صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
34. بَابُ التَّبْكِيرِ بِالصَّلاَةِ فِي يَوْمِ غَيْمٍ:
باب: بادل والے دنوں میں نماز کے لیے جلدی کرنا (یعنی سویرے پڑھنا)۔
حدیث نمبر: 594
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، أَنَّ أَبَا الْمَلِيحِ حَدَّثَهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ بُرَيْدَةَ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ، فَقَالَ: بَكِّرُوا بِالصَّلَاةِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ حَبِطَ عَمَلُهُ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، وہ قلابہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابوالملیح عامر بن اسامہ ہذلی نے ان سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم ابر کے دن ایک مرتبہ بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ صحابی کے ساتھ تھے، انہوں نے فرمایا کہ نماز سویرے پڑھا کرو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑی اس کا عمل اکارت ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 594 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 594
تشریح:
یعنی اس کے اعمال خیر کا ثواب مٹ گیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کر کے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جسے اسماعیلی نے نکالا ہے اور جس میں صاف یوں ہے کہ ابر کے دن نماز سویرے پڑھ لو۔ کیونکہ جس نے عصر کی نماز چھوڑی۔ اس کے سارے نیک اعمال برباد ہو گئے۔ حضرت امام کی عادت ہے کہ وہ باب ہی اس حدیث پر لاتے ہیں۔ جس سے آپ کا مقصد دوسرے طریق کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔ جس کو آپ نے بیان نہیں فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 594
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:594
حدیث حاشیہ:
بارش اور ابر آلود دن میں نماز جلدی پڑھنے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ وقت کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے مبادا نماز قضا ہوجائے یا وقت مکروہ میں داخل ہوجائے جو بمنزلہ ترک صلاۃ ہے۔
اس مقام پر دو اشکال ہیں:
٭امام بخاری ؒ نے جلدی نماز پڑھنے کا عنوان قائم کیا ہے اور استدلال حضرت بریدہ ؒ کے قول سے کیا ہے جو موقوف ہے، جبکہ امام بخاری ؒ مرفوع روایت استدلال میں پیش کرتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت بریدہ کا استدلال چونکہ مرفوع حدیث سے تھا، اس لیے امام بخاری ؒ کا استدلال بھی مرفوع روایت سے ہے، اگرچہ بالواسطہ ہے۔
٭دوسرا اشکال یہ ہے کہ وعید تو عصر کی نماز کے ساتھ خاص ہے جبکہ عنوان میں عموم ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ بھی نماز عصر سے متعلق ہے اور حضرت بریدہ ؓ نے بھی نماز عصر سے متعلق حدیث پیش کی جیسا کہ صحیح بخاری کی دوسری روایت (553)
میں ہے، پھر ازروئے قیاس ہر نماز کی طرف اشارہ ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس سلسلے میں ایک مرسل حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ابر آلود دن میں نماز عصر جلدی پڑھ لو۔
“ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعجیل عصر سے مراد اسے نماز ظہر کے ساتھ جمع کرنا ہے، کیونکہ حضرت عمر ؓ سے منقول ہے، آپ نے فرمایا کہ ابر آلود دن میں ظہر کو مؤخر اور عصر کو جلدی کرکے دونوں جمع کر لو۔
(فتح الباري: 88/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 594