، وَقَالَ: مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتْ، قَالَ: فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ فَصَلَّى بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے حدیث بیان کی، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے جو ابی کثیر کے بیٹے ہیں حدیث بیان کی ابوسلمہ سے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر (ایک دن) کفار کو برا بھلا کہنے لگے۔ فرمایا کہ سورج غروب ہو گیا، لیکن میں (لڑائی کی وجہ سے) نماز عصر نہ پڑھ سکا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم وادی بطحان کی طرف گئے۔ اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز) غروب شمس کے بعد پڑھی اس کے بعد مغرب پڑھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 598 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 598
تشریح:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آپ نے پہلے عصر کی نماز ادا کی پھر مغرب کی۔ ثابت ہوا کہ فوت شدہ نمازوں میں ترتیب کا خیال ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 598
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:598
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاضر نمازوں کی طرح فوت شدہ نمازوں کو بھی ترتیب کے مطابق ادا کیا جائے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
اس روایت میں صرف نماز عصر کا بیان ہے جبکہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر، عصر اور مغرب تین نمازیں فوت ہوئی تھیں، جنھیں عشاء کے وقت حسب ترتیب ادا کیا گیا، آخر میں نماز عشاء باجماعت ادا فرمائی۔
اگرچہ بعض فقہاء کا موقف ہے کہ پہلے، وقت کی نماز ادا کی جائے، اس کے بعد سابقہ فوت شدہ نمازیں ادا کی جائیں، تاہم رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ مبارکہ یہ ہے کہ پہلے فوت شدہ نمازیں حسب ترتیب پڑھی جائیں، پھر حاضر نماز کو ادا کیا جائے۔
اگرچہ آپ کا مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا، لیکن رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے میں ہی خیرو برکت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے روز مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو اس قدر مشغول کیا کہ آپ کی چار نمازیں رہ گئیں۔
آپ نے فرصت کے وقت حضرت بلال ؓ کو حکم دیا، انھوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔
پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے نماز عصر پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے نماز عشاء پڑھائی۔
(مسند أحمد: 375/1) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا اور وقت کی نماز کے درمیان ترتیب ضروری ہے۔
اس کے علاوہ نماز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
“ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 631)
اس امر نبوی کے تحت نماز کے سلسلے میں جتنے بھی افعال و اعمال آئیں گے، ہمارے نزدیک ان سب کا ادا کرنا ضروری ہے۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 598