مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ
0
28. مسنَد عبد الله بن مسعود رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 4286
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ وَابِصَةَ الْأَسَدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: إِنِّي بِالْكُوفَةِ فِي دَارِي، إِذْ سَمِعْتُ عَلَى بَابِ الدَّارِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَلِجُ؟ قُلْتُ: عَلَيْكُمْ السَّلَامُ فَلِجْ، فَلَمَّا دَخَلَ، فَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ ، قُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَيَّةُ سَاعَةِ زِيَارَةٍ هَذِهِ؟! وَذَلِكَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، قَالَ: طَالَ عَلَيَّ النَّهَارُ، فَذَكَرْتُ مَنْ أَتَحَدَّثُ إِلَيْهِ. قَالَ: فَجَعَلَ يُحَدِّثُنِي عَنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُحَدِّثُهُ، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" تَكُونُ فِتْنَةٌ، النَّائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمُضْطَجِعِ، وَالْمُضْطَجِعُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَاعِدِ، وَالْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي خَيْرٌ مِنَ الرَّاكِبِ، وَالرَّاكِبُ خَيْرٌ مِنَ الْمُجْرِي، قَتْلَاهَا كُلُّهَا فِي النَّارِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَتَى ذَلِكَ؟ قَالَ:" ذَلِكَ أَيَّامَ الْهَرْجِ"، قُلْتُ: وَمَتَى أَيَّامُ الْهَرْجِ؟ قَالَ:" حِينَ لَا يَأْمَنُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ"، قَالَ: قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ:" اكْفُفْ نَفْسَكَ وَيَدَكَ، وَادْخُلْ دَارَكَ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَيَّ دَارِي؟ قَالَ:" فَادْخُلْ بَيْتَكَ"، قَالَ: قُلْتُ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي؟ قَالَ: فَادْخُلْ مَسْجِدَكَ، وَاصْنَعْ هَكَذَا، وَقَبَضَ بِيَمِينِهِ عَلَى الْكُوعِ، وَقُلْ: رَبِّيَ اللَّهُ، حَتَّى تَمُوتَ عَلَى ذَلِكَ".
وابصہ اسدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کوفہ میں اپنے گھر میں تھا کہ گھر کے دروازے پر آواز آئی: السلام علیکم! کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ میں نے کہا: وعلیکم السلام! آ جائیے، دیکھا تو وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے، میں نے عرض کیا: اے ابوعبدالرحمن! اس وقت ملاقات کے لئے تشریف آوری؟ وہ دوپہر کا وقت تھا (اور گرمی خوب تھی)، انہوں نے فرمایا کہ آج کا دن میرے لئے بڑا لمبا ہو گیا، میں سوچنے لگا کہ کس کے پاس جا کر باتیں کروں (تمہاے بارے خیال آیا اس لئے تمہاری طرف آ گیا)۔ پھر وہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنانے لگے اور میں انہیں سنانے لگا، اس دوران انہوں نے یہ حدیث بھی سنائی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”عنقریب فتنہ کا زمانہ آنے والا ہے، اس زمانے میں سویا ہوا شخص لیٹے ہوئے سے بہتر ہو گا، لیٹا ہوا بیٹھے ہوئے سے بہتر ہو گا، بیٹھا ہوا کھڑے ہوئے سے بہتر ہو گا، کھڑا ہوا چلنے والے سے بہتر ہو گا، چلنے والا سوار سے بہتر ہو گا اور سوار دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، اس زمانے کے تمام مقتولین جہنم میں جائیں گے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسا کب ہو گا؟ فرمایا: ”وہ ہرج کے ایام ہوں گے“، میں نے پوچھا کہ ہرج کے ایام سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”جب انسان کو اپنے ہم نشین سے اطمینان نہ ہو“، میں نے عرض کیا کہ اگر میں ایسا زمانہ پاؤں تو آپ اس کے متعلق مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”اپنے نفس اور اپنے ہاتھ کو روک لو اور اپنے گھر میں گھس جاؤ“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بتائیے کہ اگر کوئی شخص میرے گھر میں آ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا: ”اپنے کمرے میں چلے جاؤ“، میں نے عرض کیا کہ اگر وہ میرے کمرے میں آ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا: ”اپنی مسجد میں چلے جاؤ اور اس طرح کرو“، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کی مٹھی بنا کر انگوٹھے پر رکھی اور فرمایا: ”یہ کہتے رہو کہ میرا رب اللہ ہے یہاں تک کہ اسی ایمان و عقیدے پر تمہیں موت آجائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على نكارة فى بعض ألفاظه، الراوي عن عمرو بن وابصة مبهم فهو مجهول، وعلى القول بأنه إسحاق بن راشد كما فى الرواية التالية، فهو مختلف فيه.