Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
21. بَابُ وَضْعِ الصَّبِيِّ فِي الْحِجْرِ:
باب: بچے کو گود میں بٹھلانا۔
حدیث نمبر: 6002
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" وَضَعَ صَبِيًّا فِي حَجْرِهِ يُحَنِّكُهُ فَبَالَ عَلَيْهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَأَتْبَعَهُ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچہ (عبداللہ بن زبیر) کو اپنی گود میں بٹھلایا اور کھجور چبا کر اس کے منہ میں دی، اس نے آپ پر پیشاب کر دیا آپ نے پانی منگوا کر اس پر بہا دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6002 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6002  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے سبق ملتا ہے کہ بچوں پر شفقت اور مہربانی کرنی چاہیے۔
اگر ان سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس پر صبر کرنا عقلمندی کی دلیل ہے۔
محبت وپیار سے انھیں اپنی گود میں بٹھانا بچوں کا حق ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت شفقت فرماتے تھے، اگر ان سے کوئی کوتا ہی ہو جاتی تو ان کا مؤاخذہ نہ فرماتے کیونکہ وہ معصوم اور غیر مکلّف ہیں۔
(فتح الباري: 533/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6002   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 222  
«والنجاسات هي غائط الإنسان وبوله إلا الذكر الرضيع»
اور نجاستیں یہ ہیں: مطلق طور پر انسان کا پیشاب اور پاخانہ۔ مگر دودھ پیتے بچے کا پیشاب (نجس نہیں)۔
جیسا کہ دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابوالسمح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِيَةِ، وَيُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ»
لڑکے کے پیشاب سے آلودہ کپڑا دھویا جائے گا اور لڑکی کے پیشاب سے آلودہ کپڑے پر پانی کے چھینٹے مارے جائیں گے۔ [أبو داود 376] ۱؎
➋ اس معنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوع روایت مروی ہے: «بول الغلام الرضيع ينضح و بون الجارية يغسله» [أبو داود 378] ۲؎
➌ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچے کو لے کر، جو کہ ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پر پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور «وفنضحه ولم يغسله» اس کپڑے پر پانی کے چھینٹے مارے اور اسے دھویا نہیں۔ [بخاري 223] ۳؎
➍ حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دھویا نہیں (بلکہ چھینٹے مارنے پر ہی اکتفاء کیا)۔ [أبوداود 375] ۴؎
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر اس پر پھینک دیا «ولم يغسله» اور اسے دھویا نہیں۔ [بخاري 222] ۵؎

