صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
33. بَابُ مَا يُصَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ مِنَ الْفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا:
باب: عصر کے بعد قضاء نمازیں یا اس کے مانند مثلاً جنازہ کی نماز وغیرہ پڑھنا۔
حدیث نمبر: 591
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَتْ عَائِشَةُ ابْنَ أُخْتِي" مَا تَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِي قَطُّ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی، کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میرے بھانجے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات میرے یہاں کبھی ترک نہیں کیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 591 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 591
تشریح:
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لا کر ان کو پڑھ لیا کرتے تھے، اور یہ عمل آپ کے ساتھ خاص تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 591
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 591
حدیث حاشیہ:
یعنی آپ ﷺ گھر تشریف لا کر ان کو پڑھ لیا کرتے تھے، اوریہ عمل آپ کے ساتھ خاص تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 591
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:591
حدیث حاشیہ:
(1)
اس واقعے کی ابتدا حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر سے ہوئی تھی، پھر اس کی ادائیگی پر دوام سیدہ عائشہ ؓ کے گھر میں ہوا۔
یہی وجہ ہےکہ اگر کسی موقع پر ان رکعات کے متعلق تحقیق کی گئی تو آپ نے حضرت ام سلمہ ؓ کا حوالہ دیا اور آپ نے خود ان کے متعلق پوری ذمے داری نہیں اٹھائی، چنانچہ عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں:
میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے دیکھا اور وہ اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ کا حوالہ دیتے تھے کہ جب بھی نبی ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر آتے آپ انھیں ضرور ادا فرماتے اور اسے حضرت عائشہ ؓ نے خود بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1631)
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ عصر کے بعد ان دورکعات کی ادائیگی کا بڑی شدت سے اہتمام فرماتے تھے، چنانچہ آپ کے اس عمل کے متعلق تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اگرچہ عبداللہ بن زبیرؓ حضرت عائشہ ؓ کا حوالہ دیتے ہیں، تاہم اصل تحقیقی خبر حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس ہے۔
(2)
اس سے متعلق دو تفصیلی روایات مسند احمد (6/299 اور6/303)
میں موجود ہیں۔
ان تفصیلی روایات سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عصر کے بعد دورکعت پڑھنا اور اس پر دوام کرنا آپ کی خصوصیت پر محمول ہے، لیکن عبداللہ بن زبیر ؓ اسے بطور اسوہ اور نمونہ خیال کرتے ہوئے اس عمل پر زندگی بھر کاربند رہے۔
سنن نسائی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ انھیں غروب آفتاب سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔
(سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 582)
والله أعلم بحقيقة الحال.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 591