اس مسئلہ میں علماء نے تین مذاہب اختیار کیے ہیں۔
(علی رضی اللہ عنہ، احمد رحمہ اللہ، اسحاق رحمہ اللہ، زہری رحمہ اللہ) ان کا موقف حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق ہی ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، امام ثوری، امام نخعی، امام داؤد، امام عطاء، امام ابن وہب، امام حسن اور امام مالک رحمہم اللہ اجمعین سے ایک روایت میں یہی مذہب منقول ہے۔ [شرح زرقاني على مؤطا 129/1] ۶؎
(اوزاعی رحمہ اللہ) لڑکا اور لڑکی دونوں کے پیشاب میں صرف چھینٹے مارنا ہی کافی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت منقول ہے۔ [المجموع 548/2] ۷؎
(حنفیہ، مالکیہ) دونوں کے پیشاب کو دھونا ضروری ہے۔ [الدر المختار 293/1] ۸؎
(راجح) پہلا موقف راجح ہے۔
تیسرے مذہب والوں نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں بالعموم پیشاب کے نجس ہونے کا ذکر ہے۔ حالانکہ مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے۔ اور اسی طرح عام کو خاص پر محمول کرنا بھی واجب ہے۔علاوہ ازیں لڑکی کے پیشاب پر (لڑکے کے پیشاب کو) قیاس کرنا بھی فاسد ہے کیونکہ یہ واضح نص کے خلاف ہے، نیز گزشتہ صریح احادیث آخری دونوں مذاہب کو رد کرتی ہیں۔ [فتح الباري 390/1] ۹؎
(ابن حزم رحمہ اللہ) اپنے قول میں منفرد ہیں کہ مذکر خواہ کوئی بھی ہو (یعنی اگرچہ جوان بھی ہو) اس کے پیشاب پر صرف چھینٹے ہی مارے جائیں گے۔ (حالانکہ حدیث میں صرف دودھ پینے والے بچے کا ہی ذکر ہے)۔ [نيل الأوطار 95/1] ۱۰؎
------------------
۱؎ [صحيح: صحيح أبو داود 362، كتاب الطهارة: باب بول الصبي يصيب الثو ب، أبو داود 376، نسائي 158/1 ابن ماجة 566، ابن خزيمة 283، بيهقي 415/2، دارقطني 130/1، حاكم 166/1]
۲؎ [صحيح: صحيح أبو داود 364، كتاب الطهارة: باب بول الصبي يصيب الثوب، أبو داود 378، ترمذي 610، ابن ماجة 020، أحمد 76/1، شرح معاني الآثار 92/1، دارقطني 129/1، حاكم 160/1، بيهقي 415/2، ابن خزيمة 284، ابن حبان 247]
۳؎ [بخاري 223، كتاب الوضوء: باب بول الصبيان، مسلم 287، أحمد 355/6، أبوداود 374، ترمذي 71، نسائي 157/1 ابن ماجة 524، حميدي 343، ابن الجارود 139، ابوعوانة 202/1، ابن خزيمة 144/1، شرح معاني الآثار 92/1، بيهقي 414/2، شرح السنة 284/1]
۴؎ [صحيح: صحيح أبوداود 361، كتاب الطهارة: باب بول الصبي يصيب الثو ب، أبوداود 375، ابن ماجة 522، شرح معاني الآثار 92/1، حاكم 166/1، بيهقي 414/2 ابن خزيمة 282، شرح السنة 385/1، طبراني كبير 5/3]
۵؎ [مسلم 286، كتاب الطهارة: باب حكم بول الطفل الرضيع و كيفية غسله، بخاري 222، ابن ماجة 523، احمد 52/6]
۶؎ [شرح زرقاني على مؤطا 129/1، الكافي 91/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/ 47، مغني المحتاج 84/1، كشاف القناع 217/1، المهذب 49/1]
۷؎ [المجموع 548/2، مغني المحتاج 84/1، شرح زرقاني على مؤطا 129/1]
۸؎ [روضة الطالبين 141/1، شرح المهذب 409/2، بداية المجتهد 77/1، فتح القدير 140/1، الدر المختار 293/1]
۹؎ [نيل الأوطار 96/1، تلخيص الحبير 37/1، فتح الباري 390/1، عون المعبود 33/2، فقو الأثر 62/1، الفقه الإسلامي وأدلته 311/1، سبل السلام 69/1]
۱۰؎ [نيل الأوطار 95/1، الروضة الندية 76/1]
------------------

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 143   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:164  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے بچوں سے خاص شفقت کرتے تھے، اور ان کے لیے دعا بھی کیا کرتے تھے۔ دودھ پیتا بچہ اگر پیشاب کر دے تو اس پر پانی چھڑکنا درست ہے، اور اگر دودھ پیتی بچی پیشاب کر دے تو اس کو دھونا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 164   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 662  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بچوں کو لایا جاتا تھا، آپﷺ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کو گھٹی دیتے، آپﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپﷺ پر پیشاب کر دیا، تو آپﷺ نے پانی منگوایا، اور اس کے بول پر ڈال دیا، اور اسے دھویا نہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:662]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يُبَرِّكُ عَلَيْهِمْ:
ان کے لیے دعا کرتے اور ان پر ہاتھ پھیرتے،
برکت کا اصل معنی کثرت اور بڑھوتری ہے۔
(2)
يُحَنِّكُهُمْ:
تَحْنِيْك کا معنی ہوتا ہے کھجور وغیرہ چبا کر،
بچے کے منہ میں تالو پر مل دینا۔
(شرح نووی: 1/ 139)
فوائد ومسائل:
بچے کی پیدائش پر کسی اچھے اور نیک انسان سے گھٹی دلوانی چاہیے۔
اور اس سے اس کے لیے دعا کروانی چاہیے اچھے اور نیک لوگوں کو بھی تواضع وانکساری سے کام لیتے ہوئے بچوں کے ساتھ محبت وپیار کرتے ہوئے ان کو خیروبرکت کی دعا دینے میں حجاب محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
اور بچے کو گھٹی دینی چاہیے،
بچے کے پیشاب کا حکم آگے بیان ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 662   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 663  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شیرخوار بچہ لایا گیا اس نے آپﷺ کی گود میں پیشاب کر دیا آپﷺ نے پانی منگوا کر اسے اس پر ڈال دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:663]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يَرْضعُ:
دودھ پیتا بچہ۔
(2)
حَجْرٍ:
گود جھولی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 663   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:222  
222. حضرت ام المومنین عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا تو آپ نے پانی منگوایا اور اس پر بہا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:222]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث میں بچوں کے پیشاب کا حکم بیان ہوا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پیشاب بچے کا ہو یا بچی کا دونوں ہی ناپاک ہیں، البتہ حالات وظروف کے پیش نظر بچے کے پیشاب کے متعلق تخفیف ہے۔
بچہ اگر پیشاب کردے تو س پر پانی چھڑک دینا کافی ہے، البتہ بچی کے پیشاب کو دھونا ہوگا۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں اس کی صراحت منقول ہے:
بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے اور بچی کے پیشاب کو دھویاجائے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 377)
لیکن بچے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ دودھ کے علاوہ اور کوئی غذا نہ کھاتاہو۔
حضرت لبابہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بچی کا پیشاب دھویاجائے اور بچے کے پیشاب پر پانی چھڑک دیا جائے۔
(سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث 375)
حضرت ابوالسمح کی روایت میں بچے کے پیشاب پر رش کرنے کے الفاظ ہیں۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 376)
واضح رہے کہ نضح کا استعمال جب کپڑے کے ساتھ ہو تو اس سےمراد تھوڑا تھوڑا پانی بہانا ہوتا ہے، جسے رش (چھڑکنا)
بھی کہاجاتا ہے۔

لڑکے کے پیشاب کے لیے طریقہ تطہیر میں تخفیف کیوں رکھی گئی ہے؟ اس کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کے ساتھ تعلق خاطر زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لڑکے کواٹھانے والے والدین کے علاوہ دیگرخویش واقارب اور دوست احباب بہت ہوتے ہیں جبکہ لڑکی کو اٹھانے والے اس کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں، جب کسی معاملے میں ابتلاء زیادہ ہو تو شریعت اس پر تخفیف کردیتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس توجیہ کو قوی قراردیا ہے۔
(فتح الباري: 427/1)
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ لڑکے کے مزاج میں حرارت (گرمی)
غالب ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے مزاج میں لطافت ہوتی ہے، اس لطافت کی وجہ سے صرف پانی کا بہادینا کافی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے پیشاب کے اجزاء کپڑے سے نکل جائیں گے، لیکن لڑکی کے مزاج میں برودت (ٹھنڈک)
کی وجہ سے کثافت ہوتی ہے، اس بنا پر اس کے پیشاب میں بھی کثافت کے اثرات ہوتے ہیں جو صرف پانی کے بہاؤ سے زائل نہیں ہوتے جب تک انھیں اچھی طرح دھویا نہ جائے۔
بعض حضرات لڑکے اور لڑکی کے پیشاب میں فرق نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں کہ دونوں کی طہارت دھونے سے ہوگی، حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ آپ نے پیشاب پر پانی بہادیا اور اسے دھویا نہیں۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 662 (286)
)

اور ام قیس والی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی چھڑکنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 665 (287)
)

بلکہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے ایک ہی دفعہ اس پر پانی بہایا۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 663(286)
لیکن اصلاحی صاحب کے تدبر کا نتیجہ بایں الفاظ ظاہر ہوتا ہے:
یہ بات کہ لڑکے اور لڑکیوں کے پیشاب میں کوئی فرق نہیں تو اس کی کوئی علت نہیں۔
(تدبر حدیث: 305/1)
ہم نے وضاحت کی ہے کہ یہ رخصت اس وقت تک کے لیے ہے جب بچہ دودھ کے علاوہ اور کوئی چیز نہ کھاتا ہو لیکن اصلاحی صاحب کی سنیے فرماتے ہیں:
یہ بات کہ بچہ ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا کس کی وضاحت ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ بات آنحضرت ﷺ نے نہیں فرمائی۔
یہ بات بچے کی ماں نے کہی یا ابن شہاب نے گھسائی ہے اوراپنا فقہی مذہب روایت میں ڈال دیا ہے۔
(تدبر حدیث: 315/1)
ہم عرض کریں گے کہ اس کج بحثی کی یہاں ضرورت ہی کیا ہے کہ کھانا نہ کھانے کی وضاحت کس نے کی ہے؟ اصل مسئلہ توحدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ شیر خوار بچے کے پیشاب پر پانی کا بہا دینا یا چھڑک دینا کافی ہے۔
اس کی بابت اصلاحی صاحب کا تدبر خاموش ہے، حالانکہ اصل ضرورت تو مسئلے کی نوعیت کو واضح کرنا ہے وہ ان کے تدبر میں کہیں بھی نہیں۔
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان صاحب کا مقصد احادیث کی تشریح وتوضیح نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ ان میں شکوک وشبہات پیدا کرکے یا امام زہری کے خلاف زہر افشانی کرکے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا جائے۔
ھداھم اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 